ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال دیکھ کر مجھے نجانے کیوں ایک بھارتی فلم بہت یاد آرہی ہے۔ ’’گجنی‘‘ کے نام سے 2008 میں ریلیز ہونے والی فلم کی خاص بات ’’شارٹ ٹرم میموری لاس‘‘ نامی بیماری تھی، جس میں مبتلا فلم کے ہیرو کی یادداشت کچھ وقت کےلیے کھوجاتی تھی اور وہ اپنا ماضی بھول جاتا تھا۔ میں آج اپنے ملک کے سیاسی کرداروں اور ان کے بیانات کو سنتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سیاستدان بھی اسی ’’شارٹ ٹرم میموری لاس‘‘ بیماری کا شکار ہیں اور اپنا کہا خود ہی بھول جاتے ہیں۔
میں یہاں کسی ایک سیاسی رہنما کی بات نہیں کررہا۔ ہمارے ملک کے تمام ہی سیاسی رہنما ہوں یا مذہبی، سب اس وقت ’’گجنی‘‘ کی شکل اختیار کرگئے ہیں اور عوام سوچنے پر مجبور ہیں کہ یہ سیاسی زعما ہمارے ساتھ جو وعدے کررہے ہیں وہ کل پھر اسی بیماری کے باعث ان کو بھول تو نہیں جائیں گے۔ آپ خود غور کیجئے کہ یہ سیاسی رہنما ماضی میں کیا کچھ کہتے آئے ہیں اور پھر کس طرح اپنی بات سے مکر جاتے ہیں۔
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کے چیئرمین تو اس حوالے سے خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین انہیں ’’یو ٹرن‘‘ کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں لیکن میرے خیال میں وہ اس وقت ملکی سیاست کے سب سے بڑے ’’گجنی‘‘ ہیں۔ جب وہ 2018 سے پہلے اپوزیشن میں تھے تو کہتے تھے کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھ جائیں تو سمجھ جائیے کہ حکمران چور ہیں۔ اور جب خود حکمران بن گئے ہیں تو ان کا موقف بالکل بدل گیا۔ اپوزیشن میں ان کےلیے اسلام آباد پر چڑھائی کرنا اور احتجاج کرنا جائز تھا اور ان کی حکومت میں اگر یہی کام اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں کرتیں تو یہ حرام ہوجاتا تھا۔ ہارس ٹریڈنگ اور لوٹا کریسی ان کےلیے کبھی حرام ہوتا تھا اور جب آڈیو لیک ہوتی ہے تو وہ اس میں فخریہ بتارہے ہوتے ہیں کہ دوسری جماعتوں کے کتنے ممبر ان کے ساتھ ہیں۔ ان کو اگر یہ باتیں یاد دلائی جائیں تو فوری طور پر ’’گجنی‘‘ بن جاتے ہیں اور پھر ایک نیا بیان داغ دیتے ہیں۔
کل کے اپوزیشن رہنما اور آج کے حکمران بھی ان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ آپ خود دیکھ لیجئے کہ موجودہ وزیراعظم اب سے ایک سال پہلے تک پٹرول کی قیمتیں بڑھنے پر اسے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ قرار دیتے تھے اور آج جب وہ خود ان کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں تو یہ ان کی نظر میں ایک مشکل معاشی فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ اپوزیشن میں ہوتے تھے تو ’’مہنگائی مارچ‘‘ کرتے تھے اور آج یہ ’’گجنی‘‘ بن کر مہنگائی سے لاتعلق نظرآتے ہیں۔ یہ کسی زمانے میں پیپلزپارٹی کے بھی بڑے مخالف تھے اور بھرے جلسوں میں اپنے سیاسی حریف کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ ان کو لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ لیکن اقتدار کے مزے لوٹتے ہوئے وہ بھی ’’شارٹ ٹرم میموری لاس‘‘ کا شکار ہوچکے ہیں اور ’’گجنی‘‘ بنے ہوئے اپنی تمام باتیں بھول چکے ہیں
ہماری سیاست کے ایک اور کردار ہیں جو اپنے مخالف کو جنرل ضیا کی اولاد کہتے تھے۔ یہ بھی کہتے تھے کہ وہ بھارتی ایجنٹ ہیں۔ لیکن یہ دونوں آج کل سیاسی بھائی بنے ہوئے ہیں۔ یا یوں کہہ لیجئیے کہ ان دونوں پر ’’گجنی پن‘‘ اپنے جوبن پر آیا ہوا ہے۔ مل کر حکومت کررہے ہیں۔ نہ کوئی کسی کو سڑکوں پر گھسیٹ رہا ہے اور نہ ہی کسی کو جنرل ضیا کا بیٹا نظر آرہا ہے۔ ہاں یہ ضرور نظر آرہا ہے کہ حکمرانی ایک بڑی فائدہ مند چیز ہے اور اس کے ذریعے اپنے کیسز بھی ختم کرائے جاسکتے ہیں۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ’’شارٹ ٹرم میموری لاس‘‘ بیماری ہمارے سیاست دانوں کےلیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
ہمارے ایک مذہبی سیاسی رہنما بھی ہیں جو اس قومی اسمبلی کو ناجائز سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ 2018 میں ہونے والے الیکشن کا تمام عمل ہی ناجائز تھا اور ایک شخص کو ’’سلیکٹ‘‘ کرکے ملک کا وزیراعظم بنادیا گیا تھا۔ وہ ان اسمبلیوں میں بیٹھنے تک کےلیے تیار نہیں تھے۔ لیکن اقتدار بھی بڑی خوب چیز ہے، انسان اپنا کہا ہوا سب بھول جاتا ہے۔ یہ مذہبی سیاسی رہنما بھی آج کل ’’گجنی‘‘ بن کر یہ بھول گئے ہیں کہ یہ قومی اسمبلی جائز ہے یا ناجائز؟ کیونکہ ان کے بیٹے سمیت ان کی جماعت کے چار افراد اس وقت وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں۔ اس لیے ان کےلیے یہ وقت ’’شارٹ ٹرم میموری لاس‘‘ ہونے کا ہے۔
ایک طرف ہماری سیاست کے یہ ’’گجنی‘‘ ہیں اور دوسری طرف ہمارے عوام ہیں جو ’’دیوداس‘‘ بن چکے ہیں اور ان کی ’’پارو‘‘ ان کو دھوکا دے رہی ہے لیکن یہ اس بات کو سمجھنے کےلیے تیار ہی نہیں۔ ایک طرف ’’شارٹ ٹرم میموری لاس‘‘ کا شکار سیاستدان ہیں اور دوسری جانب بھرپور یادداشت رکھنے والے عوام، جو سب کچھ یاد رکھتے ہوئے بھی ان کو ہر وقت معافی دینے کےلیے تیار رہتے ہیں۔ ویسے ’بات تو سچ ہے لیکن بات ہے رسوائی کی‘ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے عوام جب تک ’’دیوداس‘‘ سے ’’کھل نائیک‘‘ نہیں بن جاتے، اس وقت تک ہماری سیاست میں یہ ’’گجنی‘‘ ہی راج کرتے رہیں گے۔
بشکریہ: ایکسپریس نیوز اردو