”یہ جھوٹ بول رہے ہیں“ خاتون کا روسی ٹی وی سے براہ راست نشریات کے دوران گھس کر احتجاج

ویب ڈیسک

لندن – روس یوکرین جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والی ایک خاتون روس کے سرکاری ٹی وی اسٹوڈیو میں گھس آئی اور براہ راست نشریات کے دوران جنگ مخالف نعرے لگاتی رہی

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق لندن میں روس کے سرکاری ٹیلی ویژن اسٹیشن میں اس وقت افراتفری پھیل گئی، جب براہ راست نشریات کے دوران ایک احتجاج کرنے والی خاتون نیوز کاسٹر کے پیچھے جا پہنچی

انہوں نے پوسٹر اٹھا رکھا تھا جس پر انگریزی اور روسی زبان میں ’جنگ نہیں‘ کے الفاظ درج تھے

پوسٹر پر یہ بھی لکھا کہ ’جنگ کو روک دو، پروپیگنڈے پر اعتبار مت کرو، یہ یہاں جھوٹ بول رہے ہیں۔‘

ان کے علاوہ ایک جملہ مزید بھی درج تھا، تاہم وہ واضح نہیں تھا

احتجاج کا یہ غیرمعمولی واقعہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے چودہ روز بعد سامنے آیا ہے

احتجاج کرنے والی خاتون کو یہ کہتے بھی سنا جا سکتا ہے ’جنگ کو روک دو، جنگ سے انکار‘

تاہم احتجاج کے دوران بھی نیوزکاسٹر نے اپنا کام جاری رکھا اور ٹیلی پرومپٹر پر نظریں جمائے رکھیں

دوسری رپورٹ کی طرف بڑھنے سے قبل خاتون کو کئی سیکنڈ تک احتجاج کرتے ہوئے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے

دوسری جانب یوکرین کے صدر زیلنسکی نے رات کو ایک وڈیو خطاب میں احتجاج کرنے والی خاتون کا شکریہ ادا کیا ہے

زیلنسکی کا کہنا تھا ”میں روسیوں کا شکرگزار ہوں، جو سچ بول رہے ہیں، وہ جو غلط معلومات کے خلاف لڑ رہے ہیں اور اپنے دوستوں، پیاروں کو حقیقت پہنچا رہے ہیں“

انہوں نے مزید کہا ”میں ذاتی طور پر اس خاتون کا شکرگزار ہوں جو پوسٹر کے ہمراہ نیوز چینل میں داخل ہوئیں“

جیل میں قید اپوزیشن لیڈر الیکسی نیولنی کی ترجمان کیرا یرمائش نے واقعے کے بعد ٹوئٹر پر لکھا ”زبرست، یہ لڑکی تو کُول ہے“

انہوں نے واقعے کی ویڈیو بھی شیئر کی، جس کو بہت کم وقت میں چھبیس لاکھ لوگوں نے دیکھا

واضح رہے کہ مذکورہ ریاستی ٹی وی لاکھوں روسیوں تک معلومات پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور یوکرین جنگ کے معاملے پر روس کے ہی نقطہ نظر کو اپنائے ہوئے ہے کہ کریملن کو مجبوراً یوکرین پر حملہ کرنا پڑا جبکہ ’نسل کشی‘ کے حوالے سے بھی روس موقف کا دفاع کرتا رہا ہے

جبکہ یوکرین اور دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے ایک جمہوری ملک پر حملے کے لیے اپنائے جانے والے بہانے کی مذمت کی جا رہی ہے

احتجاج کرنے والی خاتون کی شناخت مرینہ اوسیانیکوف کے نام سے ہوئی ہے، وہ روس کے سرکاری ٹی وی پر کام کرتی ہیں، جبکہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ کا حصہ بھی ہیں

اگورا کے سربراہ پیول چیکوف کا کہنا ہے کہ مرینہ اوسیانیکوف کو گرفتار کر لیا گیا ہے

حکام کا کہنا ہے کہ ان کو فوج کا تقدس پامال کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے

واضح رہے کہ روس میں حال ہی میں 4 مارچ کو پاس کیے جانے والے قانون کے مطابق فوج کے خلاف بات کرنے، جان بوجھ کر غلط معلومات پھیلانے پر پندرہ سال تک کی سزا ہو سکتی ہے

واقعے سے کچھ دیر قبل ریکارڈ ہونے والی ایک وڈیو آن لائن پوسٹ کی گئی ہے، جس میں احتجاج کرنے والی خاتون اوسیانیکوف ایک اور خاتون سے بات کرتے ہوئے خود کو چینل ون کی ملازم بتاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ اس پر شرمندہ ہیں کہ پانچ سال تک کریملن کے پروپیگنڈہ کا حصہ رہیں

وہ کہتی ہیں ان کے والد یوکرینی اور والدہ روسی تھیں

ان کا کہنا تھا کہ ’یوکرین میں اس وقت جو ہو رہا ہے، وہ ایک جرم ہے جبکہ روس ایک جارح ملک ہے۔ اس جارحیت کی ذمہ داری صرف ایک شخص پر عائد ہوتی ہے، جس کا نام پیوٹن ہے‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ”پوری دنیا ہم سے منہ موڑ چکی ہے اور ہماری آنے والی دس نسلیں بھی اس جنگ کی شرمندگی کو نہیں دھو پائیں گی“

انہوں نے روسی عوام پر زور دیا کہ وہ باہر نکلیں اور احتجاج کریں

دوسری جانب احتجاج پر نظر رکھنے والے ادارے او وی ڈی انفو کا کہنا ہے کہ روسی حکومت نے مظاہروں کو دبا دیا ہے۔ اب تک جنگ کے خلاف احتجاج کرنے پر 14 ہزار نو سو 11 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے

خیال رہے روس نے 24 فروری کو پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا اور ابھی تک لڑائی جاری ہے۔ روسی صدر کا کہنا ہے کہ یوکرین کے ہتھیار ڈالنے تک جنگ جاری رہے گی جبکہ یوکرین نے دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روسی حملہ رکوانے کے لیے کردار ادا کرے

پیر کو رات گئے روس نے یوکرین کے ایک ٹی وی ٹاور پر حملہ کیا جس میں نو افراد ہلاک ہوئے، اب تک کی جنگ میں دونوں طرف سے خاصا جانی نقصان ہو چکا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close