وزیر آباد واقعے پر کچھ اہم عوامی سوالات، جن کے جواب ملنا ضروری ہیں۔۔

ویب ڈیسک

3 نومبر کو پنجاب کے علاقے وزیرآباد میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کے واقعے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایسے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، جن کے بارے میں صارفین کا کہنا ہے کہ ان سوالوں کو اگر شامل تفتیش کیا جائے تو حملے کے ذمہ داروں تک پہنچا جا سکتا ہے

واقعے کی مختلف ویڈیوز سامنے آنے کے بعد پولیس کے مطابق اب تک تین افراد گرفتار کر لیے گئے ہیں

وڈیوز میں نظر آنے والے ایک شخص کی گرفتاری کے فوری بعد سوشل میڈیا اور سرکاری ٹیلی وژن پاکستان ٹیلی ویژن پر ان کی وڈیوز بھی دکھائی گئیں، جس نے مزید سوالات کو جنم دیا ہے

عوامی تجزیوں، مشاہدات، اور سوالات کے پس منظر میں نہ صرف سوشل میڈیا صارفین بلکہ واقعے کے عینی شاہدین اور سربراہ تحریک انصاف عمران خان کا بھی کہنا ہےکہ فائرنگ مختلف اطراف اور مختلف ہتھیاروں سے ہوئی ہے

لانگ مارچ کے ڈی جے حمزہ نے ایک وڈیو پیغام میں کہا ’جس کو میں نے دیکھا، اس کے پاس بڑی گن تھی، اور وہ اونچائی پر کھڑا تھا، جبکہ وڈیو میں نظر آنے والے شخص کے پاس پستول ہے اور اس کو میں نے نہیں دیکھا‘

صحافی فصیح احمد نے بھی واقعے کی شام اپنے ٹوئٹر پر لکھا ”میں اپنی گاڑی میں عمران خان کے کنٹینر کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا۔ جب فائرنگ ہوئی تو میرے ڈرائیور نے قریبی ایک پلازہ کی دوسری منزل سے کنٹینر کی جانب تواتر سے گولیاں چلتے ہوئے دیکھیں‘

تین نومبر کے واقعے کے حوالے سے ٹوئٹر اور فیسبک لوگ مختلف سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ٹویٹر صارف ’پشتون اونلی‘ لکھتے ہیں ”اسٹیل کو صرف اعشاریہ پانچ صفر سنائپر سے ہی چیرا جا سکتا ہے جو کہ اسٹیل کو چیرنے کے بعد کئی ذروں میں بٹ گیا، یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو پیروں میں کئی زخم آئے۔ دوسری جانب، AK47 یا گلوک ایم ایم اسٹیل میں سوراخ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے“

ایک اور صارف نے لکھا ”گلوک پستول والا شخص محض توجہ ہٹانے کے لیے تھا، بندوق سے فائرنگ کرنے والا خوف وہراس پھیلانا چاہ رہا تھا، جبکہ سنائپر والا شخص حقیقی نشانے کے لیے بیٹھا تھا، تاہم ناکام ہوا“

مہوش قماس خان لکھتی ہیں ”قاتل نے بیان دینے سے پہلے خود کو ایسا ظاہر کیا کہ اس نے صحیح مار کھائی ہے، لیکن چھ کے چھ بٹن صحیح سلامت ہیں، ایک بٹن بھی نہیں ٹوٹا، اور بٹن آرام سے کھل بھی گئے ہیں“

اسی طرح سوشل میڈیا صارفین نے ہی ایک اور سوال چھی اٹھایا ”پولیس نے ابھی تک حملہ آور سے نہیں پوچھا کہ اس نے پانچ لاکھ روپے کی مالیت کا پستول کہاں سے لیا؟ اس کی گولیاں کہاں سے آئیں، اس نے پستول چلانا کہاں سے سیکھا؟ تفتیش کے سب سے اہم سوال تو یہ ہیں“

واضح رہے کہ ملزم نوید مہر کے ہمسایوں کے مطابق، وہ تنگ دستی کی زندگی گزارنے والا شخص تھا اور کچھ عرصہ قبل ننھیال سے قرض پیسے لے کر سعودی عرب مزدوری کے لیے گیا تھا، لیکن ناکام لوٹ آیا

ایک اور صارف نے لکھا ”وزیر آباد کےضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) نے تصدیق کرلی ہے کہ جائے وقوعہ سے نہ صرف پستول بلکہ ’ایس ایم جی‘ کے خول برآمد ہوئے ہیں۔ اب تو واضح ہوگیا ہے کہ ایک نہیں مختلف مقامات سے تاک کر نشانہ لیا گیا“

ایک صارف ماہ نور نے ٹوئٹر پر لکھا ”ایک قاتل، جس کا بیان کچھ ہی منٹ بعد لیا گیا، اس کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ عمران خان بچ گئے ہیں“

سوشل میڈیا صارفین نے ایک مبینہ حملہ آور کی گرفتاری کے فوراً بعد اس کی وڈیو بنانے اور شئیر کرنے کو بھی تنقیدی نگاہ سے دیکھا اور کہا ”ایک ہائی پروفائل کیس کے ملزم کی وڈیو اس قدر جلدی کیوں سامنے لائی گئی، حالانکہ عام حالات میں ایسے ملزموں کو میڈیا سے دور رکھا جاتا ہے“

صارفین نے سوال اٹھایا کہ ”کیا ایسے ملزم کی وڈیو منظر عام پر لانا غیر پیشہ ورانہ نہیں ہے؟ یہ کیس کو خراب کرنے کے مترادف ہے۔ اس قدر حساس معلومات کون جاری کر رہا ہے، کیا یہ پنجاب پولیس کررہی ہے یا کوئی اور؟“

وزیرآباد واقعے پر ملزم کی پہلی وڈیو منظرعام پر آنے پر سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے مختلف سوالات سامنے آنے کے بعد ملزم کی ایک اور وڈیو بھی سامنے لائی گئی، جس میں وہ مزید وضاحت کرتا ہے کہ دراصل ”تمام گولیاں اس نے چلائی تھیں، جن کے جواب میں عمران خان کے گارڈز نے بھی فائرنگ کی“

اس وڈیو کے بعد مزید سوالات نے جنم لیا کہ ایک ہائی پروفائل کیس کے ملزم کی مسلسل وڈیوز کون اور کیوں بنوا رہا ہے، جبکہ عام حالات میں ایسے ملزموں کے چہرے پر کالا نقاب چڑھا دیا جاتا ہے

کالم نگار شمع جونیجو نے دوسری وڈیو پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ”مجھے سمجھ نہیں آتی، جب پہلی وڈیو کے بعد متعلقہ پولیس اسٹیشن کو معطل کر دیا گیا، تو پھر کون اب بھی یہ بیانات فلم بند کروا رہا ہے اور میڈیا میں جاری کروا رہا ہے؟“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close