بلوچستان کے ضلع خاران میں قائم ایک یونیورسٹی کا ایک ذیلی کیمپس 2017ع میں ایک سرکاری اسکول کی عمارت میں قائم کیا گیا اور ابھی تک یہ اسی کے چند کمروں پر مشتمل ہے
واضح رہے کہ خاران کا شمار صوبے کے مرکزی شہروں سے دور اور پسماندہ اضلاع میں ہوتا ہے۔ یہاں اعلیٰ تعلیم کے مواقع کم ہیں
واضح رہے کہ 2017 میں بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ایک منصوبے کے تحت ذیلی کیمپسز قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو خاران بھی ان میں شامل تھا
اس کا سنگ بنیاد اس وقت کے چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ محمد نور مسکانزئی نے رکھا تھا۔ اس کے لیے خاران میں باقاعدہ پانچ سو ایکڑ زمین الاٹ کی گئی مگر فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے وہ جگہ ابھی تک اسی حالت میں ہے۔ اس وقت چونکہ کوئی مخصوص بلڈنگ موجود نہیں تھی تو خاران ماڈل ہائی سکول کے ایک پرائمری سیکشن کی عمارت میں اسے قائم کیا گیا
انعام اللہ بلوچ خاران میں واقع یونیورسٹی کیمپس میں بی بی اے کے طالب علم ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ادارے پر حکومتی توجہ نہ ہونے سے طلبہ مایوسی کا شکار ہیں
انہوں نے بتایا کہ یہ ادارہ 2017ع میں قائم ہوا، جس پر یہاں کے نوجوان خوش ہوئے کہ انہیں اب اپنے علاقے میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع ملیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا
انعام بلوچ کے مطابق ’اس کیمپس کا سب سے اہم مسئلہ کلاس رومز کی تعداد میں اضافہ نہ ہونا ہے جو آج تک صرف تین ہیں۔ دوسرا یہاں پر ہاسٹل نہ ہونے سے باہر کے طلبہ داخلہ نہیں لے سکتے۔‘
انہوں نے کہا ’ہمارے علاقے اور اس کے آس پاس رہنے والے نوجوان غریب ہیں اور وہ اپنے شہر سے دور تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کرسکتے لیکن یہاں پر انہیں کوئی سہولیات میسر نہیں۔‘
انعام بلوچ کا کہنا ہے کہ درپیش مسائل کے نتائج یہ نکل رہے ہیں کہ داخلوں کی شرح کم ہو رہی ہے جبکہ تعلیم کے خواہش لمند نوجوان بھی یہاں آ کر داخلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہاسٹل نہ ہونے پر مایوس لوٹ جاتے ہیں
اس طرح کا مسائل کی شکایات صرف طلبہ ہی نہیں کر رہے، بلکہ اساتذہ بھی اسی قسم کی شکایات کرتے نظر آتے ہیں
کیمپس کے مسائل کے حوالے سے ایک لیکچرار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ سب سے اہم مسئلہ یہاں کلاس رومز کی کمی اور ہاسٹل کا نہ ہونا ہے
انہوں نے بتایا ”ذیلی کیمپس میں صرف تین کلاسز چل رہی ہیں۔ باقی اساتذہ اپنی کلاسیں اسٹاف روم یا لائبریری میں لیتے ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ نئے شعبے متعارف کروانے کا ہے۔ جو تین شعبے یہاں چل رہے ہیں ان میں یا تو طلبہ و طالبات کی دلچپسی نہیں یا اگر ہے بھی تو وہ داخلے کی ابتدائی شرائط پر پورا نہیں اترتے، جس کی وجہ سے تعداد دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے“
لیکچرار کے بقول ذیلی کیمپس خاران میں ایل ایل بی پانچ سالہ پروگرام، بی بی اے چار سالہ پروگرام اور کمپیوٹر سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی چار سالہ پروگرام چل رہے ہیں، جن کے لیے اس وقت لیکچررز کی ضرورت ہے۔ اس وقت ایل ایل بی کے صرف دو لیکچرر ہیں اور کمپیوٹر سائنس کے تین استاد پڑھا رہے ہیں
ان کا کہنا تھا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی شرائط پر پورا اترنے کے لیے خاران کیمپس کو اس وقت بی ایڈ پروگرامز، لینگویجز، بی ایس انگریزی، بی ایس بلوچی، بی ایس اردو اور سوشل سائنس کے مضامین شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی ترقی اور کامیابی کا دارومدار بھی انہی مسائل کے حل میں ہے
لیکچرار نے بتایا کہ اس وقت کیمپس میں طلبہ و طالبات کی تعداد ایک سو تیرہ ہے۔ ادارے میں داخلے کی شرح بہت کم ہے۔ اس کی وجہ طلبہ و طالبات کی ضرورت اور دلچسپی کے مضامین کا موجود نہ ہونا ہے، جس کی وجہ سے یہ طلبہ و طالبات دوسرے صوبوں کی جامعات میں جانے یا تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہیں
لیکچرار نے بتایا کہ خاران اور مستونگ کیمپس دونوں کا قیام ایک ساتھ ہوا تھا۔ خاران کیمپس میں صرف دو شعبوں میں کام شروع ہوا تھا جو کہ ایل ایل بی تین سالہ پروگرام اور کمپیوٹر سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا چار سالہ پروگرام تھا، مگر مستونگ کیمپس میں پہلے دن سے بی ایڈ پروگرام، منیجمنٹ سائنسز، آئی ٹی اور فارمیسی کے پروگرامز شامل کیے گئے تھے
ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں خاران کیمپس کو ایک اورشعبہ دیا گیا، جوکہ بی بی اے کا تھا
’جب یہاں ایل ایل بی کا تین سالہ پروگرام چل رہا تھا تو پہلے سیشن میں 23 طلبہ و طالبات کا داخلہ ہوا تھا اور دوسرے سیشن میں 50 کے داخلے ہوئے تھے مگر پھر 2018 میں تین سالہ پروگرام بند کیا گیا اور ایل ایل بی پانچ سالہ پروگرام کے لیے ایچ ای سی نے ایل اے ٹی ایڈمیشن شروع کیا، جس میں بہت کم طلبہ و طالبات کامیاب ہوئے، جس کی وجہ سے داخلے کی شرح پر اثر پڑا۔‘
خاران کیمپس کو رخشان یونیورسٹی کا درجہ دینے کے لیے صوبائی اسمبلی میں قرارداد پیش کی گئی۔ یہ قرارداد بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثناء اللہ بلوچ نے پیش کی تھی، جو منظور بھی کرلی گئی لیکن ابھی تک اس کا ایکٹ بنانے کے لیے اسمبلی سے کوئی بل پاس نہیں ہوا ہے
واضح رہے کہ خاران بشمول رخشان ڈویژن، تعلیم کے میدان میں بلوچستان خاص کر مکران کے علاقوں سے کافی پیچھے ہے۔ یہاں کے لوگ معاشی حوالے سے کافی پسماندہ ہیں اور ان کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور مزدوری ہے، اس لیے یہاں اکثر بچے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے بعد تعلیم کو خیر باد کہہ دیتے ہیں
خاران سے صوبے کے باقی شہر، جہاں جامعات موجود ہیں، کافی دور واقع ہیں اور طلبہ و طالبات وہاں جا کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں
تعلیم بچاؤ مہم
دوسری جانب خاران میں یونیورسٹی کیمپس کے ان مسائل کے حل کے لیے سول سوسائٹی کا اور طلبہ کا احتجاج بھی جاری ہے اور گذشتہ دنوں اس سلسلے میں ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی گئی تھی
خاران میں شروع ہونے والی ’تعلیم بچاؤ مہم‘ میں شامل بلوچ اسٹوڈنٹس آگنائزیشن (بی ایس او) کے مرکزی کمیٹی ممبر اور خاران کے رہائشی غنی حسرت بلوچ سمجھتے ہیں کہ خاران یونیورسٹی ذیلی کیمپس پر عدم توجہی نے شہریوں کو احتجاج کا راستہ اپنانے پر مجبور کیا
غنی حسرت کا کہنا ہے ’خاران کی تاریخ میں عوامی اور طلبہ کی سطح پر اتنی بڑی ریلی آج تک نہیں نکلی، جس میں مردوں کے ساتھ خواتین کی بھی بڑی تعداد شریک رہی ہے، جن کا مطالبہ تعلیم بچانا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ اس کیمپس کو پانچ سال ہوئے ہیں، لیکن ابھی تک اساتذہ کے لیے رہائش اور علیحدہ عمارت کے علاوہ طلبہ و طالبات کے ہاسٹل کا قیام بھی عمل میں نہیں لایا جا سکا، جس کی وجہ سے اکثر طالب علم تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں
خاران کے سماجی رہنما بابو ظاہر احمد حسین زئی سمجھتے ہیں کہ ذیلی کیمپس جن مسائل سے دوچار ہے، اگر وہ حل نہ ہوئے تو خدشہ ہے کہ اسے بند نہ کر دیا جائے
انہوں نے کہا ’یہی وجہ ہے کہ سماجی کارکنوں اور طلبہ و طالبات نے اپنے مستقبل کے لیے اس مسئلے کو اٹھانے کا فیصلہ کیا، جس کے تحت ہم ہر فورم پر آواز بلند کررہے ہیں۔‘
دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی ثنا بلوچ نے گذشتہ دنوں اسلام آباد میں چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن سے ملاقات کی اور انہیں رخشان یونیورسٹی کے قیام اور خاران کیمپس میں مختلف شعبوں کے مسائل کے بارے میں آگاہ کیا
انہوں نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے خط بھی شیئر کیا، جس میں چیئرمین ایچ ای سی کو خاران سب کیمپس کے مسائل بتاتے ہوئے انہیں حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔