صوبہ بلوچستان میں حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب سے جہاں ایک جانب سینکڑوں گھر تباہ، درجنوں ہلاکتیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، وہیں صوبے کے کئی علاقوں میں فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں
بلوچستان حکومت کے مطابق صوبے کی نوے لاکھ ایکڑ زرعی اراضی تباہ ہو چکی ہے
وفاقی حکومت نے متاثرین کے لیے امداد کے اعلانات تو کیے ہیں لیکن سیلاب متاثرین اور صوبائی حکومت کے ارکان اس اعلان کردہ امداد کو ناکافی سمجھتے ہوئے اس میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں
بلوچستان کے بعض علاقوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جن کے گزر بسر کا واحد سہارا ان کی فصل تھی، جو اب سیلاب کی نذر ہو چکی ہے جبکہ زمینوں پر تاحال پانی کھڑا ہے
اپنی فصلوں کی تباہی دیکھ کر اب یہ لوگ اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ آنے والے دنوں میں ان کا گزر بسر آخر کیسے ہوگا؟
بلوچستان میں لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فصلیں تباہ ہونے کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صوبے میں اناج اورسبزیوں کا بحران بھی جنم لے سکتا ہے
بلوچستان کے ضلع صحبت پور کے رہائشی نیک محمد کھوسہ کی فصلیں بھی حالیہ سیلاب کے باعث مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں
نیک محمد کھوسہ نے بتایا: ’25 اور 26 اگست کی درمیانی رات کو نہر کو شگاف لگا۔ صبح سویرے ہمیں معلوم ہوا کہ پانی آ رہا ہے۔ دور سے ہی پانی کا شورسنائی دینے لگا۔‘
نیک محمد کا کہنا ہے ’سیلاب آنے سے تقریباً دو ہفتے قبل موسلادھار بارشیں جاری رہیں۔ جب سیلاب آیا تو افرا تفری کا عالم تھا۔ جس سے جتنا ہو سکا اس نے اتنی چیزیں نکال لیں، مکان بھی گرنے لگ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا علاقہ پانی سے بھر گیا۔ تا حد نظر پانی ہی پانی تھا۔‘
نیک محمد بتاتے ہیں کہ ’ان کے علاقے میں صرف چاول کی فصل کاشت ہوتی ہے جس پر علاقے کے زمین دار گزر بسر کرتے ہیں۔ ان کی تقریباً چار ہزار ایکڑ کی زرعی زمین پر چاول کی فصل کاشت تھی جو سیلاب کے بعد مکمل طور پر ڈوب چکی ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’بزرگ جو ہماری زمینوں پر کام کرتے ہیں ان کا بھی سب کچھ برباد ہو گیا ہے۔ آدھی فصل ان کی ہوتی ہے۔ اچھے وقت میں وہ ہمارے ساتھ ہیں تو برے وقت میں ہمیں بھی ان کا ساتھ دینا ہے، لیکن یہ مدد بھی ایک عرصہ کے لیے ہوگی، زیادہ ہم نہیں کر سکیں گے۔‘
اس علاقے میں اس سے قبل 2010 اور 2012 میں بھی سیلاب آ چکے ہیں
نیک محمد کہتے ہیں کہ اب تقریباً ڈیڑھ سال تک وہ کاشت کاری نہیں کر سکتے۔ ان کے علاقے میں نہ کوئی خوراک ہے اور نہ فصل ہے
انہوں نے کہا ’ہمیں سمجھ نہیں آ رہا کہ ہم کیسے گزارا کریں گے۔ تین دفعہ تو ڈوب چکے ہیں، اب ہمارے پاس کیا بچا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہماری مدد کرے۔‘
علاقے میں انگور اور سیب کی فصل سب سے زیادہ متاثر
سیب اور ٹماٹر کی فصل کاشت کرنے والے محمد ادریس کا تعلق ضلع قلعہ عبداللہ سے ہے
انہوں نے بتایا ’حالیہ سیلاب کے باعث ان کی ساٹھ ایکڑ پر مشتمل فصل نصف سے زیادہ تباہ ہو گئی ہے۔ ان کی سیب کی فصل پک کر تیار تھی جو بارشوں کے باعث آدھی سے زیادہ سیلاب کی نذر ہو گئی ہے۔‘
محمد ادریس کے مطابق: ’18 اور 19 اگست کی درمیانی رات کو ضلعے میں سیلاب آیا جس سے بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ یہاں اکثر آبادی کا تعلق کھیتی باڑی کے شعبے سے ہے۔ اس علاقے میں انگور اور سیب کی فصل سب سے زیادہ تباہ ہوئی ہے۔ انگور 90 فیصد تباہ ہو گیا ہے جبکہ سیب اور ٹماٹر کی فصلیں 50 سے 60 فیصد تباہ ہوئیں۔‘
’حکومت کھاد اور بیج فراہم کرے‘
ضلع نصیر آباد سے تعلق رکھنے محمد انور نے بتایا کہ ’اس علاقے میں چاول، تل اور سبزیوں کی فصل تباہ ہوئی ہے۔ نصیر آباد میں پانی کی قلت کے باعث تل کی فصل زیادہ اگائی جاتی ہے۔‘
ان کے مطابق سیلاب کی وجہ سے ان کی دو سو چالیس ایکڑ رقبے پر مشتمل زرعی اراضی تباہ ہوئی ہے
محمد انور اپنی فصلوں پر پچیس سے تیس کام کرنے والے ہاریوں کے لیے فکر مند ہیں، جو سیلاب سے شدید متاثرہوئے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان افراد کو کھاد اور بیج فراہم کر دے تو وہ آگے آنے والے وقت میں اپنا روزگار چلا سکیں گے
محمد انور کہتے ہیں کہ نصیر آباد سے ملک بھر میں چاول اور گندم جاتی ہے۔ ’اگر صرف مجھ جیسے چھوٹے زمین دار کی زمین پر اتنے کسان مثاثر ہوئے ہیں تو باقی جگہوں پر کتنا نقصان ہوا ہو گا؟‘
ان کا کہنا ہے: ’کسان سارا سال محنت کرتے ہیں اور اس سال سیلاب سے سب تباہ ہو گیا۔‘
مقبول بلوچ کا تعلق ضلع مستونگ سے ہے۔ سیلاب کے باعث ان کی آدھی سے زیادہ پیاز کی فصل تباہ ہو گئی اور جو بچ گئی وہ منڈی پہنچنے سے پہلے راستوں کی بندش کے باعث خراب ہو گئی
مقبول کی زمین پر ساٹھ سے ستر کسان کام کرتے ہیں۔ سیلاب نے ان کسانوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ حکومت متاثرین کو ریلیف فراہم کرے اور زمین داروں کا جو نقصان ہواہے اسے پورا کیا جائے
حکومت کا کیا کہنا ہے؟
بلوچستان کے وزیر زراعت میر اسد بلوچ نے بتایا ’حالیہ بارشوں اور سیلاب سے بلوچستان کی کئی لاکھ ایکڑ زرعی زمین تباہ ہوئی ہے اور سو ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کے چونتیس اضلاع میں سے اکتیس اضلاع میں زمین سیلاب کے باعث مکمل واش آؤٹ ہو گئی ہے۔ مکران میں کجھور کی ہزاروں ٹن فصل تباہ ہوئی ہے جبکہ بلوچستان میں مجموعی طور پر کپاس، انگور اور پیاز کی فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔‘
ان کے مطابق کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اس طرح کی تباہی پہلے کبھی نہیں دیکھی
صوبائی وزیر نے بتایا کہ ’بارشوں کے پہلے اسپیل کے دوران ہم نے صوبائی اسمبلی میں قرارداد بھی پیش کی اور اس وقت ساٹھ ارب روپے کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا جبکہ دوسرے سپیل میں ہونے والے نقصان کے بعد صوبے میں تین سو ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، جس میں سے ایک سو ارب زرعی نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وفاق نے جو دس ارب روپے کا اعلان کیا ہے اس سے تو بلوچستان کی ایک یونین کونسل کا نقصان بھی پورا نہیں ہونا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’حالیہ بارشوں اور سیلاب کے بعد صوبے میں کھانے پینے کی اشیا کی کمی ہے لیکن پانی ابھی بھی کھڑا ہے اور لوگوں نے اکتوبر، نومبر میں دال اور گندم کی فصلیں کاشت کرنی ہیں۔ اس حوالے سے درپیش مشکلات کے لیے وفاقی حکومت کردار ادا کرے۔‘
میر اسد بلوچ نے وفاق سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’وفاق ایک یونیفارم پالیسی کا اعلان کرے، لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھے۔ کاشت کاروں کو بیج اور ٹریکٹر فراہم کرے۔ لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے مدد کرے۔‘