سیلاب متاثرین میں کھانا تقسیم کرنے کے لیے اوج فاطمہ کا اپنا ایک الگ نظریہ ہے

ویب ڈیسک

ملک میں سیلاب کی وجہ سے مشکل کی اس گھڑی میں فلاحی تنظیمیں اور مختلف افراد مختلف انداز سے ضرورت مندوں کی مدد کر رہے ہیں لیکن متاثرین میں کھانا تقسیم کرنے کے حوالے سے سیدہ اوج فاطمہ کا اپنا ایک الگ نظریہ ہے

جب اوج فاطمہ کو بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا علم ہوا تو وہ اکیلی لاہور سے کوئٹہ بھوک سے نڈھال متاثرین کو کھانا کھلانے کے لیے پہنچیں۔ وہ کئی روز سے مختلف متاثرہ علاقوں میں اپنے ہاتھوں سے کھانا بنا کر تقسیم کرتی رہیں

پیاز کاٹنے سے لے کر لوازمات کی خریداری تک وہ سب کام خود ہی کرتی ہیں

اپنے ہاتھوں پر نشانات دکھاتے ہوئے اوج فاطمہ بتایا ’جس طرح لوگ اپنے پیاروں کے لیے اپنے ہاتھوں سے کھانا تیار کرتے ہیں، میں بھی یہ کھانا خود تیار کرتی ہوں تاکہ مصیبت زدہ لوگوں کو یہ احساس ہو کہ یہ کھانا ان کے لیے ان کے کسی اپنے پیارے نے تیار کیا ہے‘

ان کا کہنا تھا ’لوگوں کی مدد کی یہ چھوٹی سی کوشش ہے لیکن میں اس کے ذریعے ایک مثال قائم کرنا چاہتی ہوں تاکہ ہر ایک اپنی بساط کے مطابق مصیبت کی گھڑی میں لوگوں کی مدد کرے‘

اوج فاطمہ اس کام کے لیے کسی سے مالی مدد نہیں لیتیں، بلکہ انہوں نے فیسبک پر یہ پوسٹ لگائی ہے کہ کوئی بھی مالی مدد کے لیے ان سے رابطہ نہ کرے

جب اوج فاطمہ کوئٹہ پہنچیں تو اس وقت وہاں گیس تھی نہ بجلی، اس لیے کھانے کی تیاری کے لیے انہیں لکڑیوں کا استعمال کرنا پڑا

نواں کلی کے محلے شام عالم میں ایک گھر میں وہ کھانا تیار کر رہی تھیں، لکڑیوں کو جلانے کے لیے وہ کاغذ کو بار بار پنکھے سے ہوا دے رہی تھیں جس کے باعث راکھ اُڑ کر ان کے چہرے اور بالوں پر پڑ رہی تھی۔ زور سے ہنستے ہوئے انہوں نے کہا ’دھوئیں اور پیاز کاٹنے کی وجہ سے آنکھوں سے آنسوﺅں کا نکلنا اور اس طرح کا حلیہ بننا ہر روز کا معمول ہے‘

اوج فاطمہ کوئٹہ میں جس علاقے کے سیلاب متاثرین کے لیے کھانا تیار کرتیں ہیں، وہاں وہ کسی گھر میں جا کر اس کی اجازت لیتی ہیں۔ اجازت ملنے پر وہ وہاں قریبی دکانوں پر جاتی ہیں اور لکڑی سے لے کر تمام چیزوں کی خریداری خود کرتی ہیں

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اتنی مشقت کیوں کر رہی ہیں، کھانا تقسیم کرنے کے لیے وہ کسی ہوٹل سے رابطہ کرسکتی ہیں یا کسی اور سے کھانا تیار کروا سکتی ہیں، تو ان کا جواب تھا ”یہ سب میں کرسکتی ہوں لیکن اس میں وہ خلوص اور محبت نہیں ہوگی جو گھروں میں ماﺅں اور بہنوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، جب وہ اپنے پیاروں کے لیے کھانا تیار کرتی ہیں“

کھانے کی تیاری کے بعد انہوں نے اسے پلاسٹک کے ڈبوں میں بند کیا اور اسے ہنہ اوڑک کے سیلاب متاثرین میں تقسیم کرنے کے لیے نکل پڑیں، جو کہ نواں کلی سے اندازاً دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے

وہاں تک جانے کے لیے انہوں نے رکشہ منگوایا اور کھانے کے ڈبے اس میں رکھ کر روانہ ہوئیں۔ سیلاب نے شہر سے ہنہ اوڑک جانے کے لیے بائی پاس کو بُری طرح سے توڑ دیا ہے جبکہ ہنہ اوڑک کی حالت دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہاں کبھی کوئی پختہ روڈ تھا ہی نہیں۔ رکشے میں ہچکولے کھانے کے بعد انھوں نے اپنے ہاتھوں سے متاثرین میں کھانا تقسیم کیا

اوج فاطمہ کا کہنا ہے ’اکثر جن راستوں سے گزرتی ہوں وہ بہت ٹوٹے پھوٹے ہیں اور سات بجے کے بعد ان علاقوں میں اندھیرا بھی بہت زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں ’راستوں اور علاقوں کی وجہ سے ہونے والی پریشانی کے باعث کبھی ذہن میں یہ خیال آتا کہ چھوڑ کر چلی جاﺅں لیکن پھر دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں متاثرین زیادہ مدد کے مستحق ہیں، چونکہ میں ایک نیک مقصد کے لیے کام کر رہی ہوں اس لیے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میری حفاظت کرے گا۔ اس لیے چھوٹی موٹی پریشانیاں میرے حوصلے پست نہیں کر سکتیں۔‘

انہوں نے کہا ’میرے خاندان کے لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے کیونکہ میں اکیلی لڑکی ہوں‘

وہ بتاتی ہیں ’وہاں سے فون آتے ہیں کہ اب بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیاں شروع ہوگئی ہیں اس لیے واپس آجاؤ لیکن میری خواہش اور کوشش رہی کہ میں کوئٹہ میں لوگوں کی خدمت کے لیے زیادہ سے زیادہ دن گزاروں‘

اوج فاطمہ نے بتایا کہ کورونا کے باعث جو لوگ بیمار ہوئے اور پھر لاک ڈاﺅن کے دوران ان کا گھروں سے نکلنا مشکل ہوا تو بہت سارے لوگوں کو کھانے کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا

اس دوران ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اپنے گھر میں کھانا بنا کر ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کیا جائے

انہوں نے بتایا کہ ’چونکہ لاہور میں میرا گھر تھا اور وہاں سہولیات بہت زیادہ تھیں اس لیے وہاں لوگوں کے لیے کھانے کی تیاری میں مشکلات پیش نہیں آتی تھیں‘

‘میں جہاں خود لوگوں میں کھانا تقسیم کرتی تھی وہاں کورونا کی وجہ سے جو لوگ بے روزگار ہوئے تھے ان میں سے بعض کو معاوضہ دے کر ان سے کھانا تقسیم کرنے کا کام لیتی تھی۔‘

انہوں نے کہا ’کورونا کے وقت ٹرانسپورٹ کی بندش سے مجھے بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ مجھے قصور تک بھی جانا پڑتا تھا‘

’ہسپتالوں سے بھی فون آتے تھے کہ بعض لوگوں کو ان کے بچوں نے ہسپتال میں چھوڑا ہے اور وہ ان کو کھانا دینے نہیں آتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ وہ ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے یخنی اور انڈے تیار کر کے ان کو دے آتی تھیں تاکہ ان کو مناسب غذا مل سکے

اوج فاطمہ مشکل کی گھڑی میں لوگوں کو کھانا کھلانے کا جو کام سرانجام دیتی ہیں، وہ مالی وسائل کے بغیر ممکن نہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اس کے لیے وسائل کہاں سے لاتی ہیں، تو انہوں نے اس کا تفصیل سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ’مرحوم نانا جان نے اچھی خاصی رقم رکھی تھی تاکہ زندگی میں کوئی مشکل پیش نہ آئے‘

انہوں نے کہا ’میں نے یہ سوچا کہ جب اگلے لمحے کسی کو یہ پتا نہیں ہوتا وہ زندہ رہے گا یا نہیں تو پھر بہت زیادہ پیسے یا وسائل جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے‘

اس کے علاوہ وہ خود اپنی نوکری سے اچھی آمدن بھی کماتی ہیں اور اسے امدادی کاموں پر خرچ کرتی ہیں۔ انہیں ان کے خاندان کے دیگر افراد کی بھی حمایت حاصل ہے

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ روزانہ وہ جو کھانا تیار کرتی ہیں، اس پر پانچ سے چھ ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے۔ ’میں اس سے زیادہ اخراجات نہیں کرتی ہوں تاکہ میرا جو بجٹ ہے اس کا توازن خراب نہ ہو‘

’لوگ مالی مدد کے لیے رابطہ کرتے ہیں تو میں ان کو کہتی ہوں کہ آپ لوگ مدد کرنا چاہتے ہیں تو خود سے کریں یا پھر ان این جی اوز کو پیسے دیں جو کہ پہلے سے یہ کام کر رہے ہیں۔‘

ان کے لیے یہ امدادی کام ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ لوگ جن سنگین مشکلات سے دوچار ہیں اس میں یہ ان کے مسائل کا مکمل حل تو نہیں مگر اس چھوٹی سی کوشش کے ذریعے وہ ایک مثال قائم کرنا چاہتی ہیں

وہ کہتی ہیں ’شیلٹر اور خوراک ایسی دو چیزیں ہیں جو لوگوں کی بنیادی ضرورت ہیں۔ مصیبت کی گھڑی میں اگر ہر ایک ضرورت مندوں کے لیے اپنے گھروں میں کچھ نہ کچھ کھانا تیار کرے تو اس سے لوگوں کی بہت بڑی مدد ہوگی اور یہ کام مشکل بھی نہیں۔‘

اوج فاطمہ نے کہا ”جب میں لوگوں میں کھانا تقسیم کرتی ہوں تو ان کے چہروں پر جو خوشی ہوتی ہے، اس سے دلی تسکین ملتی ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close