کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں سندھی ہوٹل کے قریب ندی کنارے رکشہ اسٹینڈ پر 14 ستمبر کی رات بھی بڑا رش تھا۔ لیاقت آباد ماڈل تھانے کے ایس ایچ او لیاقت حیات کو اطلاع ملی تھی کہ 26 جون کو لیاقت آباد فلائی اوور کے قریب شہری وسیم الرحمان سے موبائل فون اور پچاس ہزار سے زائد رقم چھیننے والے اسی علاقے میں کہیں موجود ہیں
یہ صرف مخبر کی اطلاع نہیں تھی بلکہ شہری وسیم سے چھینا گیا موبائل بھی گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے ٹریکنگ پر تھا اور ان کا موبائل اسی علاقے میں کچھ دیر کے لیے آن ہوا تھا
جلدی سے لیاقت آباد تھانے کے اہلکاروں کو سادہ لباس میں اس علاقے میں بھیجا گیا۔ سب اہلکار ایک دوسرے سے فون پر رابطے میں تھے۔ اپنی شناخت چھپانے کے لیے کسی کے پاس کوئی واکی ٹاکی سیٹ بھی موجود نہ تھا
جن ملزمان کی تلاش میں سارا جال بچھایا گیا تھا، وہ ڈکیت حذیفہ اور غلام مصطفیٰ تھے۔ پہلے تو سادہ لباس نفری ان کے اردگرد بیٹھ گئی۔ کچھ دیر بعد جب حذیفہ اور غلام مصطفیٰ وہاں سے نکلنے لگے تو سادہ لباس اہلکاروں نے انہیں شرٹ کے کالر سے پکڑا اور پولیس موبائل میں ڈال دیا
عوام کے وہاں جمع ہونے سے پہلے تیزی سے علاقے سے موبائل کو نکالا اور انہیں لیاقت آباد تھانے لے آئے
دونوں سے الگ الگ کمروں میں تفتیش شروع کی گئی تاکہ اگر ملزمان جھوٹ بتائیں گے تو ان کے بیانات مختلف ہوں گے
لیکن تفتیش کے دوران حذیفہ نے ایک سوال کے جواب میں ایسی بات بتائی، جسے سن کر سارے تفتیشی افسران دنگ رہ گئے
جب ان سے پوچھا گیا کہ واردات کے لیے اسلحہ کون دیتا تھا تو ان کا جواب تھا: ”واردات کے لیے اسلحہ غلام مصطفیٰ کرائے پر دیتا تھا“
یہ سن کر پولیس اہلکاروں نے حذیفہ کو اسی کمرے میں چھوڑ کر غلام مصطفیٰ سے وارداتوں کے بارے میں پوچھنا شروع کیا
ایس ایچ او لیاقت آباد تھانہ لیاقت حیات کے مطابق ملزم نے بتایا کہ وہ خود تو بہت کم ہی وارداتوں پر جاتا ہے مگر اُس کے پاس جو پستول موجود ہے، وہ اسے دیگر ڈکیتوں کو دیتا ہے، جس سے وہ شہریوں کو لوٹتے ہیں اور کام مکمل کرنے کے بعد چھینے گئے مال سے اسے موبائل اور دو سے تین ہزار روپے دیتے ہیں
ایس ایچ او لیاقت حیات کے مطابق ملزم غلام مصطفیٰ نے انکشاف کیا کہ یہ اسلحہ حب میں موجود ایک دوست اسے لا کر دیتا ہے، جو ہر کچھ مہینے بعد آ کر پیسے بھی لے جاتا ہے۔ ملزم نے بتایا کہ وہ وارداتوں کے لیے ڈکیتوں کو سنہ 2016ع سے اسلحہ کرائے پر دے رہا ہے اور ہر پستول کے ہمراہ وہ لگ بھگ چار گولیاں بھی دیتا تھا
تاہم ملزم نے پولیس کے سامنے دعویٰ کیا کہ اُن کی جانب سے دیے گئے اسلحے یا پستول سے کبھی کوئی زخمی نہیں ہوا کیونکہ ان کے ساتھ کام کرنے والے ڈکیت اتنے ماہر تھے کہ انہیں گولی چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اُن کا ہدف زیادہ تر بزرگ اور بیس سے پچیس سال کے نوجوان ہوتے تھے، جن کو پستول دکھا کر اور ڈرا کر وہ لوٹ لیا کرتے تھے
یہ گروہ زیادہ تر لیاقت آباد، تین ہٹی، پی آئی پی کالونی، کریم آباد، عائشہ منزل اور گلبرگ کے اطراف میں وارداتیں کیا کرتا تھا لیکن اس گروپ میں شامل بارہ لڑکوں کی یہ خاصیت تھی کہ وہ اپنے ناموں پر کوئی موبائل سم آن نہیں کرواتے تھے، جس کی وجہ سے پولیس کے لیے ان کی لوکیشن ٹریس کرنا بہت مشکل ہوتا تھا
پولیس افسر لیاقت حیات کے مطابق ان کی اٹھائیس سالہ سروس میں یہ ڈکیت گروپ اس لیے بھی مختلف تھا کیونکہ یہ ساتھ وارداتیں کرنے کے باوجود ایک دوسرے کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔ یہ ایک دوسرے کے گھروں سے بھی ناواقف تھے، بس چائے کے ہوٹلوں پر مل کر واردات کے لیے علاقے کا انتخاب کرتے تھے اور نکل جاتے تھے
ملزم غلام مصطفیٰ نے اسی تفتیش کے دوران ایک اور اہم انکشاف بھی کیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ چند روز قبل پولیس نے جس ملزم کو مقابلے کے بعد زخمی حالت میں گرفتار کیا ہے، اس کے پاس سے جو پستول ملا تھا، وہ بھی غلام مصطفیٰ کی جانب سے کرائے پر دیا گیا تھا
اُنہوں نے بتایا کہ اُن کا ایک پستول ایک ڈکیت کے ہاتھوں پولیس کی سنیپ چیکنگ کے دوران پکڑا بھی جا چکا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ غلام مصطفیٰ کی کرائے پر دی جانے والی 30 بور کی پستولوں سے اب تک دو سو سے زائد شہریوں کو لوٹا جا چکا ہے
اس وقت حذیفہ اور غلام مصطفیٰ گرفتار ہو کر سینٹرل جیل کراچی جا چکے ہیں، جبکہ ان کے پاس سے ملنے والا اسلحہ فارنزک کے لیے بھیج دیا گیا ہے
ایک سینیئر پولیس افسر کے مطابق یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں کی گئی، جب کراچی پولیس پر بڑا دباؤ تھا
ستمبر کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی میں ڈکیتی کے دوران فائرنگ کر کے شہریوں کو قتل کر دینے کے واقعات میں اچانک بہت اضافہ ہوا تھا اور ہر روز ٹی وی چینلز پر کسی میچ کے اسکور کی طرح بتایا جاتا کہ ستمبر کے تین دنوں میں ڈکیتی مزاحمت پر پانچ افراد قتل، اور پانچ دنوں میں آٹھ افراد کو ڈکیتوں نے قتل کر دیا
ایسے میں ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو نے ڈکیت گروپوں کو پکڑنے کا ٹاسک شہر کے تمام اضلاع کے ایس ایس پیز کو دیا تھا
کرائے پر اسلحہ دینے کا کام کیسے ہو رہا ہے؟
اس حوالے سے کراچی پولیس کے چیف جاوید عالم اوڈھو کہتے ہیں ”ڈکیتوں کو اسلحہ کرائے پر دینے والے گروہ موجود ضرور ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے اور جب بھی پولیس کو ان کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو ان گینگز کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے“
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا بھی ایک ایسا کارندہ پکڑا گیا تھا، جو اسلحہ ڈکیتوں کو کرائے پر دیا کرتا تھا، جسے گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ کچھ منشیات فروش گروپ بھی کمانے کے لیے نشے کے عادی افراد کو پستول دے کر وارداتیں کرواتے ہیں اور پھر ان سے چھینا ہوا موبائل فون اور پیسے رکھ لیتے ہیں اور انہیں منشیات دے دیتے ہیں
ایڈیشنل آئی جی کراچی کے مطابق اگر جرائم کی شرح میں کمی کرنی ہے تو ہمیں اس کے لیے اپنے قانونی نظام میں اصلاحات کرنی ہوں گی۔ ’اگر لوٹے گئے شہری ہمارے ساتھ گواہ بن کر عدالت میں چلیں تو ملزمان کو سزا دلوائی جا سکے گی اور عدالتوں کو بھی جلد مقدمات پر فیصلے دینے ہوں گے تاکہ فوری انصاف مل سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ ایک شہری جسے پہلے کسی علاقے میں لوٹا گیا ہو، پھر اس کیس میں ملزمان کو پولیس گرفتار کر لے اور پھر عدالت ہر پیشی پر مدعی کو بلائے، ہر سماعت پر ثبوت کا معائنہ کرے تو اس سے شہریوں کو انصاف ملنے میں مشکلات ہوتی ہیں
انہوں نے بتایا کہ ایک ایسا عادی مجرم جو ماضی میں اٹھارہ بار گرفتار ہو چکا ہو، اسے بھی عدالت سے ضمانت مل جاتی ہے
وارداتوں کے تناسب میں کرائے کے اسلحہ کا کردار
محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کے سینیئر سپرنٹینڈنٹ آف پولیس ساجد سدوزئی کہتے ہیں ”پولیس کے پاس اسٹریٹ کرمنلز یا ان کے گروہوں کی کل تعداد کے حوالے سے کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے اور نہ ہی اسلحہ کرائے پر دینے والے ملزمان کی کوئی تعداد موجود ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ایسے گروہ موجود ہیں جو کرائے پر اسلحہ مجرمان کو دیتے ہیں۔“
لیکن اگر یہ بات کی جائے کہ اسلحہ کرائے پر دینے والے ملزمان کی وجہ سے کتنا فیصد وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو وہ تقریباً بیس فی صد ہوگا
ایس ایس پی ساجد سدوزئی کے مطابق اسٹریٹ کرمنلز کا گروہ زیادہ تر چار سے پانچ ملزمان پر مشتمل ہوتا ہے اور ہر ملزم کے پاس اسلحہ نہیں ہوتا، بلکہ گروہ کے ایک سے دو ممبران کے پاس ہی اسلحہ ہوتا ہے جسے وہ دیگر ممبران کو بھی وارداتیں کرنے کے لیے دیتے ہیں اور پھر لوٹے ہوئے سامان میں اسلحہ دینے والا کا بھی حصہ ہوتا ہے
ایس ایس پی سی ٹی ڈی کے مطابق اسلحہ ڈیلرز کو بھی پابند کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ جب بھی کوئی ہتھیار فروخت کریں تو اس کا فارنزک ثبوت یعنی گولی کا خول اپنے پاس رکھ لیں تاکہ کسی بھی واقعے کے بعد جائے وقوعہ سے ملنے والے خول سے اس کی میچنگ کی جا سکے
کیا قانونی اسلحہ بھی لوٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؟
سی ٹی ڈی سندھ کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آصف اعجاز شیخ کے مطابق کراچی میں مجرمان کو اسلحہ مل جانا کوئی مشکل عمل نہیں۔ کراچی میں وارداتوں میں ناصرف ایسے ہتھیار استعمال ہوتے ہیں جو غیر قانونی طور پر کراچی لائے جاتے ہیں بلکہ ایسے ہتھیار بھی استعمال کیے جاتے ہیں جو امپورٹ کر کے لائے جاتے ہیں
یہ حیران کن بات انہوں نے ایک مثال کے ساتھ بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ ایس ایس پی ساؤتھ تھے تو ایک لائسنس یافتہ اسلحہ ڈیلر سے پستول خریدنے گئے۔ اس دکاندار نے انھیں چار لاکھ روپے کی پستول فروخت کر دی، باوجود اس کے کہ اس وقت ان کے پرس میں ان کا اسلحہ لائسنس بھی موجود نہیں تھا
ڈی آئی جی آصف اعجاز شیخ کے مطابق اسلحے کی دکانوں پر موجود ہتھیاروں کا آڈٹ علاقے کے ڈی ایس پی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس آڈٹ میں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کتنی اور کس نوعیت کی پستولیں اور دیگر ہتھیار اور گولیاں اس دکاندار نے برآمد کیں اور کتنی مختلف لائسنسز پر شہریوں کو فروخت کیں اور کتنی ابھی اسٹاک میں موجود ہیں، مگر ان کے مطابق یہ عمل ڈی ایس پیز کی جانب سے درست انداز میں نہیں کیا جا رہا ہے
انہوں نے کہا کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس غلام نبی میمن کی جانب سے سی ٹی ڈی کو اس بات کا بھی ٹاسک دیا گیا ہے کہ پتہ لگایا جائے کہ کراچی میں ہتھیار کیسے آسانی سے آ رہے ہیں۔