امریکی صدر جو بائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ اوپیک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کرنے کی صورت میں سعودی عرب کو نتائج بھگتنے پڑیں گے
امریکہ کے اعتراضات کے باوجود تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کی جانب سے گزشتہ ہفتے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کے اعلان کے پس منظر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز کہا کہ اس فیصلے کے سعودی عرب کے ساتھ امریکی تعلقات پر سنگین مضمرات ہوں گے
سی این این کے جیک ٹیپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں جو بائیڈن نے کہا کہ وہ ان آپشنز پر فی الوقت بات نہیں کریں گے، جو زیرِ غور ہیں۔ تاہم کہا کہ یہ طے ہے کہ اس کے نتائج ضرور ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں امریکہ کے لیے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات پر ازسرنو نظر ثانی کرنے کا وقت آ گیا ہے
واضح رہے کہ جو بائیڈن کے اس بیان سے ایک ہی روز قبل سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین ڈیموکریٹ رہنما بوب میننڈیز نے کہا تھا کہ امریکہ کو سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت سمیت اپنے تمام تعاون فوری طور پر منجمد کر دینے چاہئیں
تاہم بائیڈن انتظامیہ کے سینیئر عہدیداروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے خلاف کسی طرح کا جوابی منصوبہ امریکہ کو درپیش پیچیدہ صورت حال کے مدنظر نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات سے پہلے ممکن نہیں ہے
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرین ژاں پیئر کا کہنا تھا کہ پالیسی پر نظر ثانی کی جائے گی تاہم انہوں نے اس کے لیے وقت اور طریقہ کار کے بارے میں بتانے سے انکار کر دیا کہ یہ نظر ثانی کس طرح کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں پر باریکی سے نگاہ رکھے گا
امریکا کس بات پر جھنجھلایا ہوا ہے؟
واضح رہے کہ امریکہ کی جانب سے اوپیک پلس ممالک کو قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ وہ پیداوار میں کمی نہ کریں تاہم اس کے باوجود اوپیک پلس نے پیداوار میں کمی کا اعلان کر دیا
امریکہ نے سعودی عرب پر روس کی طرف جھکاؤ رکھنے کا الزام عائد کیا ہے، جسے یوکرین پر حملے کے بعد روسی تیل کی قیمتوں پر مغرب کی جانب سے حد مقرر کرنے پر اعتراض ہے
امریکی حکام اپنے سب سے بڑے عرب اتحادی کو پیداوار میں کمی کے خلاف قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ولی عہد محمد بن سلمان نے امریکہ کی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے
تازہ ترین پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جو بائیڈن کے لیے بہت حساس ہے۔ نومبر میں امریکہ میں وسط مدتی انتخابات ہونے ہیں اور مہنگائی میں اضافہ ان کے ریپبلکن حریفوں کے لیے اچھا موضوعِ گفتگو بن سکتا ہے
صدر بائیڈن کے بیان سے قبل امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے اوپیک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں یومیہ دو ملین بیرل کی کٹوتی کرنے کے فیصلے کو ’تنگ نظری‘ قرار دیتے ہوئے کہا ”اس سے روس کو فائدہ ہوگا جب کہ اس وقت کوئی بھی شخص نہیں چاہتا کہ ولادیمیر پیوٹن کو کسی طرح کا فائدہ پہنچے۔” خیال رہے کہ روس اوپیک پلس کا رہنما ہے
خبروں کے مطابق اوپیک اور اس کے اتحادیوں نے دو ملین بیریل روزانہ کی بنیاد پر تیل کی پیداوار میں کٹوتی کرنے کا پچھلے ہفتے اعلان کیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق موسم سرما کے آغاز پر اس اقدام سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا خدشہ ہے
جان کربی کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اوپیک کے فیصلے سے مایوس ہوئے ہیں اور وہ کانگریس کے ساتھ مل کر سعودی عرب سے تعلقات کے حوالے سے غورو فکر کرنے پر تیار ہیں کہ یہ تعلقات کیسے ہونے چاہئیں
یہ معاملہ امریکہ کے لیے کتنا اہم ہے؟
سفارتی ذرائع کے مطابق وائٹ ہاؤس نے اوپیک ممالک پر تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے کو روکنے کے لیے بہت دباؤ ڈالا تھا
جان کربی نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ”میرا خیال ہے کہ صدر واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے تعلقات کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اوپیک کے فیصلے کی روشنی میں میرا خیال ہے کہ وہ ایسا کرنا چاہیں گے۔“
جان کربی کا مزید کہنا تھا، ”میرا خیال ہے کہ وہ فوراً ہی اس حوالے سے تبادلہ خیال کرنے کے لیے تیار ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ یہ ایسا ہے کہ اس کے بارے میں انتظار کیا جائے۔ کیونکہ یہ مسئلہ صرف یوکرین میں جنگ کے حوالے سے تحفظات کا نہیں بلکہ یہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مفاد کا معاملہ بھی ہے“
سعودی عرب کا موقف
خیال رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے تین ماہ قبل سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے ملک کے عملاً حکمراں ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی تھی
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سعودی عرب نے پیداوار میں کمی کے حالیہ فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اوپیک پلس ممالک کی ترجیح ’تیل کی ایک پائیدار منڈی‘ قائم رکھنا ہے
منگل کو سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے العربیہ ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ یہ فیصلہ ’مکمل طور پر اقتصادی تھا اور (تنظیم کے) رکن ممالک نے متفقہ طور پر لیا۔‘
اُنہوں نے کہا کہ ’اوپیک پلس ارکان نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے درست فیصلہ لیا۔‘
’سعودی عرب نے ماسکو کو رعایت دی‘
سینیٹر باب مینینڈیز نے کہا کہ سعودی عرب نے ماسکو کو ایسی رعایت فراہم کی ہے، جس سے عالمی معیشت کو نقصان پہنچے گا
ان کا کہنا تھا کہ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری تعاون کے علاوہ تمام سکیورٹی تعاون اور اسلحے کی فروخت فوری طور پر بند کر دینی چاہیے
’خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر میں سعودی عرب کے ساتھ کسی تعاون کی منظوری تب تک نہیں دوں گا جب تک وہ یوکرین میں جنگ کے معاملے پر اپنے مؤقف کا از سرِ نو جائزہ نہیں لیتے۔‘
جو بائیڈن نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ ملکی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے کو روکنے کے لیے متبادل آپشنز پر بھی غور کریں گے
ان میں ممکنہ طور پر امریکہ کے اسٹریٹجک ذخائر سے تیل نکال کر فروخت کرنے، مقامی سطح پر مزید ڈرلنگ کرنے اور برآمدات کی حد مقرر کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔