ایف آئی اے نے جرائم میں ملوث اپنے اہلکاروں کو کیسے پکڑا؟

ویب ڈیسک

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 20 ستمبر کی رات ماڈل ٹاؤن کے علاقے میں واقع ایک دفتر میں رات ٹھیک بارہ بجے چھ افراد گھس آئے۔ ان کے پاس اسلحہ بھی تھا اور ہتھکڑیاں بھی

انہوں نے دفتر میں گھستے ہی اسٹاف پر اسلحہ تان لیا اور انہیں کام کرنے سے روک دیا۔ انہوں نے تعارف کروایا کہ وہ فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ سے ہیں۔ اس دفتر کے مالک کامران طاہر کو بھی ہتھکڑیاں لگا دی گئیں

دفتر میں اس وقت بارہ کے قریب افراد کام کر رہے تھے، جن میں خواتین بھی شامل تھیں

اس حوالے سے کامران طاہر بتاتے ہیں ”یہ لوگ اتنی تیزی سے اندر آئے اور ہر چیز کو قابو کیا کہ ہمیں کچھ سوچنے سمجھنے کا موقعہ ہی نہیں ملا، وہ تشدد کر رہے تھے۔ جو کوئی ان سے کچھ پوچھتا تو وہ اس کا جواب مکے یا تھپڑ سے دیتے“

لگ بھگ آدھا گھنٹہ خوف و ہراس پھیلانے کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائم کی ٹیم نے مذاکرات کا آغاز کیا

دفتر کے مالک کامران طاہر کے مطابق ”جب میں نے اُن سے پوچھا کہ وہ اپنا کارڈ دکھائیں یا سرچ وارنٹ یا کوئی درخواست جو میرے خلاف دی گئی ہو۔ میرے ان سوالوں پر وہ مشتعل ہوئے اور ہمیں زدوکوب کرنا شروع کر دیا“

مار دھاڑ کے دوران ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی ٹیم نے دفتر میں موجود کمپیوٹرز، لیپ ٹاپس اور موبائل فونز بھی قبضے میں لینے کے ساتھ ساتھ ان کے پاس ورڈز بھی ایک کاغذ پر لکھے

دفتر کے مالک کامران نے بتایا ”جب انہیں یقین ہو گیا کہ اب ہم نے سوال کرنا بند کر دیے ہیں، تو انہوں نے آہستہ آہستہ دہشت پھیلانی بند کر دی لیکن ہتھکڑیاں ابھی بھی نہیں کھولیں۔ اس کے بعد ایک شخص جس نے اپنا نام نوید گل بتایا، نے کہا کہ وہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کا انسپکٹر ہے۔ اگر تم بات یہیں ختم کرنا چاہتے ہو تو پچاس لاکھ روپے دو۔ میرے لیے یہ رقم بہت بڑی تھی۔ مذاکرات میں وہ چھ لاکھ روپے لینے پر راضی ہو گئے“

کامران طاہر گزشتہ کئی سالوں سے ماڈل ٹاؤن لنک روڑ پر ایک کال سینٹر چلا رہے ہیں، اور کئی برطانوی کمپنیوں کو سروسز فراہم کرتے ہیں

ان کے دفتری اوقات بھی برطانوی وقت کے مطابق ہیں۔ ان کی کمپنی سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹرڈ کاروباری ادارہ ہے۔ یہ تمام تفصیلات اس ایف آئی اے کی ٹیم کو بتائی گئیں تاہم انہوں نے اپنا کام جاری رکھا

’انسپکٹر نوید گل‘ نے کامران طاہر کے موبائل فون پر ان کی بینکنگ ایپ کھلوائی اور ان کے اکاؤنٹ میں موجود دو لاکھ 72 ہزار روپے اپنے کسی اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروائے

کامران طاہر بتاتے ہیں ”میرے تین بینک اکاؤنٹس ہیں، صرف ایک کی میں ایپ استعمال کرتا ہوں، باقیوں کے میرے پاس اے ٹیم ایم کارڈز تھے۔ انہوں نے مجھ سے اے ٹی ایم کارڈز کے پن کوڈز لیے اور ایک شخص نیچے چلا گیا۔ دونوں اکاؤنٹس سے مجموعی طور پر ایک لاکھ روپے نکلوا لیے“

ایف آئی اے کے اہلکاروں نے باقی رقم دینے کے وعدے پر وہاں سے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور موبائل فون اپنے قبضے میں لے لیے اور کوئی دو گھنٹے کی اس ’واردات‘ کے بعد وہاں سے نکل گئے، اور اگلے دن باقی کی رقم دے کر اپنا سامان واپس لینے کی شرط طے کر گئے

یہیں سے کہانی نے نیا موڑ اختیار کر لیا۔ اگلے دن کامران طاہر نے اپنے کسی دوست کے ذریعے ایف آئی اے سے رابطہ کیا لیکن وہاں صورت حال ہی مخلتف تھی

ایف آئی اے کے ریکارڈ میں ایسی کوئی بھی ریڈ موجود نہیں تھی۔ بلکہ ایف آئی اے کے انسپکٹر نوید گل نے بتایا ’ان کا نام استعمال ہوا ہے۔‘

اصل انسپکٹر نوید گل نے اس کے بعد ان افراد کو پکڑنے کا فیصلہ کیا اور ان کے لیے نئی بساط بچھائی گئی

گینگ نے کامران طاہر کو کہا تھا کہ وہ پچاس ہزار روپے مزید لے کر آئے تو تب ہی سامان واپس ملے گا۔ گلبرگ کے علاقے مین مارکیٹ میں ملنے کا وقت طے ہوا تو اس گینگ کی طرف سے صرف دو افراد ظاہر ہوئے

کامران ظاہر نے ان کو پچاس ہزار روپے پکڑا دیے، اور اس کے بعد ایف آئی اے کی دوسری ٹیم نے چھاپہ مار کر ’اپنے دو ملازمین کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔‘

تمام واقعے کی ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی۔ ترجمان ایف آئی اے کے مطابق ’گرفتار ہونے والے دو اہلکاروں کے اصل نام ذیشان انجم اور مراد پنوں ہیں، اور ان کا تعلق ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے ہی ہے۔‘

ترجمان کے مطابق ’ابتدائی تفتیش میں ذیشان انجم نے بتایا ہے کہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر اسد فخر اور اے ایس آئی اقبال کے کہنے پر یہ سب کیا۔ ایف آئی اے اینٹی کرپشن ونگ نے ان اہلکاروں کو مقدمہ درج کرنے کے بعد گرفتار کر لیا ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس سے پہلے بھی ان افسران اور اہلکاروں کے خلاف کوئی شکایت تھی؟ تو ترجمان کا کہنا تھا کہ ’نہیں ایسا نہیں ہے لیکن اینٹی کرپشن ونگ اس بات کی بھی ضرور چھان بین کرے گا۔ اگر اس واقعے کے بعد کوئی اور شکایت کنندہ بھی سامنے آتا ہے تو تفتیش کا دائرہ کار وسیع کیا جائے گا۔‘

کامران طاہر نے مزید بتایا کہ ابھی تک ان کا سامان واپس نہیں کیا گیا۔ ’مجھے تو امید ہی نہیں تھی کہ ہوبہو میری درخواست پر مقدمہ درج کر لیا جائے گا۔ اب میں یہ چاہتا ہوں کہ بس میری رقم اور سامان مجھے جلد ازجلد واپس کیا جائے۔ لیکن مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک ضروری عدالتی کاروائی کے بعد چیزیں واپس کر دی جائیں گی۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close