بنگلہ دیش کے جنوب مغربی نشیبی ڈیلٹا کے مقامی کسان محمد مصطفیٰ کی کوشش ہے کہ وہ تیرتے ہوئے کھیتوں میں فصلیں اگانے کے اپنے آباؤ اجداد کے کاشتکاری کے طریقے کو زندہ رکھ سکیں
محمد مصطفیٰ یہ سب ایک ایسے ملک میں کر رہے ہیں، جہاں سمندر مسلسل زمین نگل رہا ہے اور ہر سال سیلاب سے فصلوں کو خطرہ رہتا ہے
زمین پر طویل مدت سے کھڑا پانی ان کاشتکار خاندانوں کے لیے خطرہ بڑھا رہا ہے لیکن اب زیادہ تر کسان کھیرے، مولیوں، کدو، پپیتے اور ٹماٹر سمیت مختلف سبزیاں اور پھل اگانے کے لیے تیرتے ہوئے پلیٹ فارمز کو استعمال کر رہے ہیں
سنبل کے تنوں سے بنے یہ بیڑے ایک ایسے وقت مون سون کے بڑھتے ہوئے اسپیلز کے دوران ان خاندانوں کے لیے لائف لائن فراہم کر رہے ہیں، جب خشک زمین خاص طور پر کم پڑ رہی ہو
محمد مصطفیٰ کہتے ہیں ”جب میں چھوٹا تھا یہ علاقہ خشک ہوا کرتا تھا، ہم کھیتوں میں کھیلتے تھے اور چاول اگاتے تھے۔۔ لیکن سمندر اور دریاؤں میں پانی کی سطح بڑھنے سے یہاں پانی جمع ہونا شروع ہو گیا، اس لیے ہم مزید فصلیں نہیں کاشت کر سکتے۔ میں پچھلے پانچ سالوں سے ان تیرتے پلیٹ فارمز پر مختلف سبزیوں کی فصل اُگا رہا ہوں“
یہ دو سو سال پرانی تکنیک ہے، جس کو ابتدائی طور پر اس خطے کے کسانوں نے سیلاب کے موسم میں اپنایا تھا، جو ہر سال تقریباً پانچ ماہ تک جاری رہتا تھا۔ لیکن آج کل یہ علاقہ آٹھ، دس ماہ تک زیر آب رہتا ہے اور مزید زمین پانی کی زد میں آ رہی ہے
نذیر پور قصبے کے ایک سرکاری عہدیدار بتاتے ہیں ”تیرتے کھیت اب 120 ہیکٹر رقبے تک پہنچ چکے ہیں جو کہ پانچ سال پہلے صرف 80 ہیکٹر پر ہی محیط تھے“
یہ خبر بھی پڑھیں:
دریائی کٹاؤ نے کشتیوں پر بسا دیا، بنگلہ دیش کے ’مانتا لوگ‘ کی کہانی
دریا کے بہتے پانی کے کٹاؤ کے نتیجے میں شاہدہ بیگم کا گھرانا اپنی زمینیں پانی کے ہاتھوں کھو چکا ہے، اس بات کو اتنا عرصہ گزر چکا ہے کہ اب تو اس کنبے کے کسی فرد کو یہ یاد بھی نہیں رہا کہ وہ کبھی خشک زمین پر رہا کرتے تھے، اب تو پانی پر بہتی کشتیاں ہی …
زراعت کا یہ طریقہ کار، جو اب تقریباً چھ ہزار کسانوں کو راغب کر چکا ہے، دلدلی زمین کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی سمندر کی سطح کو مسلسل بلند اور مون سون کو متاثر کر رہی ہے
واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی ساڑھے سولہ کروڑ آبادی کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ ساحلی علاقے میں رہتا ہے
نشیبی بنگلہ دیش کو سب سے زیادہ موسمیاتی خطرے سے دوچار ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ طوفانوں، سیلابوں اور کٹاؤ کی وجہ سے مسلسل زیر آب آ رہا ہے
گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس 2021 کے مطابق 2000 اور 2019 کے درمیان بنگلہ دیش موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں ساتویں نمبر پر تھا
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی 2019ع کی رپورٹ کے مطابق بڑھتی ہوئی سطح سمندر اور ساحلی کٹاؤ کی وجہ سے بنگلہ دیش 2050 تک اپنی زمین کا 17 فیصد اور خوراک کی پیداوار کا 30 فیصد کھو سکتا ہے
محمد مصطفیٰ کا کہنا ہے ”کاشتکاری کے اس طریقہ کی بدولت وہ اب مدد مانگے بغیر اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے قابل ہیں لیکن کاشتکاری میں لاگت بڑھنے سے منافعے کا مارجن کم ہو رہا ہے“
رواں سال مصطفیٰ نے تقریباً ساڑھے چار ہزار ٹکا تقریباً 1.2 ٹن وزنی سنبل کے تنے خریدنے پر خرچ کیے، تاکہ سال کے لیے نئے تیرتے ہوئے بیڑے بنائے جائیں۔ پچھلے سال اتنے ہی وزن کے تنوں کی قیمت صرف ایک ہزار ٹکا تھی
کسانوں نے بتایا کہ یہ بیڑے، جن کو بنانے میں دو مہینے لگتے ہیں، عام طور پر تقریباً چھ میٹر لمبے اور ایک میٹر چوڑے ہوتے ہیں لیکن ان کی لمبائی اس سے کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ انہیں ہر فصل کی کٹائی کے بعد تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے
تیرتے کھیتوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی ہے کہ مقامی حکام کے مطابق وہ اب کسانوں کے لیے مدد کی پیشکش کر رہے ہیں تاکہ وہ اچھی پیداوار کو یقینی بنانے کے لیے معیاری پودے اگائیں۔