جنگل کا قانون

سعید نقوی

‘‘پروں کو میں اپنے سمیٹوں یا باندھوں … پروں کو میں اپنے سمیٹوں یا باندھوں ‘‘ اسی گنگناہٹ میں مگن وہ جنگل کے اندر دوڑتی چلی جا رہی تھی۔ کانٹوں سے دامن بچاتی، اِدھر ہریالی پہ منہ مارا۔۔ ۔ اُدھر پھولوں پہ چکھ ماری۔ جوانی کا عالم ایسا ہی اندھا ہوتا ہے۔ آج صبح تالاب میں اپنا روپ دیکھ کے وہ خود شرما سی گئی تھی۔ مورنیاں تو جنگل میں اور بھی کئی تھیں۔ لیکن اس پر جوبن ایسے ٹوٹ کر آیا تھا جیسے دلہن کو سنگھار کرنا آ گیا ہو۔ صراحی دار گردن، بھری بھری ٹانگیں، پر ایسے بڑے کہ ایک ایک پر پنکھا جھلنے کے کام آئے۔ ہر پر کے عین وسط میں ایسا خوب صورت رنگین دائرہ جیسے کسی ماہر نقّاش نے کاشی کاری کا مقابلہ جیتنا ہو۔ اس بھرپور جوانی پر نزاکت اور انداز، شوخی اور دل ربائی، قیامت کے آثار تھے۔ بہار کی آمد آمد تھی۔ جنگل کا کوئی حصہ خودرو جھاڑیوں اور درختوں سے آزاد نہیں تھا۔ درختوں سے آکاس بیلیں یوں لپٹیں تھیں گویا خون چوس کر ہی چھوڑیں گی۔ ایسے میں مشکل سے چار فٹ کا صاف ٹکڑا کیا نظر آیا۔ اس نے اپنے پر پھیلائے اور دیوانہ وار رقص کرنے لگی۔ جیسے پیا کی آمد اسی رقص سے متصل ہے۔ اپنے گرد و نواح میں منڈلاتے خطرات سے بے خبر، نوجوان رقص۔

تینوں لکڑ بھگوں نے جو اس کو محوِ رقص دیکھا تو درختوں کے پیچھے چھپنا ضروری جانا۔ وہ بہت دیر سے اس کا پیچھا کر رہے تھے اور مناسب موقع کی تلاش میں تھے۔ آنکھیں ہوس سے لال تھیں۔ ذہن کے دریچوں پر ممکنہ لذت نے تالے ڈال دیے تھے۔ اب وقت مناسب تھا۔ دور دور کہیں اور پانی کا نام و نشان نہیں تھا۔ قریب ترین جوہڑ بھی کم از کم سو چھلانگ دور تھا۔ شکار بند آنکھوں سے محوِ رقص تھا۔ ایسے میں شیطان سے زیادہ انتظار نہ ہو سکا اور تینوں لکڑبھگوں نے رقاصہ کے گرد رقص شروع کر دیا۔ دھیرے دھیرے دائرہ تنگ کرتے گئے۔ لکڑ بھگے شیر کو دیکھ چکے تھے کہ کیسے اپنے شکار کو ہوا میں اُچھالتا ہے، اس سے کھیلتا ہے، فوراً مار نہیں دیتا۔ آخر یہ شیروں کے کھیل ہیں۔ لکڑبھگے بھی اسی ہر اس سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے۔ ان کے قریب آنے سے مورنی کے اطراف کی خوشبو ہی بدل گئی۔ فضا میں اچانک خطرے کی بو رچ گئی۔ سہم کر مورنی نے ناچ روکا اور اطراف میں نگاہ ڈالی تو دنیا اندھیری ہو گئی۔ حالاں کہ اطراف کے درختوں سے چھن چھن کر سورج کی روشنی نے خاصا اجالا کیا ہوا تھا۔ لیکن آنے والے خطرے کے خوف نے اس کے ذہن کو تاریک کر دیا تھا۔ مورنی نے ہزار منتیں کیں، واسطے دیے، جنگل کے قانون کا حوالہ دیا، نتائج کا حوالہ دیا مگر لکڑبھگوں کے کانوں میں اس کی چیخیں سریلے نغموں کی مانند اُتریں۔ تین لکڑبھگوں کے سامنے اس کی مزاحمت کتنی دیر چلتی۔ ذرا سی دیر میں اس کے پر نچ چکے تھے، سر کا تاج اُتر گیا تھا۔ جسم میں جیسے درندگی اور زیادتی کا زہر دوڑنے لگا۔ لکڑبھگے اپنا گوہرِ مقصود پا کے باچھوں سے رس پونچھتے کب کے غائب ہو گئے۔ مورنی نے اپنے حواس جمع کیے۔ اطراف میں بکھرے پروں اور ننگے سر کو دیکھا تو اور مردنی سی ہو گئی۔ چال سے وہ اَلھڑپن جو کنواریوں کا خاصا ہے، گم ہو گیا۔ آہستہ آہستہ اس کا احساسِ زیاں غصے اور انتقام کے جذبے میں ڈھلنے لگا۔ جنگل کا آخر ایک قانون تھا۔ یوں دن دہاڑے اس سے آگے اس سے سوچا نہ گیا اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

اسی ادھیڑ بُن میں اُٹھی اور ایک نئے عزم کے ساتھ شیر کی مچان کی طرف چل پڑی۔ جوہڑ کے اس پار مست ہتھنی اپنے سونڈ میں پانی بھر بھر کر اپنے بچوں پر ڈالتی اور خود ایسے نہال ہوتی جیسے یہ ٹھنڈک اسے خود پہنچ رہی ہو۔ مورنی کی مردنی چال سے ہتھنی نے حالات کی سنگینی کا اندازہ کیا۔ پانی کا کھیل رک گیا۔ حالاں کہ مورنی کو دیکھ کے ہی ہتھنی نے سب معاملہ بھانپ لیا تھا۔ لیکن پھر بھی تفصیل سے مورنی کی بپتا سنی۔ ہتھنی کا جنگل میں مقام وہ تھا کہ لکڑ بھگے خود اس سے دور بھاگتے تھے۔ لیکن اکیلی ہتھنی ان تین نامرادوں کا مقابلہ نہ کر پاتی اور پھر مورنی کی عزتِ نفس کی بحالی اسی میں مضمر تھی کہ وہ خود قانون کا سہارا لے اور لکڑبھگوں کو قرار واقعی سزا دلوائے۔ ہتھنی کے ہمت بڑھانے سے مورنی نے جنگل کے شمالی خطے کا رخ کیا۔ شیر کی کچھار میں براہِ راست باریابی خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔ جنگل کا قانون اپنے ڈھب کے مطابق چلتا اور عموماً بندر ایسے مقدمے شیر کے حضور میں پیش کرتے۔ بندر عموماً جنگل کے شمالی خطوں میں بسیرا کرتے تھے۔ جہاں لومڑی، لکڑبھگے، بجو وغیرہ زیادہ تعداد میں پائے جاتے۔ زیادہ تر مقدمے ان ہی جانوروں کے اردگرد گھومتے۔ بندر جو اپنی عقل مندی کی بناء پر جنگل میں اعلیٰ طبقاتی مراعات کے حامل تھے، وہیں پائے جاتے۔ جہاں کاروبار میں گرمی کا رجحان ہو، مغربی خطے جہاں چیتے، ہاتھی اور شیر وغیرہ کا عمل دخل زیادہ تھا، عموماً بندروں کے کاروبار میں مندی رہتی۔ اس طبقاتی و معاشرتی فرقہ واریت نے ایک درمیانی حصہ بھی پیدا کیا تھا۔ وسط جنگل، جہاں مورنی، ہرن، نیولا اور نیل گائے وغیرہ کا بسیرا تھا۔ یوں تو وسط جنگل سب سے پُرسکون علاقہ تھا لیکن دونوں مغرب اور مشرق کے جانور اپنا اپنا شکار وسط جنگل سے ہی حاصل کرتے۔ صرف طریقۂ واردات اور سنگینیِ جرم مختلف ہوتی۔

مورنی کی قسمت کہ ایک قد آور بندر اسے شمالی جنگل کی بیرونی سرحد پر ہی مل گیا۔ بندر نے ایک نگاہ ڈالی اور معاملے کی بنیاد تک پہنچ گیا۔ بندر کا دل اس زیادتی سے خون ہو گیا۔ وہی مورنی جو کل تک اَلھڑپن اور معصومیت کا نمونہ تھی، آج معصیت کا تازیانہ۔ بندر اسی وقت مورنی کو ساتھ لے کر شیر کی مچان کی طرف چل پڑا۔ تمام راستے مورنی کو مقدمے کی اونچ نیچ سے آگاہ کیا۔ مورنی کے چلن اور بناؤ سنگھار کے بارے میں ممکنہ سوالات سے معاملے کی نئی راہیں سجھائیں۔ سوچ کی سمت اور حالات کے ممکنہ مدّو جزر نے مورنی کے انتقامی جذبے کی آگ پر کچھ پانی کا سا کام کیا لیکن اپنا عزم نہ چھوڑا۔

شیر کی مچان تک پہنچتے پہنچتے ایک چھوٹا سا قافلہ تیار ہو گیا تھا۔ ہتھنی، مورنی اور بندر کے علاوہ نیل گائے اور ایک ہرنی بھی ساتھ ہوئی۔ جو آج مورنی کے ساتھ ہوا ہے کل ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ سب کے ذہن میں ہی خدشہ سر اُٹھا رہا تھا۔ شیر نے آج دو زیبرے شکار کیے تھے۔ بھرے پیٹ کے ساتھ قیلولے کا مزہ کوئی ان سے پوچھے جو یہ عیاشی کر سکتے ہوں۔ قیامت سے کم کوئی شے شیر کو قیلولے سے نہیں نکال سکتی تھی اور مورنی کے ساتھ جو ہوا وہ شیر کے نزدیک دور دور تک قیامت نہ تھا۔ بندر کی تقریر، مورنی کی التجائیں سب کے جواب میں ایک غضب ناک دھاڑ، سب واویلے بند ہو گئے۔

چوں کہ معاملہ عجلت طلب ہے اس لیے ما بہ دولت اس مقدمے کی سماعت کے فرائض بوڑھے لومڑ پر چھوڑتے ہیں۔ وہ عاقل ہے اور تجربہ کار بھی ہے۔ یاد رہے اس کا فیصلہ ہمارا فیصلہ ہو گا اور ہمارا فیصلہ آخری ہوتا ہے۔ شیر کی دھاڑ نے باقی جانوروں کے اوسان خطا کر دیے۔ لکڑ بھگوں کو پیغام دو کہ حاضر ہوں۔ مقدمہ یہیں ہماری مچان کے باہر طے ہو گا۔ لومڑ ہمارا نمائندہ ہے لیکن ہمیں ہرگز تنگ نہ کیا جائے۔ جنگل کے بادشاہ نے اپنے تئیں سستا اور فوری انصاف مہیا کر دیا۔

تینوں لکڑ بھگے حاضر ہوئے۔ لومڑ نہایت متانت اور سنجیدگی سے اسی برگد کے نیچے ایک چبوترے پر بیٹھ گیا۔ چوڑے چکلے تنے کے دوسری طرف شیر قیلولہ کر رہا تھا۔ مورنی کا مقدمہ بندر نے نہایت موثر پیرائے میں پیش کیا۔ ہرنی اور نیل گائے اپنے آنسو روک نہ سکے جس پر لکڑبھگوں نے اعتراض کیا کہ اس سے غیر منصفانہ ماحول پیدا ہو رہا ہے اور جانوروں میں مورنی کے لیے ہم دردی کے جذبات اُبھر رہے ہیں۔ بندر کے سخت احتجاج کے باوجود لومڑ نے باقی جانوروں کو واپس جانے کی ہدایت کی اور باقی کار روائی گھنے درختوں کے پیچھے علاحدگی میں ہوئی۔

لکڑبھگوں نے اقبالِ جرم سے انکار کیا۔ سینکڑوں جانور ہیں، اسے کیا معلوم کہ وہ لکڑبھگے تھے۔ اگر اس نے دیکھا کہ لکڑبھگے تھے تو اس کا مطلب ہے اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور وہ خطرے کو دیکھ سکتی تھی۔ پھر بھاگی کیوں نہیں اور اگر مان لیں کہ لکڑبھگے تھے بھی تو کیسے پتا چلے کہ یہی تین تھے ؟ اور جنگل کے بیچ رقص کا کیا مقصد؟ یقیناً اس نے لکڑبھگوں کو آتے دیکھ کر آنکھیں موند لیں اور رقص شروع کر دیا تاکہ اپنی اندھی جوانی کا بندھن بھرسکے۔ توبہ۔۔ ۔ توبہ، ایسا کلیوگ۔ لکڑبھگوں نے پھر اپنے ثبوت میں شمالی جنگل کے مزید جانوروں کو پیش کیا۔ یہ جانور یہ تو نہ بتا سکے کہ واردات کے وقت لکڑبھگے کہاں تھے مگر انھوں نے مورنی کی چال ڈھال، اس کی آراستگی اور شوخی، کچھ ایسے بیان کی جیسے مورنی نہ ہو کسی کسبی کا ذکر ہو۔ پھر یہ کہ کوئی بھی شریف مورنی دن دھاڑے اکیلے وسط جنگل میں بھلا رقص کرے گی؟ یہ یقیناً دوسرے جانوروں کے خون میں اُبال لانے کے بہانے ہیں۔ ایسے میں ان جانوروں کا کیا دوش جن سے یہ حرکت سرزد ہوئی۔ لکڑبھگوں کے دلائل ایسے نپے تلے اور تنک تھے کہ فوراً ہرنی اور نیل گائے شبہے میں پڑ گئے کہ کون سچ کہہ رہا ہے ؟ ہتھنی کے تاثرات سے بالکل اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ اس کے دماغ میں کیا گھوم رہا ہے۔ مورنی بالکل سفید پڑ چکی تھی اور اگر بندر بڑھ کر سہارا نہ دیتا تو شاید وہ بے ہوش ہو جاتی۔

‘‘جنابِ عالی! ہم آپ کے پڑوسی ہیں۔ ساتھ کھاتے پیتے ہیں۔ ‘‘ لکڑبھگے، لومڑ کونہ جانے کیا پیغام دے رہے تھے۔ لومڑ کے چہرے پر اب تک گومگو کے تاثرات تھے۔ لیکن اس جملے نے مقدمے کا رخ لکڑبھگوں کے حق میں موڑ دیا۔ اس نے باری باری دونوں، بندر اور مورنی سے سوال کیا کہ اگر ان کے پاس کوئی چشم دید گواہ ہے تو پیش کریں۔ جنگل کے قانون کے حساب سے اس قسم کے مقدمات کی سزا ملزم کو شیر کی مچان میں ملتی تھی۔ چند چیخوں کے بعد معتوب جانور جنگل کے بادشاہ کی خوراک کا حصہ بن جاتا۔ لیکن سزا مشروط تھی۔۔ ۔ چار چشم دید گواہوں کے بیان پر!

‘‘جناب لومڑ صاحب! اس اندوہ ناک واقعے کے گواہ خود یہ تین لکڑبھگے ہیں اور چوتھی مورنی۔ ‘‘ بندر نے اپنی سی آخری کوشش کر ڈالی۔ ‘‘ تینوں لکڑبھگے اس واردات سے انکاری ہیں۔ اس صورتِ حال میں کوئی گواہ موجود نہیں۔ مزید یہ کہ شمالی جنگل کے جانوروں کے بیان کے مطابق مورنی کا چلن اشتباہ کا باعث ہے۔ ایسے میں یہ عدالت لکڑبھگوں کو با عزت بری کرتی ہے۔ ‘‘

پتا نہیں مورنی نے فیصلہ سنا بھی یا نہیں۔ وہ موجود تو ضرور تھی لیکن سماعت پر سے اس کا اعتبار اُٹھ گیا۔ وہ مڑی اور وسط جنگل میں اپنے قبیلے کی طرف چل پڑی۔ جانور یوں دونوں طرف چھٹ گئے جیسے اس سے چھو گئے تو مٹی ہو جائیں گے۔ مورنی ان کے درمیان سے یوں گزر گئی جیسے ایک صدائے خامشی سے اس نے سمندر کے بیچ اپنے لیے راستہ بنا لیا ہے۔ موروں کی رہائش وسط جنگل کے ایک پسماندہ علاقے میں تھی۔ موروں ہی کے پروں سے اکثر چھپّر تانے گئے تھے تاکہ بارش اور دھوپ کی شدت سے بچ سکیں۔ مورنی کو اس جگہ سے بہت محبت تھی۔ بچپن سے جوانی تک کا سفر یہیں طے ہوا تھا۔ موروں کے اس گروہ نے ہمیشہ اسے خطروں سے بچایا۔ وہ بھی ان کے دکھ درد کی ساتھی تھی۔ اسی میں اس کے خاندان کے دوسرے مور بھی شامل تھے۔ لیکن جنگل کے اس علاقے کی معاشرتی ترکیب کچھ یوں ہے کہ پیدائش کے بعد پورا گروہ ایک خاندان بن جاتا ہے۔

آج بھی یہی جگہ مورنی کی آس اور ٹھکانہ تھی۔ جیسے جیسے وہ جھنڈ کی طرف بڑھتی گئی، ایک خوف ناک سناٹے نے اس کا استقبال کیا۔ عموماً جھنڈ مورنیوں کی صداؤں سے گونج رہا ہوتا۔ جوان مورنیوں کا رقص، موروں کے کھیل، بچوں کی کل کاریاں، کوئی وقت ایسا نہ ہوتا کہ یہاں خاموشی کا قیام ہو۔ لیکن اسی جگہ پر آج قیامت کا سکوت تھا۔ جیسے جھنڈ بالکل خالی ہو اور پوری آبادی نقل مکانی کر گئی ہو۔ جھنڈ میں داخل ہونے سے کچھ پہلے، سب سے عمر رسیدہ مورنی اُچھل کر سامنے آ گئی۔ اسے دیکھ کر مورنی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ لیکن عمر رسیدہ مورنی نے کوئی دھیان نہ دیا بلکہ رُکھائی سے اسے اطلاع دی کہ اب جھنڈ میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ مورنی کو یوں لگا جیسے سناٹا اور گہرا ہو گیا ہو اور اس کی ذات میں اُتر آیا ہو۔ ‘‘ لیکن کیوں ؟‘‘ بہت کوشش سے اس نے مہین سی آواز نکالی۔

‘‘اب بلا تاج اور بغیر پر، تم ایک پر نچی پرندہ ہو، مورنی نہیں۔ یہاں رہو گی تو دیگر مورنیوں کے پر بھی جھڑ جائیں گے۔ ‘‘ رُکھائی سے جواب ملا۔

یہ زخم اس زخم سے زیادہ گہرا تھا جو وہ صبح کھا چکی تھی۔ اسے ایسا لگا جیسے ایک ہی دن میں اس کے ساتھ دوسری بار زیادتی ہوئی ہے اور اس دفعہ اپنوں کے ہاتھوں !

مورنی نے اپنا جسم چراتے ہوئے کہ کسی پوتر سے مس نہ ہو جائے مڑی اور تھکے قدموں اسی کنویں کا رخ کیا جس میں صبح اس نے اپنا عکس دیکھ کر’ ’پروں کو میں اپنے سمیٹوں یا باندھوں ؟‘‘ کا گیت الاپا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close