ایک بار پھر وہ شہر میں کامیابی کے نئے جھنڈے گاڑ رہا ہے،
زندگی کے قد سے بھی بڑا
پراسرار، سرخ و نیلگوں نقاب میں
اپنے جالے تانتے ہوئے
جالوں کے الجھاوں میں اس طرح سے گزرتے ہوئے
جیسے اس شہر کا آسمان بھی
بس ایک دیوار ہو
جس پر وہ سیدھا چلتا چلا آئے۔
وہ بند گلیوں
کھردری، سنگلاخ دیواروں
کھپریل کی چھتوں پر
چلتا ہوا آتا ہے
ایک زقند میں شہر کی ایک حد سے
دوسری حد تک پہنچ جاتا ہے
اور اَن ہونے واقعات شہر میں سامنے آتے رہتے ہیں
جلتی ہوئی بالکنی سے گر کر ایک بڑھیا دم توڑ گئی
موسلادھار بارش میں اندھی گلی میں چار شرابی
ایک لڑکی کے کپڑے دھجی دھجی کرتے رہے
چیختی چنگھاڑتی چار گاڑیاں
ٹکرانے سے دو بچے کچلے گئے
ایک گاڑی کے ڈرائیور نے
پستول کے جواب میں
چابی نہیں دی
اس کے منھ سے بھل بھل نکلتے گاڑھے خون نے
گاڑی کے رنگین سیٹ کو رز پر دھبے ڈال دیے
بینک کا خزانہ لوٹ لیا گیا
بم کے دھماکے سے تباہ ہونے والی عمارت سے
دھواں اٹھتا رہا، لوگ بین کرتے رہے۔
وہ شہر کے لیے خطرہ ہے یا مسیحا
اخباری سرخیاں اب بھی اپنے آپ سے پوچھتی ہیں۔
وہ کہیں پس منظر میں ہے،
کسی تصویر کی دھندلی تفصیل میں،
جاگتی رہتی ہیں اس کی ہزاروں آنکھیں،
گھومتی رہتی ہیں،
رینگتی رہتی ہیں اس کی ٹانگیں،
ہاتھوں سے جالے بنتے رہتے ہیں،
شہر کی عمارتوں کے اوپر،
وہ آسمان کی حدوں میں نقاب اوڑھے بیٹھا،
جالا بنتا رہتا ہے،
انتظار کرتا رہتا ہے،
کب آنکھ جھپکے،
وہ اپنا وار کرے،
سارا شہر سانس روکے دیکھ رہا ہے،
خلق خدا نعرے لگا رہی ہے،
’’اسپائڈر مین، اسپائڈر مین! وی وانٹ یو!
تجھے مکھیوں کے شہر کا سلام ہو!
اے صاحبِ عنکبوت، تو ہی ہمارا امام ہو!‘‘