عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں بلوچستان کے مسائل اور ان کے حل کے لیے مذاکرات اور ڈائیلاگ کی ضرورت سے متعلق اظہار خیال کے لیے موجود پرجوش پینل ڈسکشن میں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں نے مقامی لوگوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی، جہاں بلوچ اور پختون نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس دوران مسلسل نعروں کی گونج سنائی دیتی رہی
صوبے کے سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں پر مشتمل پینل نے بلوچستان کے ساتھ دوسرے صوبوں کے مساوی سلوک کی ضرورت پر زور دیا
جماعت اسلامی کے رہنما اور ’گوادر کو حق دو تحریک‘ کے بانی مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کو ایک صوبہ نہیں بلکہ ہمیشہ ایک کالونی سمجھا جاتا ہے، فوج ہمیشہ اس پر گرفت برقرار رکھنے کے لیے تعینات رہتی ہے۔ یہاں ہر قدم پر چیک پوسٹیں قائم ہیں، ہم سے اپنے آبائی علاقوں میں شناخت پوچھی جاتی ہے، جبکہ پوچھنے والوں کا تعلق پنجاب یا خیبر پختونخوا سے ہوتا ہے۔
مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے کہا کہ ہمارے پاس پانی، بجلی اور تعلیم نہیں، ہمیں ایسا سی پیک نہیں چاہیے۔ لاہور میں اورنج لائن ٹرین بنائی جاتی ہے اور بلوچستان میں فوجی اہلکار تعینات کیے جاتے ہیں اور چیک پوسٹیں بنائی جاتی ہیں
سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ اسلام آباد میں موجود ایک مخصوص گروہ جس میں سیاستدان، جرنیل، عدلیہ اور میڈیا کے لوگ شامل ہیں، انہیں بلوچستان اسٹریٹجک اہمیت اور وسائل کی وجہ سے پسند ہے لیکن صوبہ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے ان وافر قدرتی وسائل کو استعمال کرنے کا اختیار نہیں رکھتا
انہوں نے صوبے میں بائیس برس سے جاری بے امنی کو ٹرننگ پوائنٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے مسائل بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہیں لیکن اس وقت تک کچھ نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اسٹیبلشمنٹ کو اعتماد میں نہ لے لیا جائے
ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے کہا کہ بلوچ نوجوان عدم تحفظ کا شکار ہیں، پنجاب میں پڑھنے بلوچ طلبہ کو کو اٹھایا جا رہا ہے، اس اقدام سے نفرت میں مزید اضافہ ہوگا، بلوچ عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت ہی واحد حل ہے اور اعتماد سازی کے لیے حراست میں لیے گئے تمام افراد کو رہا کیا جانا چاہیے اور صوبے میں قائم غیر ضروری چیک پوسٹوں کو ختم کیا جانا چاہیے جب کہ ان کے خطاب کے دوران سامعین کی جانب زوردار نعرے بھی لگائے گئے
بلوچستان سے تعلق ممبر صوبائی اسمبلی ثنا اللہ بلوچ کہا کہ صوبے کا مسئلہ تنازعات کے حل کے لیے اسے ایک صوبے کے طور پر نہیں بلکہ ایک خطے کے تناظر میں دیکھیں
رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر زبیدہ جلال نے کہا کہ تنازعات کے حل کے لیے سیاسی مذاکرات ضروری ہیں
انہوں نے کہا کہ سیاست دانوں کے لیے دوسروں پر الزام لگانا آسان ہے لیکن جب ہم اقتدار میں آتے ہیں تو ہم خود بھی چیزوں کو بہتر کرنے کوشش نہیں کرتے اور کمزور بن جاتے ہیں
سیاسی عدم استحکام اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم کو صوبے کے اہم مسائل قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب کی نظریں بلوچستان کے وسائل پر ہیں لیکن صوبائی سطح پر کوئی ایسا ترقیاتی منصوبہ نہیں، جس سے صوبہ ان وسائل کا فائدہ اٹھا سکے
انہوں نے کہا کہ سیاسی رہنماؤں کو سلیکٹ کرنے پر ایجنسیوں پر الزام لگانا آسان ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ الزام تراشی ختم کی جائے اور بات چیت اور مذاکرات کا آغاز کیا جائے
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات خوشحال کاکڑ نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان کو ایران اور سعودی عرب کی اقتدار کی جنگ کا میدان بھی بنا دیا گیا
انہوں نے کہ وہ طاقتیں جو جانتی ہیں کہ صوبے کے وسائل پر صرف اسی صورت میں گرفت مضبوط رکھی جاسکتی ہے جب کہ یہ بے امنی کا شکار رہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ ریاست نے بلوچ قبائل کے درمیان دوریاں اور دراڑیں پیدا کرنے میں سب سے بڑا کردار ادا کیا۔