یوں لگنے لگا ہے کہ زندگی روزمرہ اور پیشہ ورانہ مصروفیات، اطلاعات، واقعات، سوچ، محسوسات سب ہی کچھ ایک آہنی دائرے میں گڈمڈ ہو کے رہ گیا ہے
اب تو اندازے بھی لگانے نہیں پڑتے۔ معلوم ہے کہ کس شخص کے کس بیان کا بنیادی مفہوم کیا ہے، کس فیصلے کے پیچھے کون سا عامل اور عوامل کارفرما ہیں، کس پیش قدمی اور پسپائی کا اصل سبب کیا ہے، جو منظر دکھائی پڑ رہا ہے وہ دراصل کس رنگین فلم کا محض ایک فریم ہے
کیا، کیوں، کیسے، کب جیسے حیرتی سوالات عرصہ ہوا وطنِ عزیز کے شجرِ خشک سے کوچ کر گئے۔ اب تو الزام اور جرم کی نوعیت سونگھ کے اور مصنفوں کے نام پڑھ کے ہی دماغ میں فیصلے کے صفحات آگے پیچھے کلبلانے لگتے ہیں
اور جنہیں ہم ضرورت سے زیادہ ارسطو، فیثا غورث اور البیرونی سمجھتے سمجھتے تمام بال سفید کر بیٹھے، تب جا کے کچھ سمجھ میں آیا کہ ان بے چاروں کے پاس بھی سائیکلو اسٹائل ذہن اور پونے تین فارمولے ہی ہیں، جنہیں وہ الٹ پلٹ کر کسی بھی صورتِ حالات پر منطبق کر دیتے ہیں اور نتائج بھی ہمیشہ جیسے وہی ڈھاک کے تین پات نکلتے ہیں
وہ ایسے ذہین باورچی ہیں، جو آلو گوشت کو ایک ڈش اور گوشت آلو کو دوسری ڈش کہہ کے کھلا دیتے ہیں
مگر ان پھٹیچر فارمولوں کی مارکیٹنگ ہر بار ایسے کی جاتی ہے، گویا اس بار آئن سٹائن کا وہ فارمولا ہاتھ لگ گیا، جو خود آئن سٹائن بھی سامنے لانے کی جرأت نہ کر سکا
ان فیصلہ سازوں کی مثالی ’ایفی شنسیاں‘ اور حاضر دماغی دیکھ اور سن کر مجھے میرے بچپن کے محلے کے ڈاکٹر صدیق ( آر ایم پی) بے طرح یاد آتے ہیں، جو سر درد سے سرطان تک لگ بھگ ہر مرض کا علاج خانہ ساز کالے شربت کی کھردری سی بوتل بھر کے اور چند پراسرار سفید گولیوں کو ہاون دستے میں سفوف کر کے تپتے لجلجاتے مریض کو پڑیاں تھما دیتے تھے
ڈاکٹر صاحب ان دواؤں کے صبح شام استعمال کی تفصیل جس کاغذ پر خطِ شکستہ میں گھسیٹتے تھے، اس کے ماتھے پر اللہ شافی اللہ کافی لکھنا کبھی نہ بھولتے تھے اور ہر طرح کا مریض ٹھیک بھی ہو جاتا تھا۔ جو دوا سے نہ ہوتا ہوگا، وہ اللہ شافی کے زور پر چنگا ہو جاتا ہوگا
چنانچہ محلہ در محلہ شہرت پھیلتی چلی گئی کہ ڈاکٹر صدیق کے ہاتھ میں بہت شفا ہے۔ جو ایک بار دوا لے جاتا ہے دوبارہ نہیں آتا
اب آپ ڈاکٹر صدیق کی کرامتِ شفایابی کو ذہن میں رکھتے ہوئے کمرہِ عدالت کو چشمِ تصور میں لائیں۔ منڈب کے پیچھے آپ کو کچھ مجرب فیصلوں کی درجن بھر شیشیاں نظر آئیں گی۔ جیسا مریض پیش ہوا، ویسی ہی شیشی اٹھائی اور کیپسولوں میں چورن بھر کے نسخہ پورا کر دیا
اس جادوئی چورن کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں۔ کب اور کس نے تیار کیے۔ کس مریض کو کتنی مقدار میں دینا ہے تاکہ ری ایکشن نہ ہو۔ یہ وہ راز اور نزاکتیں ہیں، جو اہلِ چورن کے سینوں میں ہی خاندانی مجربات کی طرح کم از کم ایک صدی سے پوشیدہ ہیں
روایت ہے کہ ان ہمہ اقسام چورنوں کا فارمولا بھی دراصل کچھ انگریز طبیب اپنے بااعتماد ماتحت حکما کے لیے چھوڑ گئے۔ بس وہی چل رہے ہیں اور ویسے ہی چل رہے ہیں۔ البتہ کیسپول کا رنگ بدل جاتا ہے تاکہ مریض اور اس کے لواحقین کو گمان ہو گویا اس بار نئی دوا باندھی جا رہی ہے
انہی ڈاکٹر صدیق (آر ایم پی) کی روح اسٹیبلشمنٹ کے جسدِ خاکی میں بھی ہمیشہ سے حلول ہے۔ بخار و رفتارِ نبض اور دل کی دھک دھک اور سانس کا اتار چڑھاؤ جیسے بھی ہوں وہی موا کالا شربت، وہی کم بختی مارا جمال گوٹا، وہی پرہیز۔۔وہی بے فیض۔۔
بس اتنا ہے کہ نگاہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کالا شربت کبھی گلابی کر دیا جاتا ہے، کبھی سبز تو کبھی پانی جیسا شفاف، تاکہ مریض سمجھے کہ اس بار واقعی کوئی نادر فارمولا لگایا جا رہا ہے
آپ بیانات اٹھا کے دیکھ لیں، تقاریر دھیان سے سن لیں، دعوؤں پر کان دھر لیں۔ حتیٰ کہ نعروں کی فہرست دیکھ لیں۔ نام اور نسل بدل جاتی ہے مگر ہر نامی و نسلی کے ہر بیان میں وہی کالا شربت گھلا ہوا پائیں گے، ہر تقریر کے ہاون دستے میں وہی پسی ہوئی گولیاں، کبھی لال تو کبھی سفید
اور وہی عمر رسیدہ لخلخاتے نعرے جن میں بے وزنی کی مقدار تک جوں کی توں رہتی ہے اور کبھی اخباری کاغذ میں تو کبھی چکنی ردی میں تو کبھی متروک فون ڈائریکٹریوں کے پیلے صفحات سے باندھی گئی وہی مطالباتی سفوف کی پڑیاں
المختصر، مرض بھی جوں کا توں، شربت اور گولیاں بھی ویسی کی ویسی اور مریض کی ایسی کی تیسی۔ سب تھوڑے بہت کرداروں کے فرق سے پہلے جیسا چل رہا ہے
اگر کسی کو اس اجمال کی مختصر ترین ریاستی تاریخ پڑھنا ہو تو سب سے بڑا علمی ماخذ بس، ویگن اور رکشے کی پشت ہے
’تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد، دنیا میں کون کسی کا، جس کا کوئی نہیں اس کا خدا ہے، آ تیرے جن کڈاں، نہ انجن کی خوبی نہ کمالِ ڈرائیور۔ چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے‘ وغیرہ وغیرہ
جب تک تخلیقی اپچ کہنہ آہنی دائرے کے حصار میں ہے۔ ہوش و حواس برقرار و فعال رکھنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ مقامی نیوز چینلز سے پرہیز کریں، اخبار صرف اشتہار دیکھنے کے لیے پڑھیں، ایف ایم ریڈیو پر میوزک سنیں، شاعری کریں نہیں پڑھیں، نیٹ فلکس جیسے پلیٹ فارمز پر جائیں اور جب جب موقع ملے ویرانہ تلاش کر کے زور زور سے ٹھنڈی گرم سانسیں لیں تاکہ خود کا نہ سہی دل، دماغ اور سینے کا تو کچھ دیر کا بھلا ہو۔
کوئی اور راستہ ہو اس بے ہنگم کھلے پن کی گھٹن سے بچنے کا تو بندے کو بھی اس کا گیان بانٹئے گا۔