جنگل تھا وہ، عین شہر کے اندر، ایک کنال کا مکان، جو گھر نہیں تھا۔۔
اندر داخل ہوتے ہی چاروں طرف باہر کے شور سے بالکل الگ ایک وحشت تھی، اداسی تھی اور وہ تھا، ایک شدید بوڑھا انسان۔۔
بوڑھا، جس کی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں، میلی تھیں۔ ہونٹ باریک، جن کے نیچے دانت موجود نہیں تھے، اس کا منہ گالوں کی طرف سے اندر کو تھا، جسے پوپلا کہتے ہیں، بس وہ۔۔
سر کے بال چھوٹے چھوٹے تھے۔ گاندھی جی سے تھوڑا ہی صحت مند ہوگا۔ مجھے اندر آتے دیکھ کر بابے نے عینک لگا لی، جس کی ایک کمانی ٹوٹی ہوئی تھی۔ کمانی کی جگہ اس نے الاسٹک سی لگا رکھی تھی
رنگ سانولا، قد لمبا (کبھی ہوا کرتا ہوگا)، صرف دھوتی پہنے ہوئے وہ ایک جھلنگا چارپائی پر بیٹھا تھا، یا شاید لیٹا تھا۔ کمر خم کھا چکی تھی
اس جنگل کو مکان اس لیے لکھا جا سکتا ہے، کیوں کہ اس کے اندر ایک کمرہ، عارضی سا لیٹرین اور ایک چھپر والا اسٹور موجود تھا۔ گھر لکھنے کو دل نہیں مانتا کیوں کہ تھا ہی کوئی نہیں وہاں۔ آس پاس کیا دور دور تک کوئی نہیں تھا
کمرے کے اندر کچا فرش تھا اور۔۔۔ اور شاید نیلا چونا تھا دیواروں پر۔ اس سے زیادہ مجھے کچھ یاد نہیں
آج ایک کہانی پڑھتے پڑھتے اچانک خیال آیا کہ ہر شوق سے میرا دل اچاٹ ہونے کی شروعات یقیناً اس گھڑی ہوئی تھی، جب میں اس جنگل (یا مکان) سے نکلا تھا
وہ بندہ اپنے وقت کا چیمپیئن تھا۔ اس کا شوق کیکٹس کے پودوں کی زیادہ سے زیادہ ورائٹی اپنے پاس رکھنا ہوا کرتا تھا۔ پاکستان بھر کے بہار میلوں میں اس کے پودے جاتے اور کئی انعام بھی اس نے جیتے ہوئے تھے۔ ان سارے جیتے ہارے لمحوں کی تصویریں اس کے پاس ایک البم میں موجود تھیں
ہاں، یاد آیا، اور یاد بھی کیسے آیا۔ البم کا ذکر کیا تو یہ لکھنا یاد آ گیا کہ وہ البم تب اس کی چارپائی کے برابر ایک طاق پہ دھرا ہوا تھا اور اس مکان کی بے سروسامانی میں بہرحال شاید واحد اثاثہ تھا
بتانا بھول گیا کہ اس مکان کو جنگل کیوں کہا تھا میں نے، وہ بوڑھا آدمی چونکہ مجھے یاد آ گیا تو اب تک ساری کہانی اسی کے گرد گھما دی
تو اندر داخل ہوتے ہی چاروں طرف باہر کے شور سے بالکل الگ ایک وحشت تھی، اداسی تھی اور وہ تھا، ایک شدید بوڑھا انسان۔۔
اسی لائن سے دوبارہ آگے بڑھتے ہیں۔۔
اندر داخل ہوتے ہی اصل میں پورا ایک کنال کا گھر کیکٹس کی مختلف کانٹے دار بیلوں اور جنگلی دیوقامت جھاڑ جھنکار نما پودوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہریالی اگر نارمل درختوں کی ہو تو ان کے نیچے زیادہ چھوٹے پودے رکھے نہیں جا سکتے کیونکہ بڑے درخت دھوپ روک لیتے ہیں۔ کیکٹس میں ایسا نہیں ہوتا۔ پتوں یا شاخوں کا پھیلاؤ اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ آس پاس بازو بڑھا کر دوسرے کسی پودے کو سائے میں کر لیں۔ کیکٹس بس اپنی ناک کی سیدھ میں اوپر جاتے ہیں یا دائیں بائیں ہوں بھی تو آپس میں الجھتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایک مخصوص اونچائی سے اوپر جا کے ٹوٹ جاتے ہیں اور جدھر گریں تو نیا پودا جڑ نکال کر وہیں سے شروع ہو جاتا ہے
پتے وغیرہ چونکہ نہیں ہوتے تو کیکٹس اگر اسی طرح لاوارث پلتے اور بڑھتے رہیں تو ایک عجیب بنجر سا جنگل بنا دیتے ہیں۔ ایسا جنگل جو کسی صحرا میں ہو، جس کا سایہ نہ ہو
پھر ان پودوں پہ خدا جانے کب سے اس نے چھڑکاؤ نہیں کیا تھا، بارش بھی شاید مہینوں نہیں ہوئی تھی، وہ مٹی سے اٹے پڑے تھے
جتنی دیر میں وہاں رہا، کوئی آیا نہ گیا۔۔ میں وہاں گیا کیوں تھا؟
مجھے کیکٹس کا دیوانوں کے جیسا شوق تھا۔ بہت سے پیسے اس شوق پہ خرچ کیے لیکن اتنے ہوتے ہی نہیں تھے کہ ’پرو لیول‘ کی کلیکشن رکھی جا سکے۔ جتنی رکھ پایا، بس اسے پالتا پوستا رہا اور ایک دن۔۔۔ چھوڑیں، بس ایک دن وہ سارے پودے میرے پاس نہیں تھے
خیر، گاڑیوں کی طرح پودوں کے شوقین لوگوں میں بھی اس بات کا ہرگز مائنڈ نہیں کیا جاتا کہ دوسرا کوئی آپ کے گھر آئے اور آپ کے پاس موجود شاہکار دیکھے، آپ کے پودے دیکھے۔ قیمتی کیکٹس یا دوسری کئی صحرائی قسموں کے پودے آج بھی دوستوں کے پاس موجود ہیں جن میں سے بعض بلامبالغہ لاکھوں روپے مالیت کے ہیں
تو میں اس بندے سے ملنے اور اس کی کلیکشن دیکھنے گیا تھا۔ کیکٹس کی دنیا کے لوگ شاید لودھی صاحب کو جانتے ہوں۔ اللہ بخشے وہ میرے استاد تھے۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ بیٹا پودے دیکھنے کا شوق پالو، رکھنے کا شوق مت کرو
وہ ٹھیک کہتے تھے۔
تو انہوں نے مجھے اس بندے کے بارے میں ایویں ہلکا پھلکا سا بتایا تھا اور ایک شہر کا نام لیا تھا کہ فلاں جگہ اس کا گھر ہوا کرتا تھا۔ اب یہ 80 کی دہائی تھی جب لودھی صاحب اس سے آخری بار ملے تھے اور کوئی تیس سال بعد میں اکیلا اس شہر کے فلاں علاقے میں اس کا گھر ڈھونڈ رہا تھا۔
کوئی دو گھنٹے تلاش کے بعد گھر مجھے مل گیا
اب میں اندر چارپائی پہ بیٹھا وہ البم دیکھ رہا تھا اور بوڑھا ہر پیلی یا گلابی نما تصویر (جس رنگ کی تصویریں 1980 کے آس پاس والے کیمرے کھینچتے تھے، بس وہی) پہ انگلی رکھ کے جیسے تیسے اپنی فتح یا اس میلے کے ادھورے واقعات سنا رہا تھا
اس کے چہرے پہ خوشی، غمی، کامیابی، ناکامی، افسوس جیسا کوئی بھی تاثر نہیں تھا۔ وہ بس یادداشت کے سہارے جو دماغ میں آتا، مجھے بتا دیتا۔ البم کی آٹھ دس تصویروں کے واقعات سن لیے اور تیس چالیس تصویریں جتنی بھی تھیں، جب دیکھ لیں تو میں جانے کے لیے کھڑا ہو گیا
لاکھ چاہنے کے باوجود میں اس سے نہیں پوچھ سکا کہ اس کے گھر والے کہاں ہیں۔ وہ رہتا کس طرح ہے اس ویرانے میں؟
بعد میں اُس دور کے کچھ بزرگ ملے تو انہوں نے بتایا کہ گھر والے کب کے چھوڑ گئے تھے، بابا خرچہ نئیں دیتا تھا، خبطی ہو گیا تھا شوق کے پیچھے۔ پودوں کے شوق سے جو کچھ تھوڑا بہت کماتا تھا وہیں لٹا دیتا تھا
اس گھر سے باہر نکلا تو ٹریفک کا شور تھا، بستے لٹکائے بچے سکول جا رہے تھے، ریڑھیوں پہ پھل خریدتے لوگ کھڑے تھے، بھیک مانگتے فقیر تھے۔ ہر بندہ کسی نہ کسی کام کی دھن میں تھا، کسی مشن پہ تھا۔
مجھے کوئی مشن تو نہیں ملا لیکن اس دن اندر کی لیبارٹری میں یہ طے ہو گیا تھا کہ شوق پال کے غریب آدمی اپنے ساتھ ظلم کرتا ہے
بابا خبطی نئیں تھا، بابا غریب تھا!
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اُردو