زمبابوے کے کرکٹر سکندر رضا کے لیے یہ سال انتہائی کامیاب ثابت ہوا ہے، جس میں وہ ایک کے بعد ایک قابل ذکر کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے ہیں
لیکن گزشتہ روز پاکستان کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میچ میں ایک رن کی ڈرامائی جیت کو وہ اپنے کریئر کا سب سے یادگار لحمہ قرار دیتے ہیں۔ وہ اسے ’ایک کبھی نہ بھولنے والی بات‘ قرار دیتے ہیں
اگرچہ اس میچ میں سکندر رضا بیٹنگ میں قابل ذکر کارکردگی تو نہ دکھا سکے، لیکن بولنگ میں شان مسعود، حیدر علی اور شاداب خان کی اہم وکٹیں لے کر کھیل کا پانسہ پلٹنے میں ان کا کردار کلیدی رہا
یہ محض دوسری بار ہے، جب زمبابوے نے پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں شکست دی ہے۔ اس سے قبل 2021 میں ہرارے میں بھی اس نے ایک کم اسکور 118 کا دفاع کرتے ہوئے پاکستان کو صرف 99 رنز پر آؤٹ کر کے میچ 19 رنز سے جیتا تھا
سکندر رضا کہتے ہیں ”میں جب سے زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنا ہوں، یہ جیت میرے کریئر کی سب سے بڑی اور یادگار جیت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ورلڈ کپ ہے، اس سے بڑا ایونٹ کوئی اور نہیں ہو سکتا اور پھر سب سے اہم بات کہ سامنے پاکستان کی شکل میں ایک بڑی ٹیم تھی جس کے خلاف ایک کم اسکور کا کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے صرف ایک رن کے فرق سے کامیابی حاصل کرنا کبھی نہ بھولنے والی بات ہے“
جب سکندر سے پوچھا گیا کہ میچ میں کب یہ احساس ہوا کہ زمبابوے کی ٹیم جیت سکتی ہے؟ تو انہوں نے اعتماد کے ساتھ کہا ”میچ کی پہلی ہی گیند سے پہلے ہمیں جیت کا یقین تھا“
تاہم وہ کہتے ہیں ”ہم نے پندرہ، بیس رنز کم اسکور کیے تھے لیکن مجھے یقین تھا کہ اگر ہم نے اچھی بولنگ اور خاص طور پر اچھی فیلڈنگ کرتے ہوئے رنز روکے تو ہم یہ میچ جیت سکتے ہیں۔ ہمارے بولرز نے جس طرح وقفے وقفے سے وکٹیں حاصل کیں، ہم اچھی پوزیشن میں آتے گئے۔ جس طرح بریڈ ایونز نے آخری اوور کیا، ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے“
سکندر رضا کا کہنا ہے ”ہماری ساری توجہ اور توانائی پاکستان کے خلاف میچ پر مرکوز تھی ایک وقت میں ہم ایک میچ کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اب ہماری توجہ بنگلہ دیش کے خلاف میچ پر ہو گی۔ پاکستان کے خلاف جیت سے اب یہ گروپ اوپن ہو گیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ زمبابوے کی ٹیم آگے بھی بہت کچھ کر سکتی ہے“
زمبابوے نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کو چونکا دینے والی شکست سے دوچار کیا تو سکندر رضا اپنے ہیڈ کوچ ڈیوڈ ہاؤٹن سے پوچھ رہے تھے کہ ورلڈ کپ مقابلوں میں زمبابوے کی کون سی جیت بہترین ہے؟ پاکستان کے خلاف یہ جیت یا پھر 1983 کے عالمی کپ میں آسٹریلیا کے خلاف کامیابی؟
اتفاق سے ڈیوڈ ہاؤٹن 1983ع کے عالمی کپ میں آسٹریلیا کو شکست سے دوچار کرنے والی زمبابوے کی ٹیم میں بھی شامل تھے۔ یہ زمبابوے کا اولین ون ڈے انٹرنیشنل بھی تھا، جس میں اس نے تاریخی کامیابی حاصل کی تھی
سکندر رضا کہتے ہیں ”1983 کے عالمی کپ کے بارے میں میری معلومات زیادہ نہیں ہیں، یہ میری پیدائش سے پہلے کی بات ہے۔ ابتدا میں میری تمام توجہ تعلیم پر تھی۔ میں نے زمبابوے کی کرکٹ کو اس وقت فالو نہیں کیا تھا۔ خود میں نے کرکٹ قدرے تاخیر سے شروع کی“
سکندر رضا کہتے ہیں ”پاکستان کے خلاف میچ سے قبل رات کو میں صحیح سو نہیں سکا۔ چونکہ اس میچ کی میرے نزدیک بہت زیادہ اہمیت تھی، لہٰذا میں اس بارے میں سوچتا رہا تھا کہ کس طرح بیٹنگ کرنی ہے۔۔ میں نے کچھ نوٹس بھی تیار کیے اور میں انھیں بار بار پڑھتا رہا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ زمبابوے کو بڑی ٹیموں کے خلاف کھیلنے کا موقع کم ملتا ہے۔ فلڈ لائیٹ میں ہمیں کھیلنے کا کم ہی موقع ملا ہے۔ میں خود پرتھ میں پہلی بار کھیلا ہوں۔ میرا جسم سو رہا تھا لیکن دماغ جاگ رہا تھا اور اس میچ کے بارے میں سوچ رہا تھا“
سکندر رضا کہتے ہیں ”میں جب صبح اٹھا تو میرے ایک دوست نے مجھے پیغام بھیجا کہ کیا آپ نے آئی سی سی کی ویب سائٹ پر کلپ دیکھا، جس میں سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ زمبابوے کی کرکٹ اور خاص کر آپ کا ذکر کر رہے ہیں۔ میں نے جواب نفی میں دیا۔ اس دوست نے مجھے وہ کلپ بھیجا، جس نے مجھ میں پاکستان کے خلاف میچ کے لیے ایک نئی توانائی دی“
یہ سال سکندر رضا کے لیے شاندار رہا ہے، جس پر وہ کہتے ہیں ”اگر میں ایک لفظ میں اس کارکردگی کا جواب دے سکوں تو وہ ہے: الحمدللہ۔“
یاد رہے کہ سکندر رضا نے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں اب تک چھ نصف سنچریاں اسکور کی ہیں، جن میں سے پہلی نصف سنچری 2015 میں بنی تھی، جبکہ 2022 میں وہ اب تک پانچ نصف سنچریاں اسکور کر چکے ہیں اور ان کے بنائے گئے مجموعی رنز کی تعداد 661 ہے۔ ان سے زیادہ صرف دو بیٹسمین سوریا کمار یادو 867 رنز اور محمد رضوان 839 رنز بنانے میں کامیاب ہو سکے ہیں“
سکندر رضا اس سال ون ڈے انٹرنیشنل میں بھی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پندرہ میچوں میں 645 رنز بنا چکے ہیں، جن میں تین سنچریاں اور دو نصف سنچریاں شامل ہیں
واضح رہے کہ سکندر رضا کی پیدائش پاکستان کے شہر سیالکوٹ کی ہے۔ وہ پاکستان ایئرفورس میں پائلٹ بننا چاہتے تھے لیکن آنکھوں کے ٹیسٹ میں کامیاب نہ ہونے پر اُن کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا
اور پھر وہ اپنے والدین کے ساتھ اسکاٹ لینڈ چلے گئے، جہاں انہوں نے سافٹ ویئر انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سنہ 2007 سے زمبابوے کی کرکٹ سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز 2013 میں پاکستان ہی کے خلاف ہرارے میں کیا تھا۔