بحیرہ عرب میں چرنا جزیرے کے قریب مونگے اور مرجان کی طویل چٹانیں (کورال ریفس) ہیں لیکن اب یہ چٹانیں شدید خطرات سے دوچار ہیں
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے پریس بیان کے مطابق پاکستان میں پہلی بار جزیرہ چرنا کے قریب مونگے کی چٹانوں کی سفید ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ اکتوبر 2020 کے آخری ہفتے میں چرنا جزیرے کے شمال مشرقی حصے کے آس پاس ایک غوطہ خور مہم پر جزیرے پر مونگے کی چٹانوں کا خطرناک حد تک سفید ہونے کا پتہ چلا۔
ماہرین کے مطابق یہ عمل کورل بلیچنگ کہلاتا ہے جو کئی سمندری جانوروں کی نرسری کو بری طرح متاثر کررہا ہے کیونکہ یہ چٹانیں بڑی تیزی سے سفید ہورہی ہیں۔ چرنا جزیرے کے شمال مشرقی سمت میں ان چٹانوں کے سفید بڑے حصے دیکھے گئے ہیں
اس ضمن میں ملنے والی مزید تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے غوطہ خوروں نے یہ عمل دیکھا ہے اور اس کی ویڈیو اور تصاویر بھی جاری کی ہیں۔ صنعتی سرگرمیوں کے باعث سمندر کے درجہ حرارت میں اضافہ بھی ان کورل ریفس کے سفید ہونے کی وجہ ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ چرنا جزیرے کے اطراف تھرمل پاور پلانٹ ،آئل ریفائنری ، پیٹرولیم اور آئل مصنوعات کی ہینڈلنگ کے لئے سنگل پوائنٹ موری بھی موجود ہے۔سمندری آلودگی، صنعتی سرگرمیاں اور سمندر میں چھوڑے جانے والے جال چرنا آئی لینڈ کے حیاتیاتی تنوع کے لیے خطرہ ہیں۔ صرف اسی پر بس نہیں بلکہ چرنا آئی لینڈ کے اطراف مائع پیٹرولیم گیس کا ٹرمینل بنانے کا منصوبہ بھی ہے
خیال رہے کہ پاکستان میں مونگے کی چٹانیں چرنا، اور بلوچستان کے استولا، اورماڑہ، گودار اور جیوانی کےچند مخصوص علاقوں تک محدود ہیں۔ سمندری حدت، انسانی کثافت اور دیگر اثرات کی وجہ سے کورل ریفس بے رنگ اور سفید ہوکر مر جاتے ہیں۔ اس کا نقصان براہِ راست سمندری پودوں اور قیمتی جنگلی حیات کو ہوتا ہے کیونکہ یہاں کئی سمندری جاندار اپنا مسکن بناتے ہیں اور ان کے بچے بھی یہی پروان چڑھتے ہیں، بلیچنگ کا عمل ان بے زبان جانوروں کو بے گھر اور ختم کرسکتا ہے
ڈبلیو ڈبلیو ایف نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ چرنا اور اس کے اطراف کو ’آبی تحفظ گاہ‘ یعنی مرین پروٹیکٹڈ ایریا قرار دے۔ اس طرح یہاں کے قدرتی ماحول اور انتہائی قیمتی حیات کو بچانے میں بہت مدد مل سکے گی
کچھ علاقوں میں سفیدی کے بڑے بڑے ٹکڑےنظر آئے جبکہ کچھ دیگر حصوں میں بھی یہ اثرات محدود شکل میں دیکھے گئے ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان اس سفیدی کو پاکستان میں ساحلی حیات تنوع کے لیے سنگین خطرہ سمجھتا ہے۔ مونگے بھی زندہ اجسام کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ سمندری جانور ہیں جو صاف پانی کے نچلی سطح پر رہتے ہیں اوران کا تعلق جیلی فش اور بغیر خون آبی حیات سے بتایا جاتا ہے۔ جو دنیا کے کچھ علاقوں میں چٹانیں تشکیل دیتے ہیں جبکہ انتہائی متنوع ماحولیاتی نظام میں ان چٹانوں کو سمندر کا بارانی جنگل کہا جاتا ہے۔
سال 2000 کی دہائی میں ، ڈارون انیشی ایٹوو پروجیکٹ کے تحت پاکستان کے ساحل پر مونگے کی چٹانوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس میں ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان، میرین بیالوجی سینٹر آف ایکسی لینس ، اور میرین ریفرنس اینڈ ریسورس سینٹر ، جامعہ کراچی شامل تھے۔
بعدازاں ڈبلیوڈبلیو ایف پاکستان کے پاکستان وٹیلینڈز پروگرام کے تحت مونگے کا مزید مطالعہ کیا گیا، مجموعی طور پر ، پاکستان کے ساحلی پانیوں سے 55 زندہ مونگوں کی آبادیوں کو ریکارڈ کیا گیا جو محدود علاقوں تک تھی۔
منفی ماحولیاتی حالات جیسے غیر معمولی طور پر گرم یا ٹھنڈا درجہ حرارت، پانی کی آلودگی ، تیزروشنی ، اور یہاں تک کہ کچھ جراثیمی امراض بھی مونگے کی چٹانوں کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس طرح کے حالات میں مرجان اپنے ٹشوز میں رہنے والے جزو zooxanthellae کو باہر نکال دیتے ہیں جس کی وجہ مرجان مکمل طور پر سفید ہوجاتا ہے۔ اس عمل کو مرجانی یا مونگے کی بلیچنگ کہا جاتا ہے اور یہ مرجان کی موت کا باعث بنتا ہے۔
ٹیکنیکل ایڈوائزر (میرین فشریز) ، ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان ، محمد معظم خان کے مطابق ، پاکستان میں مونگے کی چٹانوں کے سفید پڑنے میں بہت سے ممکنہ وجوہات ہوسکتی ہیں،جن میں صنعتی سرگرمیوں کی وجہ سے سمندری پانی کے درجہ حرارت میں اضافہ سب سے بڑی وجہ ہو سکتی ہے کیونکہ چرنا جزیرے کے قرب وجوار کے علاقے تھرمل پاور پلانٹ ، آئل ریفائنری اور سنگل پوائنٹ مورنگ (ایس پی ایم) موجود ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کوئلہ سے چلنے والے ایک اور پلانٹ کی تعمیر کے لئے سائٹ پر اضافی انفراسٹرکچر تیار کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ ان سرگرمیوں کے مجموعی اثرات مونگے کی چٹانوں پر اثر انداز ہورہے ہو،چرنا جزیرے میں مائع پٹرولیم گیس (ایل پی جی) ٹرمینل قائم کرنے کے لئے جگہ جگہ منصوبے ہیں جو اس علاقے میں ضرورت سے زیادہ کھدائی کا سبب بن سکتے ہیں۔
محمد معظم خان نے کہا ، ‘اگر اس طرح کے ترقیاتی سرگرمیاں چرنا جزیرے میں تسلسل سے جاری رکھی گئیں، تو پھر وہ نہ صرف مونگوں پر اثرانداز ہوں گے بلکہ اس علاقے سے بیشتر بھرپور آبی تنوع کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔اس حوالے سے ڈبلیوڈبلیو ایف پاکستان کےریجنل ہیڈ برائے سندھ،بلوچستان ڈاکٹر طاہر رشید نے کہا کہ جزیرہ چرنا کے بھرپور قدیم ماحول کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ ہدف صرف چرنا جزیرے کو میرین پروٹیکٹڈ ایریا (ایم پی اے) قرار دے کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے کیونکہ فیصلہ حکومت بلوچستان کے پاس زیر التوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار جب چرنا جزیرے کو ایم پی اے قرار دے دیا گیا تو صنعتی سرگرمیوں پر قابو پالیا جائے گا اور سیاحت کو ہموار کیا جاسکے گا۔اس اقدام سے علاقے میں ماہی گیروں کے انتظام کا بھی سبب بنے گا ، جو متنوع مچھلیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے گا اور ماضی کی روایتی ماہی گیری کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے علاقے میں مونگوں کی چٹانوں کو بے رنگ ہونے پر اپیل کی ہے کہ مزید بگاڑ سے قبل ضروری ہے کہ مناسب اقدامات اٹھائے جائیں۔
پچھلے کچھ برسوں کے دوران چرنا جزیرہ تفریحی سرگرمیوں کا محور بن چکا ہے اور اسکوبا ڈائیونگ کے لیے ایک اہم علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ بیشتر غوطہ خور ماحولیاتی طور پر باشعور ہیں اور وہ مونگے کی چٹانوں کو نقصان نہیں پہنچاتے ،تاہم کچھ شوقیہ غوطہ خوروں نے انہیں روندنے اور متاثر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،اس کے علاوہ متعدد ماہی گیر بھی مونگے کی چٹانوں کو اکھاڑنے اورکراچی کے ایکوریم کا کاروبار کرنے والے تاجروں کو فروخت کرنے میں ملوث ہیں۔
اس علاقے میں آلودگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے جو تیرتے کچرے سے ظاہر ہوتا ہے۔ ڈبلیوڈبلیو ایف پاکستان کا خیال ہے کہ چرنا جزیرے کے آس پاس پانیوں میں ماہی گیروں کی لانچوں سے دانستہ اور نادانستہ طور پر پھینکے جانے والے جال بھی ایک سنگین ماحولیاتی چیلنج ہے۔ کئی برس سے سمندر کی تہہ میں موجود یہ جال مونگے کی چٹانی سلسلے پر شدید اثر ڈالتے ہیں اور مچھلی اور دیگر آبی حیات کوالجھاتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی اموات واقع ہوتی ہے۔
جزیرے چرنا کے شمال میں بڑے پیمانے پرنقصان دہ جالوں کی اطلاع ملی ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف – پاکستان نے متعلقہ سرکاری محکموں ، سیاحوں ، مقامی برادریوں اور پاکستان کے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ماحولیاتی لحاظ سے اہم سمندری علاقے کے تحفظ میں مدد کریں.