حال ہی میں امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ادارے ’ٹیک وومن‘ کے زیر اہتمام منعقدہ دنیا کے اکیس ملکوں کے لیے خواتین ایکسچینج پروگرام میں پاکستانی ٹیم نے ٹاپ فائیو ٹیموں میں جگہ بنائی ہے
اس پریزنٹیشن میں پانچ پاکستانی خواتین کی ٹیم کی نمائندگی ملک کی پہلی خاتون ڈرلنگ انجینیئر صدف شاہ نے کی
انہوں نے بتایا ”ٹیک وومن کے بین الاقوامی فورم پر جب پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اور اس کا حل پیش کرنے کا موقع ملا تو ہم نے سوچا کہ یہ بہت اچھا وقت ہے کہ ہم ماحولیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کو ہونے والے نقصان پر اپنی پریزنٹیشن پیش کر کے دنیا کو اس مسئلے سے آگاہ کریں۔ ہماری پریزنٹیشن کو دنیا کے اکیس ممالک میں ٹاپ فائیو میں رکھا گیا۔ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا“
اس ٹیم میں شامل ایک اور گروپ ممبر پروفیسر ڈاکٹر عمارہ ڈار کہتی ہیں ”ہم حال ہی میں سیلاب کی بدترین تباہ کاریاں دیکھ چکے تھے۔ ایکسچینج پروگرام کے دوران ہمیں لگا کہ اس وقت دنیا کے سامنے لانا چاہیے کہ ماحولیاتی انصاف کا فنڈ پاکستان کا حق ہے۔ ہماری پریزنٹیشن سے شاید اس مہم میں مدد ملے۔ پاکستان کا ماحولیات کی تباہی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے مگر اس کا ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں“
ٹیم پاکستان کی ایک اور ممبر شہناز ذکیہ کا کہنا تھا ”پاکستان میں دنیا کے سب سے زیادہ گلیشیئر ہیں۔ عالمی موسمی تبدیلی کے سبب سے یہ گلیشیئر خطرے کا شکار ہیں جبکہ ان گلیشیئر کا فائدہ پاکستان ہی کو نہیں بلکہ پورے خطے کو ہوتا ہے، اس لیے اُنہوں نے دنیا کے سامنے یہ منظر نامہ لانا تھا“
ٹیم کی ایک اور رکن سیدہ رملہ حسن کہتی ہیں ”ہماری پریزنٹیشن کو وہاں پر ماہرین نے بہت سراہا۔ اس کے بارے میں کہا گیا کہ صحیح وقت پر صحیح مسئلے کی نہ صرف نشاندہی ہوئی ہے بلکہ اس کا مناسب اور ٹھوس حل بھی پیش کیا گیا۔“
انہوں نے بتایا ”ٹیم پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ابتدائی فنڈز فراہم کیے گئے ہیں۔ اب ہم اس پر مل کر کام کریں گے“
واضح رہے کہ ’ٹیک وومن‘ امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے شعبہ تعلیم اور کلچر کا پروگرام ہے اور اسے سنہ 1961ع کے باہمی تعلیمی اور ثقافتی تبادلے کے ایکٹ کے ذریعے لازمی قرار دیا گیا ہے
اس پروگرام میں تعلیمی اور ثقافتی مشن کے تبادلے کیے جاتے ہیں اور کم نمائندگی والے گروہوں، بشمول خواتین، نسلی اور نسلی اقلیتوں اور معذور افراد کے امریکی اور بین الاقوامی شرکا کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے
اس پروگرام کے تحت فنکار، ماہرین تعلیم، کھلاڑی، طلبا، نوجوان اور امریکہ اور دنیا بھر کے ایک سو ساٹھ سے زیادہ ممالک میں ابھرتے ہوئے رہنما تعلیمی، ثقافتی، کھیلوں اور پیشہ ورانہ تبادلوں میں حصہ لیتے ہیں
اس کے مقاصد میں عالمی شہریوں کے نیٹ ورکس بنانا اور، عالمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے شراکت داری کا فائدہ اٹھانا، ابھرتے ہوئے رہنماؤں میں سرمایہ کاری کرنا، تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت تک رسائی کو بڑھانا ہے
اس کے مختلف پراجیکٹ ہوتے ہیں۔ حالیہ پراجیکٹ میں ایک سو آٹھ خواتین منتخب ہوئی تھیں، جن میں سے ایک سو چار شریک ہوئیں۔ مجموعی طور پر تین ہزار دو سو درخواستیں کی گئیں تھیں۔ پاکستان میں سے دو ہزار خواتین میں سے چھے خواتین کو منتخب کیا گیا تھا
منتخب ہونے والی خواتین، نہ صرف اپنے پیشے میں اعلیٰ کارگردگی کی حامل ہیں، بلکہ ان کی سماجی خدمات کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے
پروفسیر ڈاکٹر عمارہ ڈار پنجاب یونیورسٹی خدمات انجام دیتی ہیں۔ انعم صادق کمپیوٹر سائنس، ڈجیٹل میڈیا اور فوڈ سائنس، صدف شاہ ڈرلنگ انجینیئر، شہناز ذکیہ پاکستان میوزیم آف نیچرل ہسٹری سے منسلک ہیں، جبکہ ان کو گلگت بلتستان کی پہلی زرعی افسر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ سیدہ رملہ حسن اور صدف گل انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر کے شعبے سے منسلک ہیں اور اس وقت اپنی کمپنیاں چلا رہی ہیں
صدف گل کہتی ہیں ”زندگی کی دوڑ میں اپنا مقام بنانا کبھی بھی آسان نہیں تھا۔ ایک وقت تھا کہ میں دن میں تین تین ملازمتیں کرتی تھی، تب جا کر آج اپنی کمپنی بنا پائی ہوں“
صدف گل بنیادی طور پر گرافک ڈیزائن کی ماہر ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ”میں نے اپنے کریئر کا آغاز تعلیم کے ساتھ ہی شروع کر دیا تھا۔ کوئی مجھ سے پوچھے کہ کتنا کام کیا تو میں یہ نہیں بتا سکتی کہ میں نے کتنے گھنٹے کام کیا، میں شاید سونا بھی بھول گئی تھی“
ان کا کہنا ہے ”میں نے چند سال قبل تین تین ملازمتیں بھی کی ہیں اور اس کے ساتھ فری لانسنگ بھی کرتی تھی۔ پھر میرا فری لانسنگ کا کام چل پڑا مجھے بڑے بڑے پراجیکٹ ملنے لگے تو میں نے ملازمت چھوڑ دی اور فری لانسنگ پر توجہ دی۔ فری لانسنگ کا کام زیادہ ہوا تو اپنی کمپنی بنا لی ہے۔ اب میری کمپنی میں کئی لوگوں کو روزگار حاصل ہے“
سیدہ رملہ حسین بتاتی ہیں ”میں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز سماجی کاموں سے کیا تھا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد میں نے مختلف ملکی اور بین الاقوامی اداروں میں کام کیا اور پچیس سال کی عمر میں بین الاقوامی ادارے کی پاکستان سی ای او کے فرائض انجام دیے“
انہوں نے کہا ”میرا مقصد تھا کہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کاروبار کو ساتھ لے کر چلوں مگر مجھے کہا جاتا تھا کہ میں سافٹ ویئر انجینیئر ہوں تو مجھے اس شعبے میں کام کرنا چاہیے۔ مگر جب مواقع ملے تو میں نے ثابت کیا اور اپنی کمپنی چلا رہی ہوں“
پروفسیر ڈاکٹر عمارہ ڈار کا تعلق مڈل کلاس گھرانے سے ہے اور وہ چھے بہن بھائی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہوئے عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ لڑکیوں کی جلد شادی کر دو مگر میری امی نے ہم چاروں بہنوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہت اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم چاروں بہنیں اس وقت پیشہ ورانہ زندگی سے منسلک ہیں“
شہناز زکیہ بتاتی ہیں ”میرا تعلق اسکردو کے ایک مڈل کلاس گھرانے سے ہے۔ ہم بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت کے لیئے والد اور والدہ دونوں کام کرتے تھے۔ میرے والد اور والدہ الگ الگ کاروبار کرتے تھے۔ اس طرح وہ ہم بہن بھائیوں کے تعلیم کے اخراجات پورے کرتے جس کے نتیجے میں آج ہم سب بہن بھائی اعلیٰ مقام پر موجود ہیں“
وہ کہتی ہیں ”انٹرمیڈیٹ کے بعد میں نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں داخلہ لیا۔ میرے والدین کے لیے مجھے اسکردو سے فیصل آباد بھجنا بہت مشکل کام تھا مگر انیوں نے میرے مستقبل کی خاطر یہ بھی کیا“
شہناز زکیہ کہتی ہیں ”میں یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد امتحان کے ذریعے گلگت بلتستان کی پہلی زرعی افسر بنی۔ اس سے پہلے یہاں کوئی بھی خاتون زرعی افسر نہیں تھی۔ شروع میں مشکلات ہوئیں مگر پھر سب ٹھیک ہو گیا“
ان کا کہنا ہے ”شادی کے بعد میں نے ایم فل کیا اور اب پی ایچ ڈی کر رہی ہوں۔ اس کے ساتھ اپنے گھر اور بچوں کی بھی دیکھتی ہوں اور سماجی خدمات بھی کرتی ہوں“
پروفیسر ڈاکٹر عمارہ ڈار کہتی ہیں ”شادی اور سروس کے کئی سال بعد میں نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ اپنے کریئر اور گھر کو ایک ساتھ لے کر چلنا تھوڑا مشکل تھا۔ کبھی کبھار تنگ ہو جاتی کہ میں پی ایچ ڈی نہیں کر رہی، کئی مرتبہ خیال آیا کہ اس کو چھوڑ دیتی ہوں، مگر میرے خاوند، گھر والوں کے علاوہ ساتھیوں اور میرے سپروائزر نے مدد کی جس کے نتیجے میں میں پی ایچ ڈی کرنے میں کامیاب ہوئی ہوں“
ان کا کہنا تھا ”میرے خاوند بھی سرکاری ملازم ہیں چنانچہ کبھی ان کے تبادلے بہت دور ہو جاتے ہیں تو پھر گھر، بچوں اور ملازمت سب کو دیکھنا پڑتا ہے۔ مگر اس کے باوجود کبھی بھی ہمت نہیں اور ہمیشہ سماجی خدمات بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ اب پاکستان میں ماحولیات کے لیے کام کریں گے۔ جس کے لیے ابتدائی منصوبہ تیار ہے“
پاکستان میں ماحولیات کے لیے کام
سیدہ رملہ حسن کہتی ہیں کہ ٹیک وومن کے پروگرام کے دوران ہم نے تین منٹ کے دوران ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے حل پر پریزنٹیشن دی تھی۔ یہ پریزنٹیشن سب نے اپنی اپنی صلاحتیوں کے مطابق تیار کی تھی۔ جس میں سب کا حصہ تھا
ان کا کہنا تھا کہ اس پریزنٹیشن کا اہم حصہ یہ تھا کہ ہم اس مسئلے کے حل کے لیے کیا کردار ادا کریں گے۔ ’مسئلے کا حل ایسا ہونا چاہیے تھا جو کہ قابل عمل ہو، جس پر اخراجات کم سے کم ہوں اور اس کے نتائج بھی نکل سکیں۔ ہم نے ماحولیاتی تبدیلی میں بتایا کہ کس طرح پاکستان کے گلیشیئر پگھل رہے ہیں، کس طرح بے وقت بارشیں اور موسمی تبدیلی سانحات کا سبب بن رہی ہیں
سیدہ رملہ حسن کا کہنا تھا کہ اس کے حل میں اُنھوں نے بتایا کہ وہ اس کے لیے آگاہی مہم چلائیں گے۔ ’ہم نے بتایا کہ ہمارا ہدف طالب علم ہوں گے۔ ہم ان کو سمجھائیں گے کہ اپنے ماحول کا تحفظ کرنا کیوں ضروری ہے۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی ایپ تیار کی جائے گئی، جو ایسے علاقوں میں مہیا ہوگی، جہاں پر سیلاب کے خطرات رہتے ہیں۔ یہ ایپ لوگوں کو کسی بھی خطرے سے قبل از وقت آگاہ کرے گی۔ لوگوں کا طرزِ زندگی تبدیل کیا جائے گا جس کے ذریعے ماحول کا تحفظ ہو سکے گا
ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے اُن کی ٹیم نے منصوبہ تیار کرنا شروع کر دیا ہے اور ٹیم کے تمام لوگ اپنی اپنی مہارت کے مطابق خدمات فراہم کریں گے
صدف گل کہتی ہیں ”میری سافٹ ویئر کی کمپنی ہے تو میں ایپ تیار کرنے میں مدد دوں گی اور کوشش کروں گی کہ اس پر اخراجات نہ ہونے کے برابر ہوں“
شہناز ذکیہ کہتی ہیں ”میں آگاہی مہم میں حصہ لوں گی۔ ہمارے پاس ویسے بھی طالب علم، مختلف شعبہ زندگی سے لوگ آتے ہیں۔ ان کو بتائیں گے کہ وہ کس طرح ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل سے نمٹ سکتے ہیں“
پروفیسر ڈاکٹر عمارہ ڈار کہتی ہیں ”میں پنجاب یونیورسٹی میں ہاسٹل وارڈن کے فرائض بھی انجام دے رہی ہوں۔ ویسے بھی میرا شعبہ درس و تدریس ہے تو میں اپنے باقی ٹیم ممبران کے ساتھ مل کر آگاہی کا ایسا منصوبہ بناؤں گی جو کہ نتیجہ خیز ہونے کے ساتھ ساتھ فائدہ مند ہو“