ہندرمن نام کا یہ چھوٹا سا گاؤں کارگل سے 13 کلومیٹر دور بھارت اور پاکستان کی سرحد پر اونچے اونچے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے
اسی گاؤں کی باسی زینب بی بی بتاتی ہیں ”میرے تین بھائی سرحد کے اس طرف تھے اور ایک بہن تھی۔۔ وہ سب مر گئے۔۔ ماں باپ، بھائی بہن، سب ایک دوسرے سے ملے بغیر مر گئے۔۔“
زینب کی یہ بات پوری بھی نہیں ہوتی اور ان کا دکھ ان کی آنکھوں سے آنسو بن کر چھلک پڑتا ہے۔۔ ان کی آنسوؤں سے بھیگی یہ آنکھیں سرحد کے اس طرف رہنے والے اپنے رشتے داروں کا انتظار کرتے کرتے تھک چکی ہیں
یہ گاؤں سرحد کے بہت نزدیک ہے۔ ہندرمن اور اس کے اطراف کا خطہ پہلے پاکستان کا حصہ تھا۔ سنہ 1971 کی جنگ میں بھارت نے اس پر قبضہ کر کے اسے ہتھیا لیا اور جنگ کی افراتفری میں کئی خاندان بچھڑ گئے
کچھ خاندان پاکستان کی طرف گئے، کچھ یہیں رہ گئے۔ اب پچاس برس بعد بھی یہ بچھڑے ہوئے رشتے دار ایک دوسرے سے مل نہیں سکے
بھارت کے قبضے کے بعد ہندرمن کے جو لوگ پاکستان چلے گئے، ان کے خالی مکانات اب بھی موجود ہیں
مقامی باشندے محمد حسین بتاتے ہیں ”سنہ 1971ع میں ہمارا گاؤں منقسم ہو گیا۔ آدھا اِدھر رہ گیا، آدھا اُدھر رہ گیا۔ ہمارا لین دین، ہماری رشتے داری اُس گاؤں میں بھی ہے اور یہاں بھی۔۔ کسی کی بہن اِدھر ہے تو کسی کا بھائی اُدھر ہے۔ کسی کی ماں اِدھر ہے تو کسی کا باپ اُدھر ہے۔۔۔“
’آدھے تو بوڑھے ہو کر مر گئے لیکن اپنوں سے مل نہ سکے۔‘
کبھی ایک ہی گاؤں میں بسنے والے ان لوگوں کو اب ایک دوسرے سے ملنے کے لیے ویزا کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہاں کے بیشتر لوگ غریب ہیں اور وہ ویزا لے کر ایک دوسرے کے ملک کے اتنے طویل اور مہنگے سفر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ جبکہ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتیں انہیں مشکل سے ہی ویزا دیتی ہیں
محمد حسین کہتے ہیں ”کرتارپور راہداری کھلنے سے ہماری امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ ہم ایک عرصے سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمارا سرحدی راستہ کھول دیا جائے۔ اس میں دونوں حکومتوں کو کوئی دقت درپیش نہیں۔ راستہ بالکل نزدیک ہے۔ دس منٹ کا راستہ ہے“
ہندرمن کے باشندے محمد الیاس کے چچا جنگ کے دوران سرحد کے دوسری طرف کے گاؤں چلے گئے تھے اور پھر کبھی واپس نہ آ سکے
الیاس نے بچھڑنے والوں کو یاد رکھنے کے لیے ’یادوں کا میوزیم’ بنایا ہے
الیاس اپنے میوزیم میں رکھے ہوئے ایک صندوق کو دکھاتے ہوئے بتاتے ہیں ”یہ چچا کا صندوق تھا، اسے جب ہم نے کھولا تو اس میں ان کے کپڑے اور دوسرا سامان نکلا۔ ہم نے اس سامان کو یہاں کی دیوار پر لگا دیا“
وہ کہتے ہیں ”ہم اس طرح اپنے بچھڑے ہوئے رشتے داروں کو یاد کرتے ہیں تاکہ ہم دنیا کو بتا سکیں کہ ہم اپنے بچھڑنے والوں کو بھولے نہیں۔۔ ہمیں ان کا درد ہے۔“
الیاس نے ایک فوٹو دکھاتے ہوئے بتایا ”یہ ہمارے ماموں کی فوٹو ہے۔ انہیں یاد رکھنے کے لیے ہمارے پاس صرف یہی فوٹو ہے“
گاؤں سے کچھ ہی دور پاکستان کا خطہ دکھائی دیتا ہے۔ شاہراہ ریشم ہندرمن گاؤں اور کارگل قصبے کے درمیان سے گزرتی ہے۔ یہ شاہراہ اب بھی موجود ہے لیکن پاکستان کا خطہ جہاں سے شروع ہوتا ہے، اس سے کچھ پہلے بھارت کی جانب سے یہ بند کر دی گئی ہے۔ وہاں بھارتی فوج کی چھاؤنی ہے لیکن یہ خطہ عموماً پُرسکون رہا ہے
مقامی رہنما سجاد حسین اس کو ایک انسانی مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”لداخ اور بلتستان کے درمان تقریباً پندرہ ہزار خاندان ایسے ہیں جو آج بھی منقسم ہیں۔ یہ ایک انسانی المیہ ہے۔ ہم نے کئی بار حکومتوں سے اپیل کی کہ اس مسئلے کو انسانی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح کی جدوجہد ہم نے کھرمنگ اور بلتستان میں بھی دیکھی ہے۔۔ یہاں تک کہ گلگت بلتستان کی اسمبلی میں قرارداد بھی منظور کی گئی لیکن بدقسمتی سے ابھی تک کوئی پہل نہیں ہوئی“
سجاد حسین متبادل حل بتاتے ہوئے کہا ”اگر حکومت راستے نہیں کھول سکتی تو کم از کم ایک ایسا ’میٹنگ پوائنٹ‘ بنا دے، جہاں رشتے دار ایک دوسرے سے مل سکیں“
وہ کہتے ہیں ”اگر یہ سڑک کھل جائے تو یہ جو پورا خطہ سکیورٹی کا مرکز بنا ہوا ہے، امن کے خطے میں بدل سکتا ہے“
زینب بی بی اب بوڑھی ہو چکی ہیں۔ اپنوں کے انتظار میں ان کی آنکھیں تھک چکی ہیں اور اس گاؤں کی نئی نسل سرحد کے اس فاصلے کو ختم ہوتا ہوا دیکھنا چاہتی ہے۔۔ لیکن اپنی یادوں اور درد کے ساتھ ہندرمن گاؤں اس سوال کے ساتھ ساکت کھڑا ہے کہ کیا اس کی گلیوں میں کھیلتے ہوئے پروان چڑھنے والے کیا کبھی لوٹ کر آ سکیں گے؟