یہ ایک پراٸمری اسکول کی پانچویں جماعت کا کمرہ تھا۔ دوسرا پیریڈ اردو کا ہی تھا۔ پیریڈ لینے کی غرض سے منہ میں پان چباتا ہوا درمیانے قد کا ایک استاد چوتھی جماعت کے کمرے سے نکل کر پانچویں جماعت کی طرف جانے لگا۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے، بال بڑھنے کی وجہ سے آدھے سفید آدھے کالے تھے۔ گریبان کھلا ہوا، شیو بڑھ چکا تھا۔۔ یہ سب کچھ اس بات کی غمازی کر رہے تھے، کہ یہ ایک پیدائشی و فطری استاد نہیں ہے۔ وہ ایک ڈگری یافتہ ضرور ہے مگر اس انسان کے دل و ذہن علم کی روشنی سے بے نور و بے منور ہیں۔ تنگ نظری، کوتاہ بینی، انتہا پسندی اور تشدد جیسے امراض اسے لاحق ہیں
اس نے جیسے ہی جماعت کے کمرے میں قدم رکھے، معصوم بچوں کو جیسے سانپ سونگ گیا ہو۔ استاد نے ٹیبل کے پیچھے رکھی ہوئی کرسی کو ذرا پیچھے کھسکایا، اور اس پر یوں بیٹھا، جیسے اس کا وجود اس کے بدن کے بوجھ سے ہی بیزار ہو۔
کرسی پر غیر مہذبانہ انداز میں کچھ منٹ بیٹھ کر اس نے پان کا مزہ لیا، پھر اٹھ کر جماعت کمرے کی کھڑکی سے تھوکا اور میز کی طرف بڑھتے ہوئے اپنی بے ڈھنگ آواز میں اعلان کیا کہ جن بچوں کو سبق یاد نہیں، وہ میز کے سامنے کھڑے ہو جائیں
بہت سے بچے یہ سوچ کر کھڑے ہو گئے کہ استاد سبق نہیں سنتا، اگر سنا بھی تو ایک حرف بھی یاد نہ ہونے پر چماٹ وہی لگنی ہے، جس سے کان سے سیٹی بجنے کی آواز آتی ہے۔ اسی طرح سبق یاد نہ کرنے والے بہت سے لڑکے میز کے سامنے کھڑے ہوئے
اتنے میں استاد نے میز پر سے چار فٹ لمبا ڈنڈا لیا اور تڑاک تڑاک لڑکوں کے ہاتھ اور پیٹھ پر ضربیں لگانا شروع کر دیں۔۔ کمرہ چیخوں سے گونجنے لگا
یہ روزانہ کا معمول تھا۔ ہمسایہ کلاسوں کے لڑکے، جن تک چیخیں جا رہی تھیں، وہ اس خوف میں مبتلا ہوتے گئے کہ اگلے پیریڈ میں ہماری باری ہے۔ مگر اس معمول میں اس دن ایک خلاف معمول رکاوٹ آئی۔ کیونکہ سبق یاد نہ کرنے والے مجرموں میں سے ایک لڑکا بھاگ کر ہیڈ ماسٹر کے آفس میں استاد کی شکایت لے کر گیا تھا
اسکول ہیڈماسٹر پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک تھے اور وہ علم کے گہرے سمندر کے غوطہ خور تھے۔ شمع علم سے اس علم کے دیوانے نے اپنے پر جلائے تھے۔ اسی وجہ سے ان کے رویے میں حسن اخلاق جھلکتا تھا۔ علم ہی کہ وجہ سے ان کے فکر و نظر کو وسعت تقویت ملی تھی اور وہ بردباری کی خوبیوں سے مزین تھے۔ اسکول اور غریب بچوں کی بھلائی کے لیے بہت کچھ کر چکے تھے اور اب بھی بہت کچھ کرنے کے خواہاں تھے
بچے کی شکایت پر وہ فوراً کرسی سے اٹھ کر کلاس کی طرف بڑھے۔ ہیڈ ماسٹر نے کلاس میں تحقیق کرنے کے بعد شکایت کرنے والے بچے کے والد سے فون پر بات کی۔ کیونکہ کہ اس بچے کو دوسروں کی نسبت زیادہ چوٹیں آئیں تھیں۔ اس بچے کے والد خود بھی استاد کے پیشے سے وابستہ تھے، انتہائی خوش اسلوبی سے ہیڈماسٹر اور ان کے درمیاں مسٸلے کو سلجھانے کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ کلاس میں ہیڈماسٹر کی تحقیق کی وجہ سے جنونی و نشئی استاد کی کارروائی تھوڑی دیر کے لیے رک گئی تھی۔ استاد نے نشہ ٹوٹتے ایک نشئی کی طرح اس لڑکے کو دیکھا، جس کی وجہ سے نسلِ نو کی تراش خراش رک گئی تھی۔۔ استاد نے حقارت بھری نگاہوں کے اشارے سے شکایت کرنے والے بچے کو کلاس سے باہر جانے کو کہا
بچہ کمرے سے باہر نکل کر آخری سہارہ اپنے والد کے اسکول میں چار کلو میٹر پیدل چل کر جانے لگا۔ اسی دوران ان کے والد کے اسکول میں ہاف ٹاٸم تھا۔ اسٹاف روم میں ان کے ہم عصر ٹیچر کے درمیان فرسودہ اور جدید تعلیمی نظام، استاد کی خامیوں اور خوبیوں کے متعلق بات ہو رہی تھی ۔ بچے کا والد اپنے ساتھی ٹیچر سے کہہ رہا تھا کہ ایک بچہ سہانے خواب دیکھتا ہے استاد کا کام یہ کہ بچے کی سہانے معصوم سے خوابوں کو سنوارے ،بچے کو حوصلہ دے۔ اس طرح کرنے سے بچے کی معصوم خواب پروان چڑھتے ہیں اور آہستہ آہستہ طالب علم بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ علمی میدان میں بڑھتا جائےگا اور ان کا ذہن کھلتا جاٸے گا، اس کے ساتھ طالب علم پر اعتماد ہونے کے ساتھ اس کی سوچ میں بھی پختگی آتی جائے گی
استاد کی خامیوں کے بارے میں وہ کہنے لگے کہ ہمارے درمیان کچھ ایسے استاد بھی ہوتے ہیں جو مسجدوں کے پیش امام ہیں مگر اپنے قومی فرض کو نبھانے سے قاصر نظر آتے ہیں، ان کی یہ بات جیسے اسلامیات کے استاد کو ناگوار گذری اور اس نے فوراً بچے کگ والد پر الفاظ کا وار کرتے ہوئے کہا کہ ”سر آپ کی باتیں تو درست بھی ہوں گی مگر آپ پابندی سے نماز نہیں پڑھتے“
بچے کے والد نے یہ سن کر مسکراتے ہوۓ کہا ”جی حضور آپ بجا فرما رہے ہیں میرے حق میں دعا کریں مگر علامہ اقبال نے بھی کیا خوب کہا ہے کہ”تری نماز میں جلال ہے نہ جمال۔ تری اذان میں نہیں ہے مری سحر کا پیام“ اس نے اپنی بات کو جاری کرتے ہوۓ کہا ”ایک اور جگہ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ” سجدہ عشق ہو تو عبادت میں مزہ اتا ہے ، خالی سجدوں میں تو دنیا بسا کرتی ہے
اسلامیات کے ٹیچر نے ناگوار لہجے میں کہا علامہ اقبال مولویوں کے خلاف تھے
بچے کے باپ نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے ۔۔ جی حضور ایسا نہیں ہے بلکہ علامہ اقبال ملاؤں کے قول و عمل میں تضاد ان کے ظاہری و باطنی طرز عمل میں امتیاز کی بات ضرور کرتے ہیں اور مولویوں کے دیے گئے سبق کو عالم انسانیت کے لئے رجعت پسندی کا درس سمجھتے ہیں۔ اس حوالے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ ”مولوی کا دل کسی غم میں گرفتار نہیں اس کے پاس آنکھ تو ہے اس میں نمی نہیں“
اتنے میں اسٹاف روم کے دروازے سے ایک بچے کی آواز آٸی ” May I come in sir“ اس نے مڑکر کر دیکھا کہ اس کا اپنا بیٹا تھا۔ اس نے بیٹے کو شفیقانہ انداز میں اندر آنے کو کہا مگر بچہ خوفزدہ لگ رہا تھا۔ والد کو بچے کے معاملات کاپتہ تھا مگر اس کے دل بٹھانے کے لیے بچے کی بات کوسننا ایک باپ کی حیثیت سے ترجیح دی۔
ہاں بول بیٹا کیسے انا ہوا۔
بیٹے نے ہچکیاں بھرتے ہوۓ کہا کہ ٹیچر نے ہم سب کو مارا مگر مجھے زور سے مارتے ہوئے بہت کچھ کہے بھی جارہا تھا اور اس کے علاوہ اسلامیات کے ٹیچر مجھ پر طنز کرتے ہیں اس پر کلاس کے دیگر بچے مجھ پر ہنستے ہیں۔ استاد کے مارنے پر جب میں نے اسکول ہیڈ ماسٹر سے شکایت کی ۔ ہیڈماسٹر نے استاد کو شاگردوں سے محبت سے پیش آنے کو کہا جب ہیڈماسٹر کلاس سے باہر نکلے تو اردو کے استاد نے مجھے کلاس سے باہر جانے کا اشارہ کیا۔“
باپ جان رہا تھا کہ ٹیچر کی طرف سے بچے کے ساتھ ایسا کیوں کیا جارہا ہے پھر بھی اس نے اپنے بیٹے کو حوصلہ دیتے ہو ۓ کہا ” دیکھو بیٹا اس حوالے سے آپ کے اسکول ہیڈ ماسٹر سے بات ہوگئی ہے ۔ تم پھر اسکول چلے جاؤ، بچے نے روتے ہوئے اسکول جانے سے انکار کیا۔ باپ نے انہیں اپنے پاس بٹھایا کہ تھوڑی دیر میں بچے کی طبیعت مار پڑنے کی وجہ سے غیر ہوگٸی اور بچہ نفسیاتی طور اسکول جانے سے انتہاٸی خوف سے کانپ بھی رہا تھا۔
باپ نے بچے کی یہ حالت دیکھی تو ان کا چہرہ زرد پڑنے لگا، اور سوچنے لگا کہ یہ وہ بچہ ہے جس نے پانچویں جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد اسکول کے ہیڈماسٹر سے اسکالر شپ پر تعلیم حاصل کا اسرار کیا تھا کہ ” سر پچھلے سال اپ نے بہت لڑکوں کو ہائر ایجوکیشن کے لیے بھیجا تھا اس سال جب میں پانچویں جماعت کا امتحان پاس کروں گا مجھے بھی وہیں بھیج دیں “
شفیق ہیڈماسٹر نے بچے کے جذبات کا قدر کرتے ہوئے انہیں حوصلہ دیا تھا ہیڈ ماسٹر نے بچے کی اس جذبے کا اظہار ان کے والد سے کیا تھا۔ باپ نے بچے کی طرف دیکھا انہیں یوں محسوس ہوا کہ جلاد ٹیچر نے بچے کی ان معصوم خوابوں کا قتل کیا ہے ۔ میں اس بچے کی معصوم خوابوں کے قاتل ٹیچر کو کیا سزا دے سکتا ہوں ۔ باپ کی آنکھیں نم ہوٸیں۔ مگر رو نہ سکا کیوں کہ مرد شیر کی طرح دن کو نہیں روتا تاکہ اسے جنگل کی لومڑی و دیگر جانور دیکھ کر بزدل سمجھیں۔ اس نے اپنے بیٹے کو حوصلہ دیتے ہوۓ کہا ” کوٸی بات نہیں اگر اپ اس اسکول میں جانا نہیں چاہتے تو میرے ہی اسکول میں پڑھنا یہاں دلشاد جیسے مہربان اور محنتی أستاد تمہیں خود پڑھائیں گے
انہوں نے اپنے بیٹے کو تسلی تو دی مگر اس سوچ کی وجہ سے ان کا چہرہ زرد پڑرہا تھا کہ ان کے بیٹے نے اسکول ہیڈماسٹر کے توسط سے پانچویں جماعت کے بعد اسکالر شپ پر ہائر ایجوکیشن کا خواب دیکھا تھا۔ ان پھول جیسے خوابوں کو ایک جلاد استاد نے اپنے ظالم ہاتھوں سے مسل کر پیروں تلے روند دیا تھا۔ بچے کی ان معصوم خوابوں کی قتل پر اس نے رونا چاہا۔ مگر اسے یاد آیا کہ مرد شیر کی طرح دن کو سرعام نہیں روتا کہ جنگل میں لومڑی جیسے جانور شیر کو دیکھ کر بزدل سمجھے۔ اسے اسی ملامت نے بھی خوب ٹوکا کہ ایک دن ٹیچر کی خوف سے بچہ دلبرداشتہ ہوکر بچہ اسکول جانا نہیں چاہ رہا تھا تو اس پر انہوں نے اپنے معصوم بیٹے کو خوب مارا تھا۔ اس پر اس کو ایک ایسے درد نے لپیٹ لیا تھا اس درد کو صرف ہی ایک باپ ہی جانتا ہے۔۔۔