ذیابیطس کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ہمالوگ میڈیکل انسولین بنانے والی کمپنی ’ایلی للی‘ نے پاکستان سے اپنا کاروبار بند کرنے کا فیصلہ کر لیا، تاہم ڈسٹری بیوٹر کے ذریعے مریضوں کو ادویات کی دستیابی جاری رہے گی
امریکی کمپنی ’ایلی للی‘ ایسے وقت میں اپنا کاروبار پاکستان سے بند کر رہے ہیں، جب پاکستان میں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے دیگر فارماسیوٹیکل کمپنیاں نقصان ہونے جا دعویٰ کر رہی ہیں
امریکی کمپنی کی جانب سےڈاکٹروں کو لکھے خط میں کہنا تھا کہ وہ 9 نومبر سے پاکستان میں پروموشنل کوشش بند کر رہے ہیں
خط میں مزید بتایا گیا کہ ہم ان مریضوں کی مدد کرتے رہیں گے، جنہیں ہماری ادویات کی ضرورت ہے تاہم للی ولی کی مصنوعات ڈسٹری بیوٹر کے ذریعے پاکستان میں پہنچائی جائیں گیں
پاکستان میں ملٹی نیشنل فارما سیوٹیکل کی نمائندگی کرنے والا ادارہ فارما بیورو کے ایگزیکٹو ڈائیریکٹر عائشہ تمی حق نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمپنی کی نئی مصنوعات مستقبل میں پاکستان کو مریضوں کے لیے دستیاب نہیں ہوں گی
انہوں نے بتایا کہ کمپنی انسولین بنانے کا کام کرتی ہے جس کا مطلب ہے کہ ذیابطیس کے مریض معیاری ادویات سے محروم ہو جائیں گے
ان کا کہنا تھا کہ دو دہائی قبل اڑتالیس میں سے بائیس ملٹی نیشنل فارما کمپنیوں نے اپنا کاروبار پاکستان میں بند کر لیا ہے ، جبکہ مزید ایک یا دو کمپنیاں ملک سے اپنا کاروبار بند کرنے کا سوچ رہی ہیں کیونکہ ان کمپنیوں کے لیے پیداواری قیمت سے کم قیمت پر معیاری ادویات فروخت کرنا مشکل ہو گیا ہے
عائشہ حق کے مطابق، انہیں یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت مریضوں کو معیاری ادویات فراہم کرنے سے کیوں منع کر رہی ہے
انہوں نے سری لنکا کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب سری لنکا میں ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر 370 تک گر چکی تھی تو حکومت نے ملک میں شہریوں کو ادویات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ادویات کی قیمتوں میں چالیس فی صد اضافہ کر لیا تھا
عائشہ حق کا کہنا تھا کہ اس کے مقابلے پاکستان میں روپے کی قدر میں نمایاں کمی اور مہنگائی تیس فی صد تک پہنچے کے باوجود ملک میں ادویات کی قیمتوں میں ردبدل نہیں کیا گیا، حکومت کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کمپنیاں ملک چھوڑنے کے بجائے ادویات کی فروخت جاری رکھیں
انہوں نے مزید بتایا کہ ملک میں ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے اور مناسب حکمت عملی طے کرنے کے لیے فارما بیورو اور پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچر ایسوسی ایشن نے حکومت کو کئی بار خط لکھے ہیں۔