عمران خان پر قاتلانہ حملے کے بارے میں عالمی تجزیہ کاروں کی رائے کیا ہے؟

ویب ڈیسک

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی خبروں نے صرف پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں طوفان برپا نہیں کیا، بلکہ دنیا بھر میں اس پر شہ سرخیاں بنیں، کرکٹ کے سابق اسٹار عمران خان دہائیوں سے عالمی میڈیا کی نظروں میں ہیں، ان کے وزیراعظم منتخب ہونے اور اپریل میں ان کی حکومت ختم ہونے کی عالمی سطح پر بھی بھرپور کوریج کی گئی

متعدد مواقع پر عمران خان کے احتجاج کو عالمی میڈیا نے کوریج دی ہے، خاص طور پر اس وقت، جب انہوں نے ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف متنازع بیانات دیے

گزشتہ روز (3 نومبر) کو پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران پنجاب کے علاقے وزیر آباد میں نامعلوم مسلح شخص کی فائرنگ سے سابق وزیر اعظم عمران خان اور سینیٹر فیصل جاوید سمیت متعدد رہنما زخمی اور ایک کارکن جاں بحق ہوئے تھے، اس معاملے پر بھی عالمی میڈیا نے بھرپور کوریج کی

بلومبرگ نے لکھا ’فائرنگ کی وجہ سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بھی صورتحال پیچیدہ ہوئی ہے، جس نے 2018 میں عمران خان کے اقتدار میں آنے کی حمایت کی تھی، مستقبل میں عمران خان پر حملہ یا انہیں اگلے انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ جنرلز اسپاٹ لائٹ میں آئیں گے، جو پس منظر میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ وہ مقامی اور خارجہ پالیسی میں بھرپور طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں‘

برطانوی اخبار دی گارڈین نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ’اگرچہ قتل عام کے اعداد و شمار مسلسل تیزی کو ظاہر کرتے ہیں، چند لوگوں کو یقین ہے کہ پاکستان کی سوسائٹی اور سیاست میں طویل عرصے سے جاری تشدد کم ہو رہے ہیں، پاکستان اب بھی دنیا کے خطرناک ممالک میں شامل ہوسکتا ہے، تاہم یہ ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھے غیر ملکی مبصرین سے زیادہ اپنے شہریوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔‘

معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اس حوالے سے کچھ اس طرح تجزیہ کیا ’اکیلے قاتلانہ حملہ کرنے کا دعویٰ کرنے والے شخص کے وڈیو کلپس پاکستان بھر کے میڈیا میں موجود ہیں، تاہم یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ اس دعوے پر ملک بھر میں بڑے پیمانے پر یقین کیا جا رہا ہے، جس میں سازشی نظریات کی بھرمار ہے، پاکستان یاد رکھے گا کہ کسی نے پتا نہیں لگایا کہ بے نظیر بھٹو کو کس نے قتل کیا تھا، اور کسی بھی سادہ وضاحت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، چاہے یہ سچ ہو یا نہ ہو، اور وہ ایسے شخص کو تلاش کریں گے، جس کو قصور وار ٹھہرا جا سکے۔ پہلے ہی عمران خان کے حامیوں نے ملک بھر میں ملٹری سے متعلق علامتوں پر توڑ پھوڑ کی ہے‘

انڈین ایکسپریس نے لکھا ’پاکستان کے معاملات کے حوالے سے خطے اور دنیا بھر میں تجزیہ کاروں کی جانب سے بہت سارے سوالات پوچھے جارہے ہیں اور ان پر تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ اس وقت بھارتی میڈیا کا ایک بھی نامہ نگار براہ راست رپوٹنگ کے لیے ملک میں موجود نہیں ہے جبکہ پاکستان میں پیش رفت کے حوالے سے اخبارات بعض اوقات پیشہ ورانہ نقطہ نظر پیش کرتے ہیں، الیکٹرونک میڈیا پاکستان کی رپوٹنگ پر تجزیے کرتا ہے، جو کہ سرکس اور صرف پروپیگنڈا ہے“

اسکائی نیوز کا تجزیے میں کہنا تھا ”کرکٹر کے بعد سیاستدان بننے والے شخص کو ہیرو کی طرح پیار کیا جاتا ہے، جس کی قیادت میں 1992 کا ورلڈکپ جیتا تھا، ان کا بطور سیاستدان بھی احترام کیا جاتا ہے، جو انصاف کے حصول اور کرپشن کے خلاف لڑ رہے ہیں، عمران خان عوام کے لیے اقتدار کا مطالبہ کر رہے ہیں، ان پر فائرنگ کے واقعے کے بعد زیادہ لوگ یہی مطالبہ لے کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں، اس وقت ان میں زیادہ غصہ ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close