حکومت نے ایف آئی اے کو طاقتور بنانے کے لیے ادارے کو مزید اختیارات دینے کا فیصلہ کیا ہے، سوشل میڈیا قانون میں کیا ترمیم کے تحت جعلی خبر پر چار سال سے سات سال قید بھی ہو سکتی ہے
یاد رہے وفاقی کابینہ نے 27 اکتوبر کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں ایف آئی اے ایکٹ میں سمری سرکولیشن کے ذریعے مزید ترامیم کی منظوری دی تھی۔ اب ایف آئی اے ایکٹ میں ترمیم کی حتمی منظوری پارلیمنٹ سے لی جائے گی۔ پارلیمنٹ سے ترمیم کی منظوری کے بعد ایف آئی اے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے مواد پر کاروائی کر سکے گی
سمری میں کہا گیا کہ نفرت انگیز مواد، اداروں میں بغاوت پر اکسانے جیسے معاملات سوشل میڈیا پر بہت زیادہ آ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر غلط خبروں کی بھی بھرمار ہے۔ غلط خبریں ریاست کے اداروں کے اہلکاروں میں بغاوت کو جنم دے سکتی ہیں
سمری کے مطابق: غلط خبریں کسی گروہ اور کمیونٹی کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا سکتی ہیں۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ پانچ سو پانچ ایف آئی اے کے ایکٹ میں شامل نہیں اس لیے اس شق کو شامل کیا جائے
مزید لکھا گیا تھا کہ ترمیم کے بعد سوشل میڈیا پر کسی قسم کی جعلی خبر اور افواہ پر کارروائی کا اختیار ایف آئی اے کا بھی ہوگا، پہلے یہ اختیار صرف پولیس کے پاس تھا
پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اس قانون کے تحت خلاف ورزی کی صورت میں سات سال تک قید کی سزا ہو سکے گی
اس حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے بدھ کو اسلام آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا سے متعلق ایف آئی کے قانون میں تبدیلی پر ’صحافی برادری’ و ’دیگر اسٹیک ہولڈرز‘ سے مشاورت کریں گے
صحافیوں کے سوالات پر رانا ثناءاللہ نے کہا ”سوشل میڈیا میں کچھ چیزیں ایسی ہیں، جن کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے نجی زندگی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے، اندیشہ ہے کہ آزادی اظہار رائے کو نقصان نہ پہنچے۔ اظہار رائے کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے میڈیا اور صحافتی تنظیمیں ہماری رہنمائی کریں“
ایک سوال جس میں پوچھا گیا کہ ”سوشل میڈیا اختیارات میں منتقلی حکومت لا رہی ہے یا کوئی اور لا رہا ہے؟“
اس پر وزیر داخلہ نے جواب دیا ”بل تو پارلیمنٹ میں ’آخر میں‘ حکومت ہی لا رہی ہے۔ سوشل میڈیا سے متعلق ایف آئی اے کو اختیارات منتقلی پر مباحثہ ہوگا“
دوسری جانب بل کے حوالے سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر افضل بٹ کا کہنا ہے ”ہم پہلے بھی آزادی اظہار رائے کے حق کے لیے عدالتوں میں گئے تھے، جب 2016ع میں قانون آیا اور جب گذشتہ حکومت نے پیکا قوانین میں سختی کی تو اس کے خلاف ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا“
انہوں نے کہا ”جو آئین نے حق دیا ہے، اسے ان قوانین سے ختم نہیں کیا جا سکتا، حکومت کو چاہیے کہ ہم سے مشاورت کرے تاکہ جامع پالیسی بنائے جا سکے“
’آزادی اظہار رائے‘ کے حق کے لیے عدالتوں میں جانے کی بات کرنے والے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر کا کہنا تھا ”سوشل میڈیا میں ’صحافیوں کے بارے‘ میں ٹرولنگ کی جاتی ہے، ان کی کردارکشی کی جاتی ہے، ان چیزوں کا تو سدباب ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے لیے بھی پہلے مشاورت سے پالیسی مرتب کی جائے“