پاکستان سے تعلق رکھنے والے مکسڈ مارشل آرٹس (ایم ایم اے) کے ایشیئن چیمپیئن محموش رضا رواں ماہ قزاقستان کے کھلاڑی نورزان اکیشوف سے مقابلہ کرنے جا رہے ہیں
محموش رضا کا سترہواں عالمی مقابلہ 30 ستمبر کو ہوگا
ستائیس سالہ محموش اس مقابلے کو اپنے لیے اہم سمجھتے ہیں کیونکہ یہاں سے کامیابی کے بعد وہ مزید عالمی سطح پر کھیل سکتے ہیں
انہوں نے کہا ’میری یہ کامیابی پاکستان کے نام ہوگی۔‘
محموش رضا نے بتایا ’میں نے یہ کھیل سات آٹھ سال پہلے شروع کیا۔ میری پہلی امیچور فائٹ پاکستان میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد میں نے پروفیشنل فائٹ شروع کی‘
وہ بتاتے ہیں ’جب میں نے یہ کھیل شروع کیا تو اس وقت ایم ایم اے (مکسڈ مارشل آرٹس) اتنا مقبول کھیل نہیں تھا۔ میری دوسری فائٹ عالمی مقابلہ بنی، پھر میں لندن منتقل ہو گیا‘
محموش نے کہا ”لندن منتقل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں مجھے عالمی معیار کی تربیت کے مواقع مل رہے ہیں۔ اس کے ساتھ دنیا کے اچھے کوچ بھی یہاں ہیں، جن کی ہمیں کسی بھی عالمی مقابلے کے لیے ضرورت پڑتی ہے“
انہوں نے بتایا کہ ہر کھلاڑی کے لیے مقام بنانا اور اس میں بہتری لانا مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ کھیل ہی ایسا ہے۔ آپ یہ کھیل پاکستان میں کھیلیں جہاں یہ زیادہ مشہور نہیں تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے
انہوں نے اس کھیل میں اپنی شروعات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ”میرے کھیل کی ابتدا ایسے ہوئی کہ میرے کچھ کزن کینیڈا سے آئے تھے، انہوں نے مجھے ایم ایم اے اور یو ایف سی کی کچھ ویڈیوز دکھائیں، جن سے میں بہت متاثر ہوا“
”میں نے اس وقت نہیں سوچا تھا کہ میں بھی اس طرح کے کھیل کا حصہ بنوں گا لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اسلام آباد میں کسی جم میں ایم ایم اے کی تربیت دی جاتی ہے۔ میں نے وہاں جاکر دیکھا اور مجھے اچھا لگا۔ اس طرح میں نے یہ کھیل سیکھنا شروع کر دیا“
محموش کہتے ہیں کہ اس کھیل میں آپ کو زیادہ تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دن میں دو تین بار جم جانا پڑتا ہے، جس میں آپ کو بہت زیادہ تھکاوٹ بھی ہو جاتی ہے۔ مسلز بھی تھک جاتے ہیں، جن کو واپس برقرار رکھنے کے لیے آپ کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے
”اس میں ایسی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے جس سے آپ کمزور بھی نہ رہیں اور چربی بھی نہ بڑھے، جس سے وزن میں اضافہ ہو سکتا ہے“
محموش نے کہا ”میں یہ کہتا ہوں کہ اس کھیل کے کھلاڑی کے لیے 50 سے 60 فیصد ریکوری ڈائٹ پر منحصر ہے۔ دوسری جانب یہ مہنگا کھیل بھی ہے“
”اس کھیل میں آپ نے ڈائٹ کے ساتھ تربیت کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے، کیوں کہ جو بھی آپ کو سپانسر کرے گا وہ پیسے لڑنے کے لیے دے گا۔ آپ کا تیار ہونا ضروری ہے“
محموش کہتے ہیں کہ اس کھیل میں اُس وقت زیادہ خرچہ ہوتا ہے، جب کسی نے عالمی مقابلے کے لیے تیاری کرنی ہو۔ جس میں ضروری ہے کہ کوچز بھی عالمی معیار کے ہوں تاکہ وہ آپ کو مقابلے کے لیے تیار کر سکیں
ساتھ ہی انہوں نے بتایا ”اس بار مجھے وہ اسپانسرز نہیں ملے جو میں چاہ رہا تھا۔ اب بھی وقت ہے، امید ہے کہ کوئی مل جائے گا، لیکن اگر اس کی تربیت اور کیمپ کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ مہنگا کھیل ہے“
محموش کی خواہش ہے کہ وہ یو ایف سی (الٹیمیٹ فائٹنگ چیمپیئن شپ) کا عالمی مقابلہ جیت کر چیمپیئن بنیں، جس کے لیے ان کی جدوجہد جاری ہے
محموش کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے لیکن وہ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے خاندان میں کوئی بھی کھیل سے وابستہ نہیں ہے بلکہ باقی سب ڈاکٹر، وکالت اور دوسرے شعبوں سے وابستہ ہیں
انہوں نے بتایا ”جب میں نے اس کھیل کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو نہ صرف معاشرے بلکہ خاندان نے بھی بہت اعتراض کیا کہ یہ تو ماردھاڑ کا کھیل ہے۔ اس کو نہ کرو، لیکن مجھے کرنا تھا اس لیے وقت کے ساتھ سب کچھ درست ہو گیا“
محموش کہتے ہیں ”میں نے یہ کھیل انیس سال کی عمر سے شروع کیا لیکن 2021 میں میری ایک سرجری ہوئی اور یہ بڑی سرجری تھی۔ اس سرجری کے بعد پانچ، چھ مہینے میرے لیے بہت مشکل تھے۔ کیوں کہ میں چل نہیں سکتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرے کھیل اور زندگی میں وہ سب سے مشکل لمحات تھے۔ اس دوران میں نے بہت تکیلف محسوس کی“