اتوار 16 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سات حلقوں میں سے چھ میں کامیابی سمیٹی اور صرف ایک حلقے میں ہارے
ان سات حلقوں میں پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ وہ واحد امیدوار تھے، جو عمران خان کو ہرانے میں کامیاب ہو سکے۔ حلقہ این اے 237 ملیر-ٹو سے پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالحکیم بلوچ نے عمران خان کو دس ہزار ووٹوں سے شکست دی
عبدالحکیم بلوچ 32 ہزار 567 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے جبکہ عمران خان 22 ہزار 493 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے
الیکشن کے غیر سرکاری نتائج آنے کے بعد گذشتہ رات دیر گئے جاری اپنے بیان میں این اے 237 سے جیتنے والے عبدالحکیم بلوچ نے کہا ”کراچی کے عوام نے 2018ع کی الیکشن کا بدلہ لے کر عمران خان کو مسترد کر دیا اور اب عمران خان کو اپنا بیانیہ تبدیل کرنا پڑے گا“
عبدالحکیم بلوچ کون ہیں؟
عبدالحکیم بلوچ کراچی کے ضلع ملیر میں واقع درسانو چھنو سے متصل گاؤں دُرمحمد گوٹھ کے رہائشی ہیں
عبدالحکیم بلوچ نے کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ سے 1979ع میں الیکٹرانک انجنیئرنگ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی
وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر رکن سندھ اسمبلی بھی رہے اور صوبائی وزیر بھی مقرر ہوئے
2013ع کے عام انتخابات سے پہلے وہ پیپلز پارٹی سے ناراض ہو کر مسلم لیگ ن میں چلے گئے تھے اور ان انتخابات میں پورے سندھ میں پاکستان مسلم لیگ ن نے جو واحد نشست جیتی تھی، وہ بھی عبدالحکیم بلوچ نے ہی جیتی تھی
الیکشن کے بعد انہیں طاقتور وفاقی وزیر برائے ریلویز خواجہ سعد رفیق کی موجودگی میں بے اختیار ریلویز کا وزیر مملکت بنا دیا گیا، جس پر انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کے سامنے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا
بعد ازاں انہیں جون 2015ع میں مواصلات کی وزارت کا قلمدان دیا گیا لیکن اختیارات نہ ملنے پر ان کا احتجاج جاری رہا
عبدالحکیم بلوچ نے اپنے وزارت اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے بظاہر یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ ان کے حلقے کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے وزیر اعظم نواز شریف سے بار بار درخواست کی، مگر ان کی ایک بھی نہیں سنی گئی۔ لیکن اصل وجہ بے اختیار وزارت پر ان کی برہمی تھی اور دوسری جانب پیپلز پارٹی انہیں دوبارہ اپنی پارٹی میں لانے کی خواہش مند بھی تھی
جس کے بعد نواز لیگ کے رہنما کیپٹن صفدر نے عبدالحکیم بلوچ سے ملاقات کر کے انہیں یقین دہانی کرائی کہ جلد ہی ان کے تمام مطالبات مان لیے جائیں گے۔ جس پر انہوں نے استعفیٰ واپس لے لیا
لیکن ان کے اختیارات بحال نہیں کیے گئے۔ ان سے پوچھے بغیر جب ان کی وزارت میں شاہد اشرف تارڑ کو سیکریٹری مقرر کیا گیا اور بعد میں شاہد اشرف تارڑ نے ان کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا تو یہ اقدام ن لیگ سے ان کے تعلق کے لیے آخری دھچکا ثابت ہوا
برطانوی نشریاتی ادارے انڈپینڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے وزارت مواصلات کے ایک سابق افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ عبدالحکیم بلوچ شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کئی ماہ تک اپنے آفس میں نہیں بیٹھے اور انہوں نے احتجاج کے طور پر 2016ع میں کراچی میں ہونے والی کراچی، لاہور موٹروے کی تقریب کا بھی بائیکاٹ کیا
بعد میں احتجاج کے طور پر انہوں نے مئی 2016ع میں نہ صرف وزارت اور اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا بلکہ مسلم لیگ ن سے بھی علیحدگی اختیار کر کے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ بعد میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی ٹکٹ پر دوبارہ الیکشن میں بھی وہ جیت کر اسمبلی ممبر منتخب ہوئے
2016ع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے دوران ان پر دباؤ تھا کہ وہ ضلعی میونسپل کارپوریشن ملیر میں ایک انتخاباتی الائنس بنائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے انہیں پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دی لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا
لیکن اس نشست پر 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے کیپٹن ریٹائرڈ جمیل خان نے عبدالحکیم کو شکست دی
اب دوبارہ ضمنی انتخابات میں وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر قومی اسمبلی میں واپس آئے ہیں۔