سوشل میڈیا نے بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے اور مزید تیزی سے ہمیں ایسی تبدیلی کی جانب لے کر جا رہا ہے جس کے لئے ہم تیزی سے تیار نہیں ہو رہے ہیں۔ آج کل والدین بڑے فخر سے اپنے بچوں کے رزلٹ کارڈ فیس بک اور وٹس ایپ اسٹیٹس پر لگاتے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے والدین کو اولاد کی کامیابی پر خوشی منانی چاہے، لیکن یاد رکھیں یہ والدین کی احساس کمتری کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی کامیابی کو دوسروں کو دکھا کر داد وصول کرتے ہیں جن سے ان کی اندرونی محرومی کو تسکین ملتی ہے
اس عمل کا دوسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے بچوں کو یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ آپ ان کو صرف کامیابی پر ہی مبارکباد اور شاباش دیتے ہیں! کیا آپ نے کبھی ایسے والدین دیکھے ہیں جو اپنی اولاد کی ناکامی پر بھی وہ ہی ردعمل دیتے ہیں جس طرح کامیابی پر اظہار کرتے ہیں۔ بے شک کوئی بھی والدین اپنے بچوں کو ناکام ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا لیکن زندگی اور کامیابی کی حقیقت یہ ہے کہ ناکامی کے بغیر نہ زندگی ہے اور نہ حقیقی کامیابی!
اور یہ بات بھی والدین کو سمجھنی چاہے کہ زندگی اپنے انداز سے چلتی ہے والدین کی خواہش کے مطابق نہیں!
اپنے بچوں میں ناکامیوں کا سامنا کرنے اور اپنے اندر اپنے بچوں کی ناکامیوں کو قبول کرنے کی ہمت پیدا کریں، یہ ہمت آپ کے بچوں کو کامیابی اور سکون بھی دے گی اور آپ کا اپنے بچوں کے ساتھ زندگی بھر ایک احساس اور خاص رشتے رہے گا ورنہ وہ کسی طرح کامیاب تو ہو جائیں گے لیکن زندگی میں آپ سے بہت دور چلے جائیں گے جس کا شکوہ والدین اکثر بڑھاپے میں کرتے ہیں
میرے پاس اکثر والدین کونسلنگ کے لئے آتے ہیں اور خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ ہم چاہتے کہ ہمارے بچے آپ کی طرح بنیں
میں مسکرا کر انہیں کہتا ہوں کہ آپ کے بچے میرے جیسے کیسے ہو سکتے ہیں؟
ویسے بھی ان کا میرے جیسا طالب علم بننا آپ افورڈ نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ میں نے پرائمری سے لے کر ماسٹرز تک جتنی مرتبہ مختلف کلاسوں میں فیل ہوا ہوں کیا آپ اپنے بچوں کا یہ خرچہ برداشت کر لیں۔ جس پر وہ تھوڑے مایوس اور پریشان ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہر کوئی کامیاب ہونا چاہتا ہے وہ بغیر ناکام ہوئے۔ ایک دفعہ کوئی کام نہ ہو تو دوبارہ کوشش اور ہمت کرنے کی ہمیں شروع سے ہی عادت نہیں ڈالی جاتی ہے اس لئے بچے فوراً ناکامی کے بعد ہار مان لیتے ہیں اور ساری زندگی ناکامی کا بوجھ لیے مایوسی کا شکار رہتے ہیں.
مجھے اردو سے محبت تھی اور ہے اس لئے میں نے اپنے ایم اے پولیٹیکل سائنس ہونے کے باوجود ایم اے اردو کی کوشش کی لیکن سال اول میں ناکام ہوا دوبارہ وقت نہ ملا تو کوشش نہ کی لیکن چند دن قبل میرا ایک آرٹیکل پڑھ کر ایک صاحب نے پوچھا آپ نے ایم اے اردو کیا ہوا ہے؟ آپ کی اردو بہت اچھی ہے۔ میں نے کہا جی نہیں، پھر سوچا کیونکہ ان کو اپنی ایم اے اردو فیل کی مارکس شیٹ وٹس ایپ کروں اور بتاؤں رزلٹ آپ کو فیل کر سکتے ہیں ناکام نہیں۔ ناکام آپ اس وقت ہوتے ہیں جب آپ ہمت اور محنت کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہندی فلم کا ایک شاندار جملہ یاد آیا جس میں فیل ہونے والی اپنی بیٹی کو کہتا ہے ”جو محنت کا ساتھ نہیں چھوڑتے، قدرت کبھی ان کا ہاتھ نہیں چھوڑتی“
بس یہ فرق ہے کہ ایک خیال کو عملی زندگی میں اپنا کر اپنے بچوں کو فیل تو ہونے دیں مگر ناکام نہیں ورنہ ان کی ناکامی کا غم بڑھاپے میں آپ سے برداشت نہیں ہوگا۔
بشکریہ: ہم سب