یہ سندھ کا شہر خیرپور ناتھن شاہ ہے، جو صوبائی دارالحکومت کراچی سے لگ بھگ دو سو ساٹھ کلومیٹر دور واقع ہے، اس کا نصف حصہ تاحال پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔۔ لیکن اس کے باوجود اب لوگ اپنے گھروں کو لَوٹنے پر مجبور ہیں، کہ ان کے لیے کوئی اور ٹھکانہ بھی تو نہیں
دین محمد ببر بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ اپنے بھائیوں اور ان کی فیملیز کے ساتھ کشتی میں سامان لاد کر اپنے گاؤں علی بخش ببر لَوٹتے ہوئے انہوں نے بتایا ”ڈھائی ماہ بعد اپنے گاؤں لوٹ رہے ہیں، اتنے روز ’جلاوطن‘ رہے, ملا کچھ بھی نہیں۔۔ بھکاریوں کی طرح مانگ کر کھایا۔۔ کسی ایم پی اے نے نہ کسی ایم این اے نے مدد کی“
حکومت سندھ کے اعداد و شمار کے مطابق اگست میں ہونے والی شدید بارشوں اور شگاف پڑنے سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال کی وجہ سے اسی لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہوئے، جن میں سے تیس لاکھ کے قریب واپس جا چکے ہیں
گھر کی چھت سے محروم سیلاب متاثرین کو خیمہ نہ ملنے کی شکایات عام ہیں۔ حکومت سندھ کی اپنی رپورٹ کے مطابق این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اور افواج پاکستان کے علاوہ غیر ملکی امداد سمیت صرف سات لاکھ کے قریب خیمے ہی فراہم کیے جا سکے ہیں
لیکن دین محمد کے سامان میں کوئی خیمہ شامل نہیں تھا۔ وہ بتاتے ہیں ”ہمیں کچھ نہیں ملا۔ فوجی ڈنڈے مار رہے تھے، اس لیے ان کے پاس نہیں گئے۔ اپنے منتخب نمائندوں کے پاس تین چار بار گئے اور گزارش کی کہ بے شک راشن نہ دیں خدا کے واسطے ہمیں کوئی ٹینٹ دے دیں تاکہ ہم اپنے بچے لے کر بیٹھیں“
دین محمد کہتے ہیں ”لیکن انھوں نے کچھ بھی نہ دیا۔ اب اللہ کا نام لے کر بچوں کو لے کر سانپوں میں جا رہے ہیں۔۔ یہاں پر بھوک سے مر رہے ہیں، وہاں بھی بھوک سے مریں گے، پھر بھی کچھ تو چھاؤں ہوگی“
دین محمد نے تین ہزار روپے میں کشتی کرائے پر لی تھی، جس میں دو بورے پرانے برتن، دو سولر پینل، کچھ بستر اور چند روز کا راشن شامل تھا، جو ان کے بھائی نے دکھاتے ہوئے بتایا ”یہ اپنی جیب سے خرید کر کے آئے ہیں۔“
کشتی جیسے ہی کنارے سے لگی، دین محمد ببر کے وہاں موجود دو بھائیوں نے رسہ پکڑ کر اس کو کنارے لگایا۔ ایک نے اپنی پانچ سے چھ سالہ بیٹی کو اٹھایا اور کہا کہ ’آؤ! تمہیں دکھائیں، ابھی ابھی میں نے ایک سانپ مارا“
یہ تین سے چار فٹ لمبا کوبرا سانپ تھا۔ انہوں نے بتایا ”یہ مادہ ہے، نر کو چند روز قبل وہ مار چکے ہیں اور یہ معمول کی بات ہے۔“
سیلاب کے بعد مرد تو پہلے بھی یہاں چکر لگاتے رہے ہیں لیکن خواتین پہلی بار یہاں پہنچی ہیں۔ ہدایت خاتون ببر نے بتایا کہ پانی کی سطح اچانک بلند ہوگئی تھی۔۔ انہوں نے سرخ اینٹوں والے پکے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”دیکھو۔۔۔ وہاں تک پانی آیا تھا۔ چار سے پانچ فٹ پانی تھا۔۔ ہمارے بستر، کپڑے، مرغیاں، راشن سب یہاں رہ گیا۔۔ ہم صرف بچوں کو لے کر اپنا سر بچا کر نکلے تھے، جو ہاتھ لگا وہ ہی لے سکے تھے“
دین محمد کے مطابق ان کے رشتے دار جو محفوظ مقام پر پہنچے تھے، انہوں نے کشتی کرائے پر لے کر بھیجی تھی، جس نے انہیں خشکی پر پہنچایا۔ اس وقت بھی حکومت نے کوئی مدد نہیں کی، وہ اپنے خرچے پر ہی یہاں پہنچے ہیں
دو ماہ بعد یہ خاندان جب واپس لوٹا ہے تو صرف تین کمرے بچے ہیں۔ باقی مٹی اور اینٹوں کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں۔ ہدایت خاتون نے اس ڈھیر پر کھڑے ہو کر کہا ”یہاں ایک کمرہ بنا ہوا تھا۔ دو کمرے یہاں پر تھے اور کچن اس طرف تھا۔۔“
خیرپور ناتھن شاھ میں واقع ان کے گاؤں علی بخش ببر کا زمینی راستہ اس وقت بھی منقطع ہے۔ آس پاس کے علاقے میں بھی یہی صورتحال ہے۔ تا حدِ نگاہ پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔ ان کے گھروں کے ساتھ والی سڑک بہہ چکی ہے اور ساتھ میں موجود شگاف سے پانی کا بہاؤ جاری ہے
ببر خاندان کے افراد میں چھوٹے بچے بھی شامل ہیں۔ سڑک کے ایک کنارے پر انہوں نے ٹوٹے ہوئے دروازوں، بانس اور ایک گرے ہوئے درخت سے چھوٹا سا پل بنایا ہے۔ جب خاندان کے لوگ اس سے گزر رہے تھے تو ان کے قدم ڈگمگا رہے تھے
ہدایت خاتون کی بہو نورالنسا ببر نے ٹوٹی ہوئی پلیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دکھاتے ہوئے بتایا ”اب یہاں سے کیسے نکل سکتے ہیں، یہاں شگاف پڑا ہوا ہے۔ ہمارے چھوٹے بچے ہیں۔ ہم خود کیسے نکلیں گے۔ ہمارے مویشیوں کا کیا ہوگا؟ گھر ویران ہو گئے، گاؤں ویران ہے۔ اب ہم کیا کریں؟ کہاں جائیں؟ اگر کوئی بڑی ایمرجنسی ہوگئی تو ہم یہاں سے کیسے نکلیں گے؟ یہاں کتنا پانی ہے۔۔ ہم مجبوری میں واپس آئے ہیں۔ سڑکوں پر نہ راشن ملتا تھا، نہ ٹینٹ۔۔ آخر تو اپنے گاؤں لوٹنا ہی تھا۔“
میلوں تک پھیلے ہوئے پانی سے زیرِ آب زمین پر دین محمد ببر اور ان کے خاندان سمیت دیگر کسان کھیتی باڑی کرتے تھے اور نومبر سے گندم کی کاشت کی تیاری کی جاتی ہے
حکومت سندھ کا دعویٰ ہے کہ ستر فیصد علاقے سے پانی کی نکاسی ہو چکی ہے۔ تاہم قمبر شہداکوٹ، میہڑ، خیرپور ناتھن شاھ، بھان سعید آباد سمیت دیگر علاقوں میں میلوں تک پانی موجود ہے، جہاں گندم کی کاشت مشکل ہوگی
ہدایت خاتون بتاتی ہیں ”ہمارا کام کاج اور روزی یہ ہے کہ ہم کسان ہیں۔ نہ تو ہمارے کھیت ہیں نہ زمین۔ یہ ساری زمینیں دوسروں کی ہیں۔ بیٹے بیروزگار ہیں۔۔ ان کی مزدوری اگر لگتی ہے تو کرتے ہیں ورنہ یہاں بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ دیہات ہے، یہاں کون سا کام لگتا ہے۔ یہ کوئی شہر نہیں کہ روزگار لگے اور ہم اپنا پیٹ بھر سکیں۔“
اس سوال پر کہ اب یہاں کیسے گزارا ہوگا؟ ڈین محمد نے کہا ”ہم اپنے ساتھ جال لے کر آئے ہیں۔ اس پانی میں مچھلی پکڑیں گے، کچھ کھائیں گے اور کچھ فروخت کریں گے۔ ماہی گیر ناراض ضرور ہوں گے لیکن کیا کریں یہ مجبوری ہے“
اس دوران ہدایت خاتون کی بیٹی نے چار اینٹیں زمین سے نکال کر چولہا بنایا۔ والدہ نے اسے متنبہ کیا ”دیکھو! خیال سے اینٹ کے نیچے یا آس پاس کوئی سانپ یا بچھو نہ ہو“
انہوں نے چائے بنائی اور بچوں کو ساتھ میں لائے بسکٹ دیے۔ یہ خاندان کچھ خشک روٹیاں بھی لایا تھا، جو کشتی سے سامان اتارتے وقت چارپائی پر رہ گئیں اور بکری کھا گئی
اب یہ خاندان مچھروں اور سانپوں میں کیسے رہے گا، جس کے پاس خیمہ بھی نہیں ہے
ہدایت خاتون کا کہنا تھا ”اب یہ ایسے بن سکتے ہیں کہ اگر کسی کو خدا ایمان دے، وہ اگر ہمارا گاؤں بنائیں گے تو انھیں مکانات ملیں گے اور اگر نہ ملے تو پھر غریب کہاں جائیں گے؟ پھر وہ چھونپڑیاں بنائیں گے۔“