بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے ایک رہنما کی شکایت پر پولیس نے معروف ویب پورٹل ’دی وائر‘ کے آفس اور اس کے صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارے ہیں۔ میڈیا تنظیموں نے اسے پریس کی آزادی پر قدغن لگانے کی حکومت کی ایک اور کوشش قرار دیا ہے
اس ضمن میں ’دی وائر‘ کا کہنا ہے کہ ان کے ایڈیٹرز اور دیگر عملے نے حکام کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور لیپ ٹاپ سمیت جن آلات کا بھی مطالبہ کیا گیا، وہ دہلی پولیس کے حوالے کر دیے گئے۔ اس سے قبل دہلی کی کرائم برانچ پولیس نے اس میڈیا ادارے کے دفتر اور اس کے صحافیوں کی رہائش گاہوں پر چھاپے کی کارروائی کی تھی
پولیس نے پیر کے روز نیوز ویب سائٹ دی وائر کے بانی اور ایڈیٹرز سدھارتھ وردراجن اور ایم کے وینو کے ساتھ دو دیگر صحافیوں کے گھروں کی تلاشی لی اور ان کے مختلف الیکٹرانک آلات بھی اپنے قبضے میں لے لیے
نیشنل الائنس آف جرنلسٹس اور دہلی یونین آف جرنلسٹس (ڈی یو جے) سمیت متعدد صحافتی تنظیموں نے چھاپے کی کارروائی کی مذمت کی ہے
ڈی یو جے کے صدر ایس کے پانڈے کا کہنا ہے کہ حالانکہ دی وائر نے اپنی اسٹوری واپس لے لی تھی اور معذرت نامہ بھی شائع کیا تھا، اس کے باوجود یہ چھاپے غیر ضروری تھے
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے یہ کارروائی دراصل پریس کو ڈرانے دھماکنے کی اس کی کوششوں کا حصہ ہے
پولیس کی کارروائی کے بعد حکومتی عتاب کے شکار ادارے ’دی وائر‘ نے اپنے بیان میں کہا ”چاروں نے تعاون کیا اور مانگے گئے آلات کو بھی سونپ دیا۔ ہم نے ضبط کیے گئے فون، کمپیوٹرز اور آئی پیڈز کی ہیش ویلیو اور ضبط کیے گئے آلات کی کلون کاپیوں کو غیر جانبدار مقام پر رکھنے کے اپنا مطالبہ بھی پیش کیا“
واضح رہے کہ ہیش ویلیو ایک منفرد عددی قدر ہے، جس کا استعمال کسی ڈیوائس اور اس کے ڈیٹا کی سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے
’دی وائر‘ کا مزید کہنا تھا ”اس تعاون کے باوجود، دہلی کے بھگت سنگھ مارکیٹ میں ان کے دفتر کی بھی تلاشی لی گئی اور ہمارے ایک وکیل کو وہاں موجود افسران نے دھکے دے کر باہر نکال دیا“
واضح رہے کہ دہلی پولیس نے یہ کارروائی بھارت کی حکمران ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے ایک رہنما امیت مالویہ کی شکایت پر کی۔ دہلی پولیس مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے ماتحت ہے۔ امیت مالویہ بی جے پی کی آئی ٹی سیل کے سربراہ ہیں، جو پارٹی کی شبیہہ بہتر کرنے اور حزب اختلاف کو نشانہ بنانے کے لیے آن لائن مہم چلاتا ہے
انہوں نے میڈیا ادارے دی وائر اور اس کے ایڈیٹرز کے خلاف ’اپنی ساکھ کو داغدار کرنے‘ کی شکایت درج کروائی تھی اور الزام لگایا تھا کہ ادارے کی ایک رپورٹ سے ان کی شبیہہ مجروح ہوئی ہے۔ حالانکہ دی وائر نے اپنی اس رپورٹ کو واپس لے لینے کے ساتھ ہی معذرت بھی پیش کی تھی
اسی شکایت کی بنیاد پر دہلی پولیس نے ایڈیٹر وردراجن اور ادارے کے دیگر صحافیوں کے خلاف دھوکہ دہی، جعل سازی، ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سازش اور ہتک عزت جیسی متعدد دفعات کے مقدمہ درج کیا تھا
ہوا کیا تھا؟
رواں برس چھ اکتوبر کو، دی وائر نے ایک رپورٹ شائع کی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ فیسبک اور انسٹاگرام کی مالک کمپنی میٹا نے، ایک پرائیویٹ اکاؤنٹ سے انسٹاگرام پر شائع کی گئی ایک پوسٹ کو اپلوڈ کرنے کے محض چند منٹوں کے اندر ہی ہٹا دیا گیا
اس رپورٹ میں اس بات کا بھی دعوی کیا گیا تھا کہ امیت مالویہ کو میٹا کی ملکیت والے انسٹاگرام سے پوسٹیں ہٹانے کے لیے کچھ خصوصی مراعات حاصل ہیں۔ اس رپورٹ میں اس بات کا تاثر دیا گیا تھا کہ جب بھی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے خلاف کوئی رپورٹ پوسٹ ہوتی ہے، تو وہ اسے فوری طور ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں
وائر کی اس رپورٹ کے سامنے آتے ہی ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا اور رپورٹ کی صداقت پر سوالات اٹھائے جانے لگے۔ اس تعلق سے دی وائر نے اپنی رپورٹ میں جن ذرائع کا حوالہ دیا تھا، ان کی ساکھ پر بھی بڑی شدت سے سوالات اٹھائے جانے لگے
نیوز ویب سائٹ دی وائر ابتدائی طور پر اپنی اس رپورٹ پر قائم رہی اور ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن نے اس کے دفاع میں کہا کہ ”یہ کہانیاں میٹا کے متعدد ذرائع سے ان کے پاس آئی ہیں، جنہیں ہم نہ صرف اچھی طرح سے جانتے ہیں، بلکہ ان سے ملاقات کر کے اس کی تصدیق بھی کی ہے۔“
لیکن پھر اطلاعات کے مطابق سوشل میڈیا کی کمپنی میٹا پر زبردست دباؤ پڑا اور کمپنی کے کمیونیکیشن ہیڈ، اینڈی اسٹون نے رپورٹ میں کیے گئے دعوؤں کی تردید کی اور کہا کہ اس حوالے سے دستاویزات ‘من گھڑت‘ تھیں
اسی کے بعد دی وائر کو اس حوالے سے اپنی رپورٹ کو واپس لینا پڑا اور ادارے نے اس کے لیے معذرت بھی پیش کی۔ لیکن بی جے پی رہنما امیت مالویہ اس معافی نامے سے راضی نہیں ہوئے اور دہلی پولیس میں شکایت درج کرا دی، جو ان کی حکومت کے تحت کام کرتی ہے۔