عمر بڑھنے کے ساتھ خواتین کی اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت تو متاثر ہوتی ہی ہے، لیکن کیا اس طرح کی حیاتیاتی گھڑی مردوں میں بھی ہوتی ہے؟
ایک نئی طبی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ مردوں میں خواتین جیسا اثر تو دیکھنے میں نہیں آتا لیکن باپ بننے کی صلاحیت پچاس سال کی عمر کے بعد تنزلی کا شکار ہوجاتی ہے، چاہے تولیدی ٹیکنالوجی کا ہی سہارا کیوں نہ لیا جائے
یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق کے بعد سامنے آئی ہے
سینٹر فار ری پروڈکٹیو اینڈ جینیٹکس ہیلتھ کی تحقیق میں پچاس سال سے زائد یا کم عمر مردوں کا جائزہ لینے پر دریافت کیا گیا کہ جب مرد پچاس سال سے زیادہ عمر کے ہوجاتے ہیں تو آئی وی ایف یا دیگر ٹیکنالوجیز کا سہارا لینے پر بھی اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت میں نمایاں کمی آ جاتی ہے
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں مردوں اور خواتین میں تاخیر سے اولاد کے حصول کا رجحان عام ہو رہا ہے، جو مختلف مسائل کا باعث بن سکتا ہے
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ باپ کی عمر بچے کی صحت پر بھی اثرات مرتب کر سکتی ہے اور اس حوالے سے ایک امریکی تحقیق کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق باپ کی عمر پینتالیس سال سے زیادہ ہونے سے ماں میں حمل کے دوران ذیابیطس، قبل از پیدائش اور neonatal seizures کا خطرہ بڑھ جاتا ہے
اس تحقیق میں شامل جوڑے کسی حد تک بانجھ پن کے شکار تھے اور آئی وی ایف یا دیگر ٹیکنالوجیز کا سہارا لینے پر مجبور ہوئے
تحقیق میں 4271 مرد اور 4833 خواتین کو شامل کیا گیا تھا اور دریافت ہوا کہ پچاس سال سے زائد عمر کے مردوں کے ہاں بچے کی پیدائش کا امکان 33 فیصد تک کم ہوجاتا ہے
ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ زیادہ عمر کے مردوں میں ڈی این اے متاثر ہونے کی شرح زیادہ ہوتی ہے اور اس سے آئی وی ایف کا اثر بھی گھٹ جاتا ہے، جبکہ اسقاط حمل کا خطرہ بڑھتا ہے
اسی طرح عمر بڑھنے سے اسپرم کی حرکت اور تعداد پر بھی بدترین اثرات مرتب ہوتے ہیں
محققین کا کہنا تھا کہ خواتین کی تولیدی صحت کے لیے یہ اثر بہت تیزی سے نمودار ہوتا ہے جبکہ مردوں میں یہ بتدریج آگے بڑھتا ہے
تاہم طبی ماہرین نے کہا کہ عمر کو کم تو نہیں کیا جا سکتا مگر مرد طرز زندگی کے ذریعے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کو منفی اثرات سے بچا سکتے ہیں، جس کے لیے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا جا سکتا ہے
یاد رہے کہ 2020 میں بھی اسی طرح کی ایک طبی تحقیق کے مطابق ”برسوں سے خواتین کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ بچوں کی پیدائش کے لیے عمر کی تیسری یا چوتھی دہائی کا انتظار مت کریں مگر اب یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ مردوں پر بھی اس کا اطلاق ہونا چاہیے“
درحقیقت عمر میں اضافے کے ساتھ مردوں کے لیے باپ بننا مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے
2020 میں طبی جریدے جرنل ہیومین ری پروڈکشن میں شائع تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ مردوں میں شریک حیات کو حاملہ کرنے کی صلاحیت ‘نمایاں’ حد تک کم ہو جاتی ہے
آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بچوں کی پیدائش کے لیے مردوں کی عمر انتہائی اہمیت رکھتی ہے
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ عمر کے بڑھتے ہر سال کے ساتھ مردوں میں باپ بننے کا امکان 4.1 فیصد تک کم ہوجاتا ہے، چاہے بیوی کی عمر کتنی ہی کم کیوں نہ ہو
سابقہ تحقیق کے مطابق مردوں میں چالیس سال کے بعد اس صلاحیت میں نمایاں کمی آنے لگتی ہے اور پینتالیس سال کی عمر میں باپ بننے کے لیے بیس کی دہائی کے عمر کے مردوں کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ وقت لگ سکتا ہے
تب تحقیق میں ڈیڑھ ہزار سے زائد جوڑوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو اولاد کے حصول میں کسی نامعلوم وجہ سے مشکلات کا سامنا تھا اور آئی وی ایف طریقہ علاج کو بھی استعمال کر چکے تھے
اس تحقیق میں شامل مردوں کی عمریں ستائیس سے ستتر سال کے درمیان تھیں، جبکہ خواتین کی عمریں اکیس سے اڑتالیس سال کے درمیان تھیں
محققین نے بتایا کہ اولاد کے لیے مردوں کی عمر کے اثرات کے نتائج متنازع ہونے کے ساتھ اس بارے میں صحیح طریقے سے جانچ پڑتال نہیں کی گئی، اس کے برعکس یہ معلوم ہے کہ عمر کی چوتھی دہائی کے وسط سے خواتین میں ماں بننے کا امکان کم ہونے لگتا ہے
انہوں نے کہا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ مردوں کے اسپرم ڈی این اے کو نقصان پہنچنے سے زیادہ کمزور ہونے لگتے ہیں
محققین نے اعتراف کیا کہ تحقیق محدود سطح پر ہے اور فرٹیلیٹی مسائل کے اسباب کو دریافت کرنا مشکل ہے
تاہم انہوں نے کہا کہ لوگ اس بات کو سمجھیں کہ عمر بڑھنے کے ساتھ انہیں اولاد کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے
ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے معاملے میں زیادہ معلومات نظر آتی ہے جبکہ مردوں کے مسائل کو چھپایا جاتا ہے
اس سے قبل 2018 میں امریکا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے دوران چار کروڑ سے زائد بچوں کی پیدائش کے ڈیٹا کا جائزہ لے کر والدین کی عمر اور بچے کی صحت پر اس کے اثرات کا تجزیہ کیا گیا
نتائج سے معلوم ہوا کہ والد کی عمر اگر پینتالیس سال ہو تو بچوں کی قبل از وقت پیدائش، کم پیدائشی وزن اور زچگی کے بعد طبی امداد جیسے وینٹی لیشن یا دیگر کی ضرورت پڑ سکتی ہے
تحقیق میں مزید بتایا گیا تھا کہ والد کی عمر اگر پینتالیس تک ہو تو بچے کی قبل از وقت پیدائش یا کم پیدائشی وزن کا خطرہ 14 فیصد تک بڑھ جاتا ہے
محققین کا تو یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس عمر کے مردوں کی بیویوں میں بھی دوران زچگی ہائی بلڈ شوگر کا مسئلہ سامنے آسکتا ہے، جس کی وجہ عمر بڑھنے سے مردوں کے اسپرم میں آنے والی تبدیلیاں ہیں
محققین کا کہنا تھا کہ اس طرح کے منفی نتائج سے بچنا اس صورت میں ممکن ہے اگر مرد بچوں کی پیدائش کے لیے پینتالیس سال تک کی عمر کا انتظار مت کریں۔