پاکستان نے کہا ہے کہ ورلڈ بینک کے اندازوں کے مطابق ملک میں حالیہ سیلاب کے سبب ہونے والے نقصانات کا اندازہ چالیس بلین ڈالر بنتا ہے۔ یہ اندازہ حکومت پاکستان کی طرف سے قبل ازیں لگائے گئے اندازوں سے دس بلین ڈالر زیادہ ہے
ان نقصانات کا تازہ تخمینہ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق ماہرین کی اسلام آباد میں ہونے والی ایک ملاقات میں سامنے آیا۔ ورلڈ بینک کی جانب سے تاہم اس حوالے سے کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی
رواں برس جون سے شروع ہونے والی مون سون کی شدید بارشوں اور سیلاب کے سبب 1719 افراد ہلاک جبکہ 33 ملین سے زائد بے گھر ہوئے۔ سیلابی پانی نے قریب بیس لاکھ گھروں کو مکمل یا جزوی طور پر نقصان پہنچایا
پاکستان میں حالیہ تباہی کے ذمہ دار کون؟
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور ملک میں نئی قائم کردہ کلائمیٹ چینج کونسل کے درمیان ملاقات کے بعد پاکستانی حکومت کی طرف سے جاری کردہ بیان میں ایک بار پھر پاکستان کا یہ موقف دہرایا گیا کہ پاکستان کا کاربن کے عالمی اخراج میں حصہ محض ایک فیصد ہے جبکہ پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے, جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں
تاہم پاکستان کے ایک معروف ہائیڈرولوجسٹ (ماہر آبی علوم) ڈاکٹر حسن عباس اس خیال سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”پاکستان میں ضروری استعمال کی قریب ہر چیز باہر سے آتی ہے۔ ظاہر ہے جس ملک میں انڈسٹری اتنی کم ہو، اس کا کاربن فٹ پرنٹ کیا ہونا ہے۔۔۔ لیکن ہم دنیا جہان کی انڈسٹری کی بنائی ہوئی چیزیں استعمال کر رہے ہیں، گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں، موبائل فون استعمال کر رہے ہیں، الیکٹرانکس استعمال کر رہے ہیں۔ ہماری ہر انڈسٹریل پراڈکٹ باہر سے بن کر آ رہی ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارا کاربن فٹ پرنٹ کہیں اور بن رہا ہے۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر درست اکاؤنٹنگ کی جائے تو ہمارا کاربن فٹ پرنٹ کہیں زیادہ ہوگا‘‘
ڈاکٹر حسن عباس کہتے ہیں ”دنیا کے دو سو ملکوں میں سے پاکستان کا ایک فیصد کاربن فٹ پرنٹ بھی اوسط سے زیادہ ہے۔ اگر درست اکاؤنٹنگ کریں تو ممکن ہے کہ یہ تین سے چار فیصد تک نکلے۔ تو یہ کہنا کہ ہمارا کاربن فٹ پرنٹ بہت کم ہے، یہ بات خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے تو کی جا سکتی ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے‘‘
سیلاب سے ہونے والی تباہی کے متعلق انہوں نے کہا ”اس نقصان کی بڑی وجہ ہمارے ترقیاتی ماڈل ہیں۔ پاکستان میں ترقیاتی ماڈلز جو پاکستان بننے سے پہلے تھے یا جو پاکستان بننے کے بعد اختیار کیے گئے، وہ ماحولیاتی ضروریات کے مطابق نہیں ہیں۔ بہت سی جگہوں پر ماحول کو اور پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستوں کو نظر انداز کیا گیا، تو ان کی وجہ سے سیلاب گزر جانے کے بعد بھی پانی کھڑا ہے، جیسے سندھ میں‘‘
ڈاکٹر حسن عباس کے مطابق ”دریاؤں کے چھوٹا کیے جانے، بند باندھنے یا بیراج بنانے جیسے اسباب نے اس سیلاب کے اثرات کو بڑھایا ہے۔ دریا کے قدرتی راستے کو ہم نے بہت تنگ کر دیا اور ان جگہوں میں آبادیاں بن گئیں اور لوگ آ کر بیٹھ گئے۔ اگر لوگ ان علاقوں میں نہ ہوتے تو سیلاب ان راستوں سے گزر جانا تھا اور اتنا نقصان نہیں ہونا تھا‘‘
دوسری جانب اقوام متحدہ کی طرف سے پاکستان کے لیے اپیل کی گئی امداد میں اضافہ کیا گیا ہے
اقوام متحدہ نے پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے عالمی برادری سے 160 ملین ڈالر فراہم کرنے کی اپیل کی تھی۔ تاہم حالیہ تخمینوں کا حوالہ دیتے ہوئے امدادی رقم میں پانچ گنا اضافہ کر کے اسے 816 ملین ڈالر کر دیا گیا ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق اس رقم کی فوری ضرورت ہے جو آئندہ برس تک جاری رہنے والے امدادی کاموں کے لیے درکار ہے
اقوام متحدہ کے مطابق سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ ہے، جہاں اب پانی کی سطح کافی حد تک کم ہو گئی ہے جبکہ دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ بلوچستان ہے جہاں 43 فیصد فصلیں تباہ ہو گئیں
پاکستان چاہتا ہے کہ عالمی برادری سیلاب زدگان کی مدد کے لیے امداد میں اضافہ کرے، جو اس وقت پانی کے سبب پھیلنے والی بیماریوں کے خطرات کا شکار ہیں۔ ان بیماریوں میں ملیریا اور ڈینگی فیور سرفہرست ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو اس برس شدید سردی کا سامنا ہوگا اور اسی باعث انہیں امداد کی فوری ضرورت ہے۔