یمن میں بچھی بارودی سرنگیں، قدم قدم پر موت

ویب ڈیسک

یمن میں مہینوں سے جاری جنگ بندی کے باوجود شہری ہلاکتیں نہیں رک رہیں اور اس کی وجہ جا بجا بچھائی گئی بارودی سرنگیں ہیں۔ تین سالوں کے دوران یمن میں بارودی سرنگوں کی وجہ سےساڑھے چار سو کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں

یمن میں 2014ء میں شروع ہونے والی جنگ کا بدترین پہلو اس کے ماضی میں ہے۔ اگرچہ اس سال کے اوائل میں طے پانے والی جنگ بندی کی اب بھی کبھی کبھار خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں، لیکن پہلے کی نسبت لڑائی میں کمی آئی ہے۔ یمنی تنازعے میں دونوں فریقوں یعنی ایران نواز شدت پسند مسلحہ حوثی باغیوں اور سعودی عرب کی قیادت میں ایک بین الاقوامی اتحاد کے مابین اپریل میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پايا تھا، جس میں اگست کے مہینے میں توسیع بھی کر دی گئی۔ اس امن معاہدے کی وجہ سے جنگ زدہ اور قحط کے خطرے سے دوچار لاکھوں یمنی شہریوں کو تھوڑا سا ریلیف ملا ہے

لیکن جنگ ہو یا امن، ایک اور خطرہ ایسا ہے، جو اب بھی ’قدموں تکے منڈلا رہا ہے‘ اس جنگ کے دوران یمن کے مختلف علاقوں میں بہت سی بارودی سرنگیں بچھائی گئیں اور دونوں فریق ایک دوسرے کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے آئے ہیں۔ اس صورتحال میں یمن کے کچھ حصے عملی طور پر بارودی سرنگیں بن چکے ہیں۔ جابجا موجود اس خطرے کی وجہ سے مقامی افراد ہر وقت اس خوف کا شکار ہیں کہ کہیں کسی بارودی سرنگ پر قدم نہ رکھ دیں

جولائی کے مہینے میں یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی، ہانس گرنڈ برگ کا کہنا تھاکہ باقاعدہ لڑائی میں زخمی ہونے والوں کی تعداد میں تقریباً دو تہائی کمی آئی ہے لیکن اب زیادہ تر افراد بارودی سرنگوں اور لڑائی کے دوران بکھر جانے والے بارود کے بعد میں پھٹنے کے نتیجے میں زخمی ہو رہے ہیں

22 ستمبر کو، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تیس مختلف حقوق انسانی کی تنظیموں کے مشترکہ بیان میں بارودی سرنگوں کا مسئلہ ایک رپورٹ میں اجاگر کیا گیا۔ اس رپورٹ کے مطابق، ”جنگ بندی کے پہلے تین مہینوں کے دوران شہری ہلاکتوں میں 50 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم جنگ بندی کے دوران بھی بارودی سرنگوں اور دیگر بارودی مواد کے پھٹنے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‘‘

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے یہ بھی کہا ہے کہ بارودی سرنگیں ہنگامی طور پر درکار امداد کی تقسیم میں رکاوٹ ہیں اور یہ یمنی شہریوں کو فصلیں لگانے یا کاٹنے سے بھی روکتی ہیں۔ یمنی حکام نے اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں کہ بارودی سرنگوں سے کتنے افراد زخمی یا ہلاک ہوئے ہیں

لیکن یمن لینڈ مائن مانیٹر کے سربراہ فارس الحمیری نے کہا کہ ان کی تنظیم نے 2019ع ءکے وسط سے اگست 2022ع تک بارودی سرنگوں سے ہلاک ہونے والے 426 افراد کی گنتی کی ہے۔ ان میں 100 سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں

تنظیم نے اس قسم کے واقعات میں 560 سے زائد زخمیوں کا بھی اندراج کیا ہے۔ ان زخمیوں میں 216 بچے اور 48 خواتین بھی شامل ہیں

پینتالیس سالہ محمد زوہیر بھی ان زخمی ہونے والوں میں سے ایک ہیں۔ 2018ع میں جنگ کی وجہ سے اپنے خاندان کے ساتھ مغربی یمن میں اپنا گھر چھوڑنے کے بعد زوہیر بالآخر چند ماہ بعد گھر واپس لوٹ آئے۔ اُن کے علاقے میں سکیورٹی کے حالات کافی حد تک بہتر ہو چکے تھے اور زوہیر کو ایسا لگتا تھا کہ وہاں نسبتاً عام شہری زندگی کے معمولات دوبارہ شروع کیے جا سکتے ہیں

لیکن واپسی پر زوہیر اپنے گاؤں کے داخلی راستے پر چھپا کر بچھائی گئی ایک بارودی سرنگ کے اوپر سے گزرے۔ اس سرنگ کے دھماکے میں ان کے دھڑ کا نچلا حصہ بری طرح زخمی ہوا اور انہیں مقامی ہسپتال لایا گیا

زوہیر کا کہنا ہے کہ جب وہ بیدار ہوئے، تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی ایک ٹانگ کٹ چکی تھی

جنوب مغربی یمن کے شہر تیز میں رہنے والی ایک تینتیس سالہ مقامی خاتون دلیلا بھی اسی قسم کے انجام سے دوچار ہوئیں۔ وہ تقریباً پانچ سال قبل اپنی شادی سے صرف ایک دن پہلے غلطی سے بارودی سرنگ پر پاؤں رکھنے کے بعد اپنی ٹانگوں کا نچلا حصہ کھو چکی ہیں۔ حادثے میں ان کے خاندان کی تین دیگر خواتین ہلاک بھی ہو گئیں، جو اس وقت دلیلا کے ساتھ تھیں

دلیلا اب مصنوعی ٹانگیں استعمال کر رہی ہیں، جو انہیں حال ہی میں مہیا کی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا ”میں اسے مشکل سے برداشت کر پاتی ہوں، بغیر ٹانگوں کے اس مصنوعی سامان کے ساتھ گھومنا پڑتا ہے۔‘‘

یمن میں بارودی سرنگوں سے پیدا ہونے والا خطرہ حالیہ سیلاب اور شدید بارشوں سے اور بھی بڑھ گیا ہے۔ اضافی پانی نے نہ صرف غریب خاندانوں کے گھروں کو تباہ کیا، بلکہ زیر زمین بارودی سرنگوں کو نکال کر ان علاقوں مین بہا لے گیا، جہاں پہلے ان کا کوئی خطرہ نہیں تھا

بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے زیر انتظام یمن کے ایگزیکٹو مائن ایکشن سینٹر کے سربراہ امین العقیلی نے کہا ہے کہ واضح طور پر ان تمام علاقوں میں بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنانے کے لیے بہت زیادہ کوشش کرنا پڑے گی۔ اگست کے مہینے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہناتھا کہ اس کام کی تکمیل میں غالباً کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close