آزادی کے وقت کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے کا مقصد اس شہر کی فضائی جغرافیائی صورتحال اور سب سے بڑھ کر مضبوط بلدیاتی نظام تھا۔ کراچی میں بڑی تعداد میں مہاجرین بھی آباد ہوئے تو ان کےلیے شاہ فیصل کالونی، سعودی آباد کے علاوہ ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، بفرزون جیسے علاقے آباد کیے گئے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ساتھ ساتھ شہر کو بڑے پیمانے پر پانی کی فراہمی کےلیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ قائم کیا گیا۔ شہر میں پینے کا پانی دریائے سندھ اور حب ڈیم سے لایا جاتا تھا، جبکہ گندے پانی کی نکاسی کےلیے شہر میں جابجا سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ لگے تھے
کراچی کا شمار 80 کی دہائی تک ایک جدید اور متحرک شہر میں ہوتا تھا، جہاں دنیا بھر سے سیاح چھٹیاں گزارنے آتے تھے، مگر پھر لگتا ہے اس شہر کو نظر ہی لگ گئی، امن وامان کی صورتحال اور دیگر مسائل کی وجہ سے ہر گزرتے دن کراچی ایک اربن کھنڈر میں تبدیل ہوتا رہا
شہر کے بدحال انفرااسٹرکچر، کمزور حکومتی رٹ، ناکارہ بلدیاتی ادارے، واٹر اینڈ سیوریج بورڈ میں سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کا شمار اگر دنیا کے پانچ بڑے شہروں میں ہوتا ہے تو یہی شہر دنیا کے ناقابل رہائش شہروں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی دنیا کے 172 بڑے شہروں میں سے 168 نمبر پر ہے۔ شہر صحت عامہ، مستحکم شہری زندگی، ثقافت و ماحولیات، تعلیم اور انفرااسٹرکچر کے حوالے سے بدترین صورتحال کا شکار ہے
عالمی بینک نے بھی کراچی کے بارے میں اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ شہر کے 50 فیصد حصے کو پینے کے پانی اور نکاسی آب کی سہولت دستیاب نہیں
شہر میں پیدا ہونے والے کچرے کا 60 فیصد کھلے مقامات پر پڑا رہتا ہے اور اس کو اٹھانے کی صلاحیت میونسپل اداروں کے پاس نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر شہر میں تجاوزات بڑھ گئی ہیں۔ 2018 میں عالمی بینک نے تجاوزات کو ہٹانے کےلیے سرمایہ فراہم کیا تھا مگر شہر میں آج بھی تجاوزات کا یہ عالم ہے کہ شہر کی کوئی بھی گلی، سڑک اور شاہراہ تجاوزات سے پاک نہیں
کراچی میں گزشتہ چند دہائیوں سے زمین کی قلت کا سامنا ہے۔ جو لوگ جن علاقوں میں بس گئے وہاں سے نکل کر دوسرے علاقے میں بسنے کےلیے تیار نہیں۔ جبکہ بنائی جانے والی نئی بستیوں میں مناسب انفرااسٹرکچر کی فراہمی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اسی لیے شہر میں چھوٹے چھوٹے پلاٹس پر کثیر المنزلہ عمارتوں کو بنانے اور ان کے پورشن بنا کر فروخت کرنے کا عمل جاری ہے۔ یہ عمارتیں شہر کی خوبصورتی کو ماند کرنے کے علاوہ شہر کو کنکریٹ کے ایک جنگل میں تبدیل کررہی ہیں۔ قبضہ مافیا اور پورشن مافیا نے شہر میں جہاں خالی جگہ نظر آئی وہاں کثیر منزلہ عمارتیں کھڑی کردی ہیں۔ شہر کا فضائی نظارہ کیا جائے تو جابجا کنکریٹ کے ڈھانچے نظر آتے ہیں، کھلے مقامات، باغات یا گلیاں تک نظر نہیں آتیں، جس سے شہر میں خدمات فراہم کرنا مشکل ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ کچی آبادیوں نے جہاں جگہ خالی ملی وہاں سر اٹھا لیا
جدید شہری زندگی میں بہت سی شہری سہولیات کو نصب کرنے کےلیے راستے اور جگہ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کو حق راہداری یا right of way کہتے ہیں۔ حق راہدری کےلیے ٹاؤن پلاننگ سے متعلق قوانین میں خصوصی شقوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ شہری سہولتیں فراہم کرنے والی یوٹیلٹیز، جیسا کہ فراہمی و نکاسی آب، بجلی، ٹیلی فون انٹرنیٹ اور ٹی وی کے کیبلز یا دیگر یوٹیلٹیز کی قانونی گزرگاہ کو رائٹ آف وے کہا جاتا ہے۔ حق راہ داری حاصل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یوٹیلیٹی کے پاس یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سہولتوں کو اس راستے یا جائیداد یا زمین پر نصب کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی جس وقت چاہے مرمت یا تبدیلی کرنے کا حق بھی رکھتی ہے۔ اس طرح یوٹیلیٹی کو یہ حق بھی حاصل ہوتا ہے کہ اگر کوئی تعمیر یا کوئی اور دوسری چیز اس کی راہ میں رکاوٹ بنے تو اس کو وہ ہٹانے کا قانونی حق رکھتی ہے۔ اور اگر یوٹیلیٹی کے حق راہداری پر کوئی قبضہ ہو یا رکاوٹ ہو تو اس کو خالی کرانے کےلیے یوٹیلیٹی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والوں کی مدد بھی حاصل کرسکتی ہے
بجلی کے شعبے میں حق راہداری کے مسائل بہت سنگین نوعیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ نیپرا کی حال ہی میں جاری ہونے والی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ بجلی کے شعبے میں حق راہدری کا پورے ملک میں مسئلہ ہے اور اس کی وجہ سے بجلی کی ترسیل کے توسیعی منصوبے متاثر ہورہے ہیں۔ اس مقصد کےلیے صوبائی اوروفاقی حکومتوں کو قانون سازی کرنا ہوگی
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور دنیا کے چھ بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے مگر یہاں یوٹیلٹیز کی حق راہداری پر قبضے اور تجاوزات کی وجہ سے نہایت مخدوش صورتحال ہے۔ بجلی، پانی، سیوریج اور ٹیلی کام کی خدمات گھروں تک پہنچانے کے لیے حق راہداری کے کیا مسائل ہیں، اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں:
کے الیکٹرک شہر میں بجلی فراہم کرنے والی واحد کمپنی ہے، جس کا انفرااسٹرکچر ہر گلی اور محلے میں موجود ہے۔ مگر وہ بھی حق راہداری پر تجاوزات سے پریشان ہے۔ جس کی وجہ سے بجلی کی فراہمی کے انفرااسٹرکچر کےلیے دستیاب حق راہداری یعنی Right of way کو بھی متاثر کرتے ہیں
شہر میں بجلی کے پہلے سے بنائے گئے انفرااسٹرکچر کے انتہائی قریب عمارتوں کی تعمیر کی جارہی ہے۔ پہلے تو عوام اپنی اوپری منزل کو تین فٹ باہر نکال رہے تھے مگر اب گلی کا کچھ حصہ عمارت یا گھر میں شامل کرلیا جاتا ہے۔ جس کے بعد گھر کی تعمیر مزید کئی فٹ باہر نکال کی جاتی ہے، جس سے کے الیکٹرک کی تاروں اور پول پر لگے ٹرانسفارمر میں بہت کم فاصلہ رہ جاتا ہے۔ جبکہ بعض مقامات پر تو ٹرانسفارمر گھر یا دکان کا حصہ بنالیے گئے ہیں۔ کہیں پی ایم ٹی کو چہار دیواری میں گھیر لیا گیا ہے تو کہیں پی ایم ٹی کے اتنے قریب تعمیرات کردی گئی ہیں کہ انسانی زندگی اور املاک خطرات سے دوچار ہوگئی ہیں۔ اس کے علاوہ کے الیکٹرک کی تاروں پر جابجا کنڈے لگا کر بجلی چوری کی جاتی ہے اور اس مقصد کےلیے عارضی نظام وضع کیا جاتا ہے جو کے الیکٹرک نظام کے متوازی چل رہا ہوتا ہے، جس سے انسانی جانوں کو بھی شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں
بہت سے مقامات پر ہائی ٹینشن تاروں کی راہدری پر پوری پوری آبادیاں قائم ہوگئی ہیں۔ بعض اسکول اور دینی مدارس بھی بجلی کے نیٹ ورک سے بہت قریب قائم ہوگئے ہیں۔ جس وقت ہائی ٹینشن نیٹ ورک کی تنصیب کی گئی تھی، اس وقت تو زمین خالی تھی اور کہیں بھی آبادی نہ تھی۔ مگر اس کے بعد ہائی ٹینشن تاروں کے اردگرد اور پھر اس کے عین نیچے بھی گھروں کی تعمیر ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے ہائی وولٹیج تاروں کے نیٹ ورک کو ہر طرف سے آبادی نے گھیرا ہوا ہے اور بعض مقامات پر تو ہائی ٹینشن کیبلز کا کھمبا ہی رہائش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کسی بھی وقت زلزلے یا تیز ہوا سے ہائی ٹینشن تار ٹوٹ کر گر جائے تو بڑے پیمانے پر نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کے علاوہ اس انفرااسٹرکچر کی دیکھ بھال، مرمت اور تاروں کی تبدیلی کے لیے مشینری لانے کےلیے بھی راستہ دستیاب نہیں
یوٹیلٹی اداروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے حق راہداری پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کاروائی کےلیے متعدد قانونی نوٹسز جاری کیے ہیں، مگر لوگ یہ جگہ خالی کرنے کو تیار نہیں۔ جبکہ اس انفرااسٹرکچر کے نیچے رہنے والے ہر وقت ایک خطرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اگر کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوتا ہے تو شہر میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کو خطرہ ہوسکتا ہے
بجلی فراہمی کے کھمبوں پر بھی تجاوزات کی بھرمار ہے، جس میں ٹی وی اور انٹرنیٹ کیبلز بھی مسائل کی بڑی وجہ بن گئے ہیں، جس میں بجلی کے تار گڈمڈ ہوگئے ہیں۔ اس وجہ سے خطرناک حادثات بھی رونما ہوسکتے ہیں۔ انٹربیٹ اور ٹی وی کیبلز کا معاملہ صرف پسماندہ علاقوں میں نہیں بلکہ ڈیفنس اور کلفٹن جیسے پوش علاقوں میں بھی یہ مسئلہ نہایت گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ 2012 میں بنائی گئی ٹیلی کام پالیسی میں زیر زمین کیبلز کا حق راہداری کا عندیہ دیا گیا تھا، جس پرعمل درآمد نہیں ہورہا۔ اور سب سے بڑی وجہ ہے کہ ایک تنگ گلی جہاں پہلے ہی پانی اور سیوریج کی زیر زمین لائنیں موجود ہیں اور ان سے رساؤ جاری ہے، وہاں انٹرنیٹ اور ٹی وی کیبلز کو زیر زمین لے جانا مشکل ہے
حق راہ داری پر قبضے کا معاملہ صرف بجلی کی فراہمی تک محدود نہیں بلکہ یہ معاملہ پانی کی فراہمی اور نکاسی کے مسائل بھی پیدا کررہا ہے۔ بے ہنگم آبادی اور عمارتوں کی بلندی بڑھنے کے ساتھ ساتھ گلیوں کے تنگ ہونے کی وجہ سے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بھی بہت پریشان ہے۔ اس کے حکام کا کہنا ہے کہ پہلے ہی تجاوزات کی وجہ سے شہر میں خدامات کی فراہمی مشکلات کا شکار ہے۔ پہلے رہائشی علاقوں میں گندی گلی الگ ہوتی تھی جہاں سے سیوریج لائن گزاری جاتی تھی جبکہ صاف گلی سے پانی کی لائن گزاری جاتی تھی۔ مگر اب گندی گلی کا تصور ہی ختم ہوگیا ہے۔ اب سیوریج اور پینے کے پانی کی لائن ایک ہی گلی سے گزاری جاتی ہے جس کی وجہ سے صاف پانی میں گندا پانی ملنے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ گلیوں میں تجاوزات کی وجہ سے اکثر گٹر ابلتے رہتے ہیں۔اور تعفن پھیلتا ہے۔ کئی جگہوں پر نکاسی و فراہمی آب کی پائپ لائنوں پر ہی تعمیرات کردی گئی ہیں۔ شہر کے نالوں پر تجاوزات کی وجہ سے بھی شہر میں نکاسی آب خصوصاً بارشوں میں نکاسی کے مسائل پیدا ہورہے ہیں
نکاسی آب کے مسائل اور تجاوزات کی وجہ سے اکثر مقامات پر سیوریج لائنوں سے پانی کا رساؤ جاری رہتا ہے۔ اس پانی کی وجہ سے شہر میں عمارتوں کی بنیادیں کمزور ہورہی ہیں۔ تعمیرات کے ماہرین شہر میں بڑے پیمانے پر عمارتوں کے زمین بوس ہونے کی وجوہ میں بنیادوں میں پانی بھرنے کو بھی قرار دیتے ہیں۔ اور ان واقعات میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ تجاوزات یا گلیوں کی تنگی کی وجہ سے جائے حادثہ تک ریسکیو حکام کو پہنچنے میں مشکلات اٹھانا پڑتی ہیں
کراچی کو قابل رہائش شہر میں تبدیل کرنے کےلیے جہاں کچرا اٹھانے، سڑکوں کی تعمیر، پارکوں اور کھلے عوامی مقامات کی بحالی، عوامی سفری سہولیات کو بحال کرنا ہے، وہیں یوٹیلٹیز کےلیے حق راہداری کو بحال کرنا بھی اہم ہے۔ اس سے نہ صرف شہری سہولیات کی فراہمی میں آسانی ہوگی بلکہ شہر کے خراب ہوتے انفرااسٹرکچر کو بحال کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اگر اس معاملے پر فوری توجہ نہ دی گئی تو شہر میں یوٹیلٹیز کی فراہمی کے مسائل بڑھ جائیں گے اور شہر میں کسی حادثے یا قدرتی آفات میں امدادی سرگرمیوں میں بھی مشکلات پیش آئیں گی
بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)