وفاقی وزارت توانائی نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو پیٹرولیم مصنوعات کی ڈی ریگولیشن کی تجویز بھجوائی ہے، جس کے لیے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کا عمل گذشتہ دو ہفتے سے جاری ہے
یاد رہے کہ اوگرا نے یکم اگست کو اجلاس بلا کر ڈی ریگولیشن پر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں سے مشاورت کی تھی جبکہ آئل ریفائنریوں سے مشاورت کے لیے 12 اگست کو اجلاس بلایا گیا تھا، جو بوجوہ ملتوی کردیا گیا تھا
ترجمان اوگرا عمران غزنوی کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی ڈی ریگولیشن کا فیصلہ فوری طور پر نہیں ہونے جا رہا بلکہ اس میں وقت ہے۔ دوسری جانب آئل مارکیٹ کے ماہرین ڈی ریگولیشن کے بارے میں کافی شکوک و شبہات کا شکار ہیں
سابق ممبر (آئل) اوگرا اور آئل کمپنیز ایڈوئزری کونسل (او سی اے سی) کے سابق چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر الیاس فاضل کا کہنا ہے کہ جن ممالک میں پیٹرولیم مصنوعات ڈی ریگولیٹڈ ہیں، وہاں یومیہ بنیادوں پر پیٹرول و ڈیزل کی قیمتیں طے ہوتی ہیں اور صارف کو جہاں سے کم قیمت مل رہی ہو وہ اسی پیٹرول پمپ پر جاتا ہے
تاہم انہوں نے کہا کہ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ وہاں قیمتوں کے ردو بدل پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ’ڈی ریگولیشن کے بعد قیمتوں پر نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ کہیں کارٹلائزیشن تو نہیں ہو رہی یا قیمتوں میں کوئی اور گڑبڑ تو نہیں ہونے جا رہی‘
واضح رہے کہ پاکستان میں پیٹرول و ڈیزل کی قیمتیں اس وقت بھی جزوی طور پر ڈی ریگولیٹڈ ہیں۔ گذشتہ سال معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت جمع کروائی گئی آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں اوگرا کا کہنا تھا کہ ہر پندرہ روز بعد پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں کا نوٹیفکیشن اوگرا جاری نہیں کرتا بلکہ نجی آئل ریفائنریاں ہی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری کرتی ہیں۔ البتہ پاکستان اسٹیٹ آئل (پیٹرولیم ڈویژن کی گائیڈ لائنز کی روشنی میں) ہر پندرہ روز بعد پریمیئم (کارگو اخراجات)، سی اینڈ ایف ایڈجسٹمنٹ، اتفاقی اخراجات، سمندری نقصانات اور کسٹم ڈیوٹی کا تعین کرتا ہے
پی ایس او بیرون ملک سے تیار شدہ پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرتا ہے جبکہ نجی آئل ریفائنریاں خام تیل منگوا کر خود صاف کرتی ہیں اور اس کو پیٹرول و ڈیزل میں تبدیل کرتی ہیں
پی ایس او عرب گلف مارکیٹ سے پیٹرول و ہائی سپیڈ ڈیزل منگواتا ہے، جہاں کی ریفائنریوں میں کام کرنے والے انجینیئرز اور ملازمین کی اوسط تنخواہ پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے اور بجلی اور انشورنس بھی مہنگی ہے، مگر اس کے باوجود حیران کن بات یہ ہے کہ پی ایس او کے درآمد کردہ پیٹرول و ڈیزل کی (ایکس ڈپو) قیمت اور یہاں کی نجی ریفائنریوں میں تیار ہونے والے پیٹرول و ڈیزل کی (ایکس ریفائنری) قیمت یکساں ہے
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قیمتوں کے تعین کے موجودہ طریقہ کار کے ذریعے انوینٹری کی مد میں نجی آئل ریفائنریاں پہلے ہی کافی کچھ کما رہی ہیں، ڈی ریگولیشن کے بعد ممکنہ طور پر صارفین کے لیے صورتحال مزید بدتر ہو سکتی ہے
اس سوال پر کہ کیا ڈی ریگولیشن کے ذریعے نجی آئل ریفائنریوں کو پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں کے تعین کا مکمل اختیار دینا چاہیے، تو ڈاکٹر الیاس فاضل کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کا اختیار او سی اے سی کو دینا اس وقت کی حکومت کا غلط فیصلہ تھا کیونکہ اس میں تو آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے نمائندے بیٹھے ہیں۔ ان کے بقول: ’یہ تو ایسے ہے جیسے بلے کو دودھ کی رکھوالی پہ لگا دیں۔‘
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی ڈہ ریگولیشن کو صارفین کے لیے خطرے کی گھٹی اس لیے بھی سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ ماضی میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی سربراہی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ہر پندرہ روز بعد پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کا اختیار او سی اے سی کو سونپنے کا فیصلہ کیا تھا، جبکہ ساتھ ہی کونسل میں اوگرا کے نمائندے کی شمولیت بھی ضروی قرار دی گئی تھی۔ مگر ہوا یہ کہ دو سے تین ماہ کے اندر پیٹرول وڈیزل کی قیمتیں اڑھائی گنا تک بڑھ گئیں جبکہ بعد میں پتہ چلا کہ اوگرا نے او سی اے سی کے لیے اپنا نمائندہ ہی نامزد نہیں کیا تھا
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کے غصے سے بچنے کے لیے موجودہ حکومت نے حل یہ نکالا ہے کہ تیل کے شعبے کو ڈی ریگولیٹ کردیا جائے تاکہ آئل ریفائنریاں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں خود طے کرسکیں
عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود پاکستان میں پیٹرول وڈیزل کی قیمتیں کافی زیادہ ہیں، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پیٹرول کے لیٹر پر لیوی، جوکہ 30 جون 2022 تک صفر تھی، موجودہ حکومت نے یکم جولائی سے اب تک بتدریج بڑھا کر ساڑھے 37 روپے تک پہنچا دی ہے، اس کے علاوہ حکومت نے ڈیلر کمیشن بھی چار روپے 90 پیسے فی لیٹر سے بڑھا کر سات روپے فی لیٹر کر دیا ہے
اگر موجودہ حکومت یکم نومبر کو نئی آئل پالیسی لا کر ڈی ریگولیٹ کرنے کے فیصلے پر قائم رہتی ہے تو پاکستان میں پیٹرول و ڈیزل کی قیمتیں کہاں تک اوپر جائیں گی، اس کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں
ممکنہ ڈی ریگولیشن کے حوالے سے ایک سوال یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ جب پیٹرول و ڈیزل کی قیمت کے تعین کا اختیار ریفائنریوں کے پاس چلا جائے گا تو اوگرا کا کیا کردار ہوگا۔ اس پر بات کرتے ہوئے عمران غزنوی نے کہا کہ ڈی ریگولیشن کے فیصلے میں ہی اوگرا کے مستقبل کے کردار کا تعین ہوگا۔ ’ابھی کیسے بتا دوں کہ ڈی ریگولیشن کے بعد اوگرا کا کیا کردار ہوگا؟‘
اٹک آئل ریفائنری لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عادل خٹک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پیٹرول و ڈیزل کی مرحلہ وار ڈی ریگولیشن تو کامیاب ہو سکتی ہے لیکن اگر حکومت نے ایک ہی مرحلے میں مکمل ڈی ریگولیشن کی تو اس کے منفی نتائج سامنے آ سکتے ہیں، بالخصوص ریفائنریوں اور آئل مارکیٹنگ کمنیوں کے کارٹلز بننے کا امکان بڑھ جائے گا۔