پولیو متاثرہ دُرِ نجف: اسکول میں داخلہ نہ ملنے سے پی ایچ ڈی تک کا سفر۔۔

ویب ڈیسک

دو سال کی عمر میں پولیو وائرس سے متاثر ہونے والی جہلم کی رہائشی درِنجف نے اپنا تعلیمی سفر مایوس اور دل برداشتہ کر دینے والے حالات میں شروع کیا تھا

در نجف نے بتایا ”میری معذوری کی وجہ سے مجھے اسکول میں داخلہ نہیں ملتا تھا۔اسکول والے مجھے اس وجہ سے داخلہ نہیں دیتے تھے، کیونکہ میں چل نہیں سکتی تھیں“

لیکن اپنے عزم، حوصلے اور محنت سے انہوں نے امید کی وہ منزل پائی، جس کی بہت سے لوگ تمنا کرتے ہیں

جی ہاں ، در نجف حال ہی میں ملائیشیا سے پی ایچ ڈی کر کے آئی ہیں

درنجف کی کہانی نہ صرف کسی قسم کی جسمانی معذوری کے شکار افراد کے لیے حوصلے اور ہمت کا باعث ہے، بلکہ یہ کہانی ہمیں اپنے معاشرتی رویوں پر بھی سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے

پاکستان کا شمار دنیا کے ان دو ممالک میں ہوتا ہے، جہاں اب بھی پولیو وائرس پایا جاتا ہے، جس کے شکار اکثر افراد دہری اذیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ انہیں نہ صرف جسمانی معذوری کی مشکلات جھیلنا پڑتی ہیں، بلکہ ساتھ ہی انہیں منفی معاشرتی رویوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے

لیکن اس کے باوجود کئی ایسے پولیو متاثرین بھی ہیں، جو اپنی ہمت و استقلال کی وجہ سے ان مشکلات کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیتے۔ جہلم سے تعلق رکھنے والی درِ نجف بھی ایسے ہی افراد میں شامل ہیں

انہوں نے اپنی بپتا سناتے ہوئے کہا ”میں دو سال کی عمر میں پولیو وائرس کا شکار بننے کے بعد جسمانی طور پر معذور ہو گئی تھی۔ میں بالکل بھی ہل جل نہیں سکتی تھی لیکن آہستہ آہستہ میں نے کوشش کی اور پھر میں اس قابل ہوگئی کہ بات کر سکوں، بیٹھ سکوں“

اس طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں بہتری آنے لگی اور وہ اپنے روزمرہ کے کام خود کرنے لگیں

لیکن یہی کافی نہیں تھا، در نجف جب اسکولنگ کی عمر کو پہنچیں تو مزید مشکلات ان کی منتظر تھیں۔۔ وہ بتاتی ہیں ”پھر میری تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا تو مجھے کوئی بھی اسکول قبول نہیں کرتا تھا۔ اسکول والے یہ کہتے تھے کہ ہم اس کو داخلہ نہیں دیں گے کیوں کہ یہ چل نہیں سکتی“

درِ نجف کے مطابق ان کے والد منگلا میں ملازمت کرتے تھے، جہاں موجود ماڈل کرسچن اسکول وہ واحد سکول تھا کہ جس نے انہیں داخلہ دیا ”اس طرح میں نے اپنی تعلیم مکمل کی، لیکن جہاں اللہ میرے سامنے فرشتے لے کر آیا، وہیں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے مجھے بہت مایوس کیا“

وہ مزید بتاتی ہیں ”کالج میں میری کلاس دوسری منزل پر تھی، تو میں نے کالج انتظامیہ سے درخواست کی کہ میری کلاس نچلی منزل پر شفٹ کر دیں لیکن انہوں نے میری بات نہیں مانی اور پھر میں پورا ایک سال سہیلیوں کی مدد سے اوپر جا کر کلاس لیتی تھی“

درِنجف نے بتایا ”میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے ملائیشیا جانا چاہتی تھی۔ وہاں میرا داخلہ ہو گیا اور میری پی ایچ ڈی شروع ہو گئی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اپنا ریسرچ کا کام بہت اچھے طریقے سے کیا ہے اور میں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر لی ہے“

تمام تر مشکلات اور اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد درِ نجف اب جہلم میں ہی ایک سرکاری اسکول میں بطور ٹیچر ملازمت کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک نجی کمپنی ’ریسرچ رُوف‘ کے ساتھ بھی منسلک ہیں

درِ نجف نے بتایا کہ جب انہوں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے ایک پروگرام سے متعلق معلومات حاصل کرنا شروع کیں تو انہیں وہاں بھی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا

وہ کہتی ہیں ”آئی پی ایف پی ہائر ایجوکیشن کمیشن کا ایک پروگرام ہے، جس کے تحت پی ایچ ڈی ہولڈرز کو یونیورسٹیوں میں منتخب کیا جاتا ہے۔ میں جب ان کی ویب سائٹ پر گئی تو وہاں پر کہیں بھی کوئی کوٹہ نہیں تھا

”کہا گیا ہے کہ تین فیصد کوٹہ ہمارا ہے، مگر ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر دیکھیں تو وہاں آپ کو طالب علم سے متعلق تھری پرسن کوٹہ ملے گا۔ ساری سہولیات کے ساتھ ویل چیئر وغیرہ لیکن نوکری سے متعلق کچھ نہیں ملے گا“

درِ نجف کا کہنا ہے ”ایچ ای سی سے میرا یہ سوال ہے کہ ہمارے لیے بھی آپ اس چیز پر غور کریں، ہمارا جو کوٹہ ہے اس میں بھی ملازمت کو مختص کریں۔ اگر نارمل لوگ اسکالرشپ پر جا سکتے ہیں تو ہم معذور لوگ کیوں نہیں جا سکتے ہیں“

وہ کہتی ہیں ”اسکالر شپ میں ہمارا حصہ برابر ہونا چاہیے، گرانٹس میں بھی ہونا چاہیے جو کہ بالکل بھی مینشن نہیں کیا گیا۔ میری ایچ ای سی سے گزارش ہے کہ آپ لوگ اس معاملے کو دیکھیں۔ ان چیزوں پر غور کریں اور اپنی ویب سائٹ کو اپ ڈیٹ کریں“

درِ نجف کا کہنا ہے ”جب میری شادی ہوئی تو میرے ہی خاندان والے بار بار آ کر میرے شوہر کو دیکھتے تھے کہ کیا ان میں کوئی مسئلہ تو نہیں یا لڑکے کی یہ دوسری شادی تو نہیں ہے۔ یہ چیزیں مجھے تکلیف تو دیتی تھی لیکن میں نے انہیں دل پر نہیں لیا، مگر میں معاشرے کی سوچ کو دیکھ رہی تھی کہ اگر میں اتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہوں اور میں اپنی فیملی لائف شروع کرنے جا رہی ہوں تو میری حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے میری حوصلہ شکنی تو نہ کریں“

وہ بتاتی ہیں ”جب میری بیٹی پیدا ہوئی تو جو لوگ آتے تھے وہ میری بیٹی کو دیکھتے تھے کہ وہ نارمل ہے یا نہیں۔۔؟ یہ میرے لیے بہت تکلیف دہ بات تھی۔ یہ لوگوں کی سوچ ہے کہ ایک معذور کا بچہ معذور ہی ہوگا۔ مجھے بہت برا لگتا تھا۔۔ لیکن بات وہی ہے کہ میں اگر ان چیزوں سے اور ان باتوں سے ہار مان لیتی تو میں اپنی زندگی میں کامیابی کا مقصد پورا نہ کر پاتی“

در نجف کا کہنا ہے ”اگر میں معاشرے کی بات کروں تو ابھی ہم 2022ع میں ہیں، لیکن آج بھی مجھے قبول نہیں کیا گیا۔ اگر آپ کسی انسان کی طرف پہلی بار دیکھیں تو وہ نظر قبول کرنے والی نہیں ہوتی اور وہ نظر بہت تکلیف دیتی ہے“

وہ کہتی ہیں ”میں نے تو اپنی جنگ جیت لی، اپنے ماں باپ کے ساتھ۔۔۔ کیونکہ وہ پڑھے لکھے تھے اور انہوں نے میرے لیے بہت آسانیاں پیدا کیں، لیکن بہت سارے ایسے لوگ ہیں، جو دور دراز کے علاقوں میں رہ رہے ہیں، ان کو مدد کی ضرورت ہے، ان کو رہنمائی کی ضرورت ہے کیونکہ ہمیں یہی نہیں معلوم کہ ہم نے کس طرف جانا ہے۔ ہمیں ایسا کیا کرنا چاہیے کہ ہم اپنی منزل کو پا لیں“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close