پاکستان اور چین کے مابین براہ راست چینی کرنسی میں تجارت کے حالیہ معاہدے کے بعد معاشی ماہرین امید ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ ڈالر کی مانگ اور قیمت دونوں میں کمی کا باعث بن سکتا ہے
تاہم کچھ ماہرین نے اس معاہدے کو پاکستانی قیادت کے حالیہ چین کے دورے سے منسوب کرتے ہوئے محض سیاسی بیان قرار دیا ہے
حال ہی میں قسٹیٹ بینک آف پاکستان اور چین کے مرکزی بینک پیپلز بینک آف چائنا نے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت چین کی سرکاری کرنسی یوآن میں کرنے کا معاہدہ کیا
معاہدے پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد اور بینک آف چائنا کے گورنر یی گینگ نے دستخط کیے
معاہدے کے بعد اسٹیٹ بینک نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان تجارت یوآن میں کرنے کے لیے کلیئرنگ کے انتظامات جلد کیے جائیں گے
اس معاہدے کے بعد پاکستان کے درآمد کنندگان چینی کمپنیوں کو امریکی ڈالر کے علاوہ چینی کرنسی آر بی ایم میں بھی ادائیگی کرسکیں گے
مالیاتی ماہر اور کرنسی ڈیلرز کی تنظیم پاکستان کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک بوستان کے مطابق اس معاہدے کے بعد امریکی ڈالر کی مانگ میں واضح کمی آئے گی اور روپے کی قیمت بہتر اور ڈالر کی قیمت میں کمی ہوگی
ملک بوستان نے کہا ’پاکستان کی چین کے ساتھ اٹھارہ ارب امریکی ڈالر کے برابر کی سالانہ تجارت ہے۔ اگر یہی رقم ڈالر کی بجائے چینی کرنسی میں ہو تو بھی بڑا فرق پڑے گا۔ اس معاہدے کے بعد ڈالر کی قیمت نیچے آسکتی ہے
’اس کے علاوہ ہم جو سالانہ درآمدات کے لیے امریکی ڈالر ادا کرتے ہیں، اس معاہدے کے بعد پاکستان کے امپورٹ بل میں ستر ارب ڈالر کا فرق آئے گا
’ڈالر کے لیے جو اکثر جا کر منتیں کرنا پڑتی تھیں جو نہیں کرنی پڑیں گی۔ اس کے علاوہ ساری دنیا میں مقامی کرنسیوں میں تجارت کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ تو ایسے میں اگر ہم بھی کر رہے ہیں تو کیا برا ہے؟‘
ملک بوستان کے مطابق ترکی، روس اور دیگر ممالک مل کر ڈالر کی بجائے دیگر کرنسی میں تجارت پر سوچ رہے ہیں
’ایسے میں اگر پاکستان خطے کے دیگر ممالک بشمول ایران، چین اور افغانستان کے ساتھ مل کر مقامی کرنسی میں تجارت کرے تو معشیت پر بڑا اثر پڑ سکتا ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا معاہدے کے بعد پاکستان امریکی بلاک کی بجائے سرکاری طور چینی بلاک میں شامل ہوجائے گا؟
ملک بوستان نے اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’نہیں ایسا بالکل بھی نہیں۔ تجارت کے لیے کرنسی تبدیل کرنے سے کوئی بلاک تبدیل نہیں ہوتا۔
’چین ایک معاشی طاقت ہے۔ امریکہ اور چین میں کئی معاملات پر اختلافات کے باوجود دونوں میں تجارت بڑھ رہی ہے۔ سرحد پر جھڑپوں کے باوجود انڈیا اور چین کے تجارت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔‘
قائداعظم یونیورسٹی کی سائنس فیکلٹی کی سابق ڈین، اکنامکس کی ریٹائرڈ پروفیسر اور نامور تجزیہ نگار ڈاکٹر عالیہ ہاشمی خان کہتی ہیں ’یہ کہنا کہ ڈالر کی بجائے چینی کرنسی میں تجارت کرنے سے پاکستان معشیت میں بڑی مثبت تبدیلی آجائے گی، یہ ایک سیاسی بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔
’یہ حالیہ دنوں میں وزیراعظم اور وفاقی وزرا کے دورہٗ چین کے بعد ایسا اعلان کیا گیا۔ بصورت دیگر اس سے معشیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘
ان کے خیال میں اگر یہ سمجھا جائے کہ ڈالر کی بجائے چینی کرنسی میں تجارت سے ہماری ایکسپورٹ بڑھتی ہوئی نظر آئے گی، تو ایسا نہیں ہو سکتا، اس کے لیے دیگر مالیاتی اقدامات کرنے ہوں گے۔
‘اس کے علاوہ عالمی کرنسیوں ڈالر اور یورو کے مقابلے میں چینی کرنسی تاحال تو عالمی کرنسی نہیں بنی ہے۔
’اگر ایسا ہوتا تو دنیا کے دیگر ممالک بھی ڈالر کے بجائے اپنی تجارت چینی کرنسی میں کرنا پسند کرتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔‘