ریڈیم: اندھیرے میں چمکنے والا مادہ، جو کئی لڑکیوں کی جان لے گیا!

وقار مصطفیٰ

گریس فرائر کے لیے یہ عجیب تو تھا کہ ناک صاف کرتیں تو ان کا رومال اندھیرے میں چمکتا لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ یہ ان کی زندگی اندھیر ہونے کی ابتدا ہے

گریس نے سنہ 1917 کے موسم بہار میں 70 دیگر لڑکیوں کے ساتھ جس فیکٹری میں کام شروع کیا، وہ پہلی عالمی جنگ کے آغاز پر، امریکا بھر میں قائم ہونے والی کئی فیکٹریوں میں سے ایک تھی، جہاں گھڑیوں اور ملٹری ڈائلز میں ہندسوں کو اندھیرے میں نظر آنے کے لیے چمک دی جاتی

محقق آرلین بلکانسکی کے مطابق سینکڑوں نوجوان خواتین اس کام سے پر امید تھیں۔ ’چھ اپریل سنہ 1917 کو امریکا کی پہلی عالمی جنگ میں شرکت کے بعد تو کچھ خواتین نے اس کام کو حب الوطنی کا اظہار جانا۔ وہ سپاہیوں کے لیے گھڑیوں کے ڈائل اور فوجی آلات کے پینل پینٹ کرتیں، یہ سب اندھیرے میں چمکتے۔‘

اندھیرے میں چمکنے والا یہ عنصر ریڈیم تھا۔ فرانس کے ماہرین میری اور پال کیوری نے سنہ 1898میں ریڈیم دریافت کیا تھا

چونکہ ریڈیم کینسر کے علاج میں کامیابی کے ساتھ استعمال ہو چکا تھا، بہت سے لوگ اسے ایک معجزاتی عنصر سمجھتے اور ٹوتھ پیسٹ اور کاسمیٹکس سمیت مختلف تجارتی مصنوعات میں اسے شامل کیا جاتا

ڈائل فیکٹریوں میں کام کرنے والی لڑکیاں ریڈیم پاؤڈر میں گوند اور پانی ملا کر ایک چمکتا ہوا سبزی مائل سفید پینٹ بناتیں اور اسے اونٹ کے بالوں کے برش سے ڈائل اور اس کے ہندسوں پر احتیاط سے لگاتیں۔ چند بار استعمال سے برش اپنی شکل کھو دیتے اور لڑکیاں ٹھیک طرح سے پینٹ نہ کر پاتیں

گریس کا کہنا تھا ’ہمارے نگران ہمیں اپنے ہونٹوں سے ان کی نوک بنانے کو کہتے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے اپنا برش ہر گھڑی کا ڈائل پینٹ کرتے چھ بار ہونٹوں سے تیز کیا ہو گا۔ پینٹ کا ذائقہ عجیب نہیں تھا بلکہ اس کا کوئی ذائقہ نہیں تھا اور میں نہیں جانتی تھی کہ یہ نقصان دہ ہے۔‘

انسائیکلوپیڈیا برِٹینیکا کے مطابق ڈائل پینٹ کرتی خواتین کو ’گھوسٹ گرلز‘ بھی پکارا جاتا کیونکہ ریڈیم کے ذرے جو ان پر روزانہ پڑتے، ان کے کپڑوں، بالوں اور جلد کو چمکا دیتے تھے۔ بہت سی خواتین کام پر اپنے بہترین لباس پہن کر آتیں تاکہ جب وہ کام کے بعد کہیں تفریح کو جائیں تو کپڑے خوب چمکیں

کچھ اپنے دانتوں پر بھی پینٹ کر لیتیں کہ اس سے انہیں چمکدار مسکراہٹ ملے۔ کچھ اپنے ناخنوں کی چمک سے اپنے بوائے فرینڈز کو حیران کرتیں

جب وہ ریڈیم کے محفوظ ہونے کے بارے میں پوچھتیں تو انہیں ان کے مینیجرز بھی یقین دلاتے کہ انہیں فکر کی کوئی ضرورت نہیں

یقیناً، یہ سچ نہیں تھا!

ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ ’ریڈیم گرلز‘ کو جسمانی تباہی کا سامنا ہوا۔ سب سے پہلے اس کا شکار ہونے والی امیلیا (مولی) میگیا تھیں۔ وہ اورنج، نیو جرسی میں ریڈیم لومینس میٹریلز کارپوریشن (بعد میں یونائٹڈ اسٹیٹس ریڈیم کارپوریشن) کے لیے گھڑیاں پینٹ کرتی تھیں۔ پہلی علامت دانت درد تھی، جس کے لیے ایک کے بعددوسرا دانت نکالنا پڑا۔ جلد ہی رِستے خون اور پیپ کے ساتھ دردناک السر نے چمکتے دانتوں کی جگہ لے لی۔‘

پراسرار بیماری امیلیا کے منہ میں پھیل گئی۔ نچلا جبڑا کاٹنا پڑا اور پھر اس نے جسم کے دوسرے حصوں کو متاثر کیا۔ ان کی وفات 12 ستمبر 1922 کو بہت زیادہ خون بہہ جا نے سے ہوئی۔ ڈاکٹر موت کی وجہ کا تعین نہ کر سکے تو عجیب طور پر انھوں نے یہ طے کر لیا کہ وہ آتشک سے مریں

اگرچہ عوام کو یہ گمان رہا کہ ریڈیم محفوظ ہے، ریڈیم گرلز بڑھتی تعداد میں جان لیوا بیماری کا شکار ہونے لگیں

گریس نے سنہ 1920 میں بینک کی بہتر ملازمت کے لیے فیکٹری چھوڑ دی تھی مگر تقریباً دو سال بعدان کے بھی دانت گرنے لگے۔ ان کے جبڑے میں دردناک پھوڑا نکلا۔ جادوئی بادامی آنکھوں میں اب درد کے بادل چھا گئے تھے۔ آخر کار جولائی 1925 میں، ایک ڈاکٹر نے کہا کہ یہ مسائل ان کے پچھلے پیشے کی وجہ سے ہو سکتے ہیں

یو ایس ریڈیم نے فزیالوجی کے پروفیسر سیسل ڈرنکر سے کام کے حالات کا مطالعہ کرنے کو کہا۔ انھوں نےافرادی قوت کو بہت زیادہ آلودہ، تقریباً ہر ایک میں خون کی غیر معمولی حالت اور کئی ایک میں ایڈوانس ریڈیم نیکروسس پایا

کارکنوں کے تحفظ کے لیے جون 1924 کی اس رپورٹ میں ڈرنکر نے طریقِ کار میں تبدیلی کی سفارش کی لیکن یو ایس ریڈیم کے صدر آرتھر روڈر نے نہ صرف اسے رد کر دیا بلکہ کہا کہ وہ جوابی دلائل سامنے لائیں گے مگر ایسا کبھی نہ ہو سکا

1925میں ایک پیتھالوجسٹ، ہیریسن مارٹ لینڈ نے حتمی طور پر ثابت کیا کہ ریڈیم نے گھڑی پینٹ کرنے والی خواتین کو اندر سے زہر آلود کر دیا تھا۔ ریڈیم صنعت نے مارٹ لینڈ کو بدنام کرنے کی کوشش کی

گریس فرائر نے مقدمہ دائر کرنے کا فیصلہ کیا لیکن وکیل تلاش کرنے میں انھیں دو سال لگے

18مئی 1927 کو ایک نوجوان وکیل ریمنڈ بیری کے ذریعے انھوں نے نیو جرسی کی عدالت میں یو ایس ریڈیم کارپوریشن کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔

شدید طبی مسائل کے ساتھ چار دیگر خواتین، ایڈنا ہسمین، کیتھرین شوب، اورامیلیا میگیا کی دو بہنیں کوئٹا مکڈونلڈ اور البینا لاریس، بھی اس مقدمے کی فریق بن گئیں۔ ہر ایک نے ڈھائی لاکھ ڈالر طبی اخراجات اور بیماری کے ہرجانے کے طور پر طلب کیے

بہنوں کی درخواست پر امیلیا کی لاش 16 اکتوبر 1927 کو نکالی گئی۔ پوسٹ مارٹم میں تصدیق ہوئی کہ ان کی ہڈیاں انتہائی تابکار تھیں۔ امیلیا کی موت آتشک سے نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نئے اور پراسرار نیکروسس سے ہوئی تھی جو ان کی بہنوں کو بھی مار رہی تھی

جنوری 1928 میں پہلی عدالتی سماعت میں مرتی ہوئی ان پانچ خواتین جنھیں دنیا بھر کے اخباروں میں ’ریڈیم گرلز‘ کہا گیا، میں حلف کے لیے بازو اٹھانے کی سکت بھی نہیں تھی

ایک اخبار نیو آرک لیجر کی خبر تھی کہ فریئر اور دیگر خواتین نے بہادری سے مسکراتے رہنے کی کوشش کی لیکن کمرہ عدالت میں موجود ان کے دوست اور حاضرین انہیں دیکھ کر رو پڑے

گریس کی اوپر بیان کی گئی باتیں اسی عدالت میں دیے گئے بیان کا حصہ ہیں

اپریل تک یہ خواتین جسمانی یا ذہنی طور پر عدالت میں دوسری سماعت میں شرکت کے قابل نہیں رہیں

نیویارک جرنل کے مطابق ریڈیم دریافت کرنے والی فرانسیسی سائنسدان میری کیوری نے اس کیس کے بارے میں پڑھا تو ’انھوں نے کہا کہ فرانسیسی ریڈیم ورکرز پینٹ برش کے بجائے چھوٹی تیلیوں پر روئی کا استعمال کرتی ہیں۔‘

کیوری نے کہا ’مجھے کوئی بھی امداد دینے میں بہت خوشی ہوگی تاہم اس مادے کے انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد اسے ختم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔‘ کیوری کو خود بھی چند سال بعد 1934 میں ریڈیم ہی کے اثرات کا شکار ہو جانا تھا

25 اپریل 1928 کو سماعت کے بعد بیری کے یہ کہنے کے باوجود کہ خواتین مر رہی ہیں اور شاید اگلی سماعت تک زندہ نہ رہیں اس مقدمے کی سمات کو ستمبر تک ملتوی کر دیا گیا

مقدمے کے التوا پر اخبارات میں شدید تنقید ہوئی

نیویارک ورلڈ کے ایڈیٹر والٹر لپ مین نے 10 مئی 1928 کے اداریے میں کہا کہ مقدمے کی سماعت میں تاخیر کا فیصلہ ’شدید ناانصافی ہے۔۔۔ اس طرح کی تاخیر کے لیے کوئی عذر ممکن نہیں۔ عورتیں مر رہی ہیں۔ اگر کبھی کسی مقدمےکا فوری فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے، تو وہ ان پانچ معذور خواتین کا مقدمہ ہے جو زمین پر اپنے آخری ایام کو آسان کرنے کے لیے چند ڈالرز کے لیے لڑ رہی ہیں۔‘

عدالت نے مقدمے کی سماعت جون 1928 کے اوائل کے لیے مقرر کر دی

تاہم ایک وفاقی جج رضاکارانہ طور پر تنازع میں ثالث بن گئے اور عدالت سے باہر تصفیہ میں مدد کی۔ مقدمے کی سماعت سے کچھ دن پہلے، ان پانچ ’ریڈیم گرلز‘ نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ ہر ایک کو 10 ہزار ڈالر اور ان کی زندگی میں 600 ڈالر سالانہ ملیں گے اور تمام طبی اور قانونی اخراجات بھی کمپنی ادا کرے گی

بیری پیپرز کے مطابق یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ’کارپوریشن کو بہت فائدہ ہو رہا ہے‘، بیری اس تصفیے سے خوش نہیں تھے۔ انھیں ثالث، یو ایس ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج ولیم کلارک پر بھی شک تھا

’مجھے یقین ہے کہ وہ ایک بہت ہی معزز شخص ہیں اور سماجی مسائل میں حقیقی دلچسپی رکھتے ہیں،‘ لیکن وہ ’ایسے شخص ہیں جن کی زندگی سے پتا چلتا ہے کہ وہ آجر کے کیمپ میں ہیں۔‘

بیری کو بتایا گیا تھا کہ جج کلارک یو ایس ریڈیم کارپوریشن میں سٹاک ہولڈر تھے

پانچوں ’ریڈیم گرلز‘ تو معاوضے کی معمولی رقم پا کر اگلے چند مہینوں اور برسوں میں جان سے چلی گئیں مگر نیویارک ٹائمز کے مطابق ریڈیم پینٹ کے اصل مؤجد آسٹریا کے ڈاکٹر سبین اے وون سوچوکی نے 14 نومبر 1928 کو اورنج، نیو جرسی میں یہ کہتے ہوئے وفات پائی کہ ان کی ایجاد نقصان دہ نہیں ہو سکتی

لیکن پھر وہ مقدمہ ہوا جس سے ہمیشہ کے لیے طے ہو گیا کہ یہ جان لیوا ہے

یہ مقدمہ کیتھرین وولف ڈونوہیو نے اوٹاوا کی ریڈیم ڈائل کمپنی کے خلاف دائر کیا تھا۔ اخبارات نے بستر مرگ پر ان کی تصویریں شائع کی تھیں

سنہ 1938 میں، الینوائے انڈسٹریل کمیشن کے سامنے بہت سی سماعتوں کے بعد جن میں سے ایک میں ڈونوہیو گِر بھی گئیں، اوٹاوا کی ریڈیم گرلز نے مقدمہ جیت لیا

ریڈیم ڈائل کمپنی نے متعدد اپیلیں دائر کیں۔ 23 اکتوبر 1939 کو امریکا کی سپریم کورٹ نے کمپنی کی حتمی اپیل سننے سے انکار کر دیا اور نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا

فیصلہ تو ہو گیا مگر ریڈیم کے اثرات تو جلد ختم ہونے والے نہ تھے۔ مارین کینیفک نے ڈونوہیو کے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ایک رشتے دار خاتون کا ذکر کیا کہ جن کا انتقال چالیس کی دہائی کے آخر میں ان کی شادی کی پہلی سالگرہ کے روز ہوا

انہیں ان کے شادی کے لباس ہی میں دفن کیا گیا، جو کمزور ہونے کے باعث اب کھلا ہو چکا تھا

آرلین بلکانسکی نے لکھا ہے کہ گو کہ کیتھرین وولف ڈونوہیو ان متعدد خواتین میں سے ایک تھیں جو اپنے مقدمات کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی، یعنی 27 جولائی 1938 کو، انتقال کر گئیں لیکن ان کی یہ جدوجہد ان کے بعد آنے والی خواتین کے لیے پیشہ ورانہ سلامتی اور صحت کے معیارات کی تشکیل کا باعث ضرور بنی۔

بشکریہ: بی بی سی اردو

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close