پاکستان میں ماحولیاتی تنزلی سے ترقی کا عمل سست روی کا شکار ہوا ہے اور ساتھ ہی ساتھ معیارِ زندگی میں بھی کمی آئی ہے۔ خصوصاً صنعتی اور شہری آلودگی سے صحت، معیار زندگی اور معاشی پیداوار کو خطرہ لاحق ہے
ملک میں اس وقت ہوائی آلودگی اور پانی کی کوالٹی، قدرتی وسائل میں کمی، جنگلات میں کمی اور مٹی کی کوالٹی میں کمی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت مزید سنگین ہو جاتا ہے، جب ملک کا شمار ان ممالک میں ہو، جو موسمی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں
ورلڈبینک کی رپورٹ کے مطابق 2030ع تک پاکستان میں پچاس فی صد آبادی شہری علاقوں میں ہوگی۔ چلیں یہ تو آٹھ سال بعد کی بات ہے، لیکن اب بھی دیہی علاقوں سے لوگوں کے شہری علاقوں کی جانب رخ کرنے سے ماحولیاتی تنزلی کے پیٹرن میں تبدیلی بھی آئی ہے اور یہ پھیل بھی رہی ہے
اس وقت پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں فضائی آلودگی بہت زیادہ ہے اور خاص طور پر ان شہروں میں فضائی آلودگی کی صورتِ حال بہت زیادہ سنگین ہے، جہاں معاشی سرگرمیاں بھی ہو رہی ہیں۔ اب لاہور ہی کو لے لیجیے، جہاں عالمی ادارہِ صحت کی تجویز کردہ حد سے بھی کئی گنا زیادہ آلودگی ہے
اسی طرح ملک میں پانی کے استعمال کا حال ہے۔ ملک میں نوے فی صد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے لیکن آبپاشی کے ناقص نظام اور ضرورت سے زیادہ پانی کے استعمال کے ساتھ ساتھ ایسی فصلیں لگائی جارہی ہیں، جن میں پانی زیادہ درکار ہوتا ہے جبکہ کئی فصلیں اتنی ہی منافع بخش یا اس سے زیادہ منافع بخش ہیں
’کلائمیٹ رسک کنٹری پروفائل‘ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو دنیا میں سب سے زیادہ آفات کا سامنا ہے اور اسی لیے 191 ممالک میں رسک کے حساب سے پاکستان اٹھارہویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کو سیلابوں کا بھی سامنا ہے اور سیلابوں کے حوالے سے اس کا نمبر آٹھواں ہے جبکہ خشک سالی میں پاکستان کا نمبر تینتالیسواں ہے
نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ کے مطابق 1994ع سے لے کر 2013ع تک موسمی واقعات کے باعث سالانہ تین اعشاریہ نو ارب ڈالر معاشی نقصان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ قدرتی آفات سے سالانہ تیس لاکھ افراد متاثر ہوتے ہیں جن میں سے 77 فی صد سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں
خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کو بھی موسمی تبدیلی کا ادراک ہو گیا ہے کہ موسمی تبدیلی پر بحث قومی سطح پر کی جا رہی ہے۔ 2015ع میں گیلپ سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ صرف ایک تہائی لوگوں کا خیال ہے کہ موسمی تبدیلی کے حوالے سے فوری اقدامات لینے ضروری ہیں، تاہم دو سال بعد جب 2017ع میں سروے کیا گیا تو پچاس فی صد لوگوں نے کہا کہ انہیں موسمی تبدیلی کے حوالے سے تشویش ہے
عالمی انسٹیٹیوٹ کے مطابق موسمی تبدیلی سے ہر معاشرہ، ہر کمپنی اور ہر فرد متاثر ہو گا۔ 2050ع تک دنیا کی آبادی دس ارب تک پہنچ جائے گی اور اس لیے ضروری ہے کہ موسمی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں
دنیا میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔ چند دہائیوں قبل جس دنیا میں ہم رہ رہے تھے اس وقت ہم اس سے کافی مختلف دنیا میں رہ رہے ہیں۔ موسمی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہونے میں سالوں لگ جاتے ہیں اور ایک بار جب یہ اثرات نمایاں ہونے شروع ہو جائیں تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ دیر ہو چکی ہے
ماحولیات پر تحقیق کرنے والے پروفیسر ڈین بلسٹین کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی بوتل کے جن کی مانند ہے کہ ایک بار باہر آ گیا تو اسے واپس بوتل میں نہیں ڈالا جا سکتا
ان کا کہنا ہے کہ اگر آج ہی سے پوری دنیا میں کاربن کے اخراج کو مکمل طور پر بند کر دیا جائے تب بھی جو کاربن پہلے ہی ہمارے ماحول میں ہے، اس کے اثرات کافی سالوں تک رہیں گے
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس وقت زیادہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس ٹیکنالوجی بھی ہے اور سائنس بھی۔ مسئلہ سائنس کے نہ ہونے کا نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قوت ارادی کی کمی ہے
پاکستان کے پاس آپشن ہے کہ آیا وہ اپنے وجود میں آنے کے سو سال بعد موسمی تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے ماحول دوست اقدامات اٹھا کر ایک معاشی کامیابی کی مثال بننا چاہتا ہے
پاکستان کو ترقی کی ضرورت ہے لیکن یہ ترقی ماحول دوست، وسائل کا دانشمندانہ استعمال اور موسمی تبدیلی کا سامنا کرنے کی قوت رکھتی ہو۔ ہر تبدیلی کی قیمت ہوتی ہے اور سب سے اہم یہ ہے کہ نظام میں درستگی اس طرح لائی جائے کہ سماجی مسائل پیدا نہ ہوں اور عدم استحکام جنم نہ لے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)