موسمیاتی تبدیلی: کیا کیلے کا پھل ناپید ہو جائے گا؟

ویب ڈیسک

کیلے کی کہانی ہزاروں سال پر محیط ہے، جو گھنے جنگلات سے نکل کر دنیا بھر کے بازاروں تک پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز پاپوا نیو گنی کی کُک وادی سے ہوا، جہاں 8000 قبل مسیح میں انسان نے اسے پہلی بار کاشت کیا۔ وہاں سے یہ جنوب مشرقی ایشیا، فلپائن، بھارت، چین، افریقہ اور ممکنہ طور پر جنوبی امریکا تک پھیل گیا۔ بعض مقامات پر کیلا بار بار متعارف ہوتا رہا، جیسے صدیوں بعد دوبارہ دریافت ہوا ہو!

کیلے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بیج کے بغیر پھل ہے، اس لیے کسانوں نے خود نئی ہائبرڈ اقسام بنائیں۔ بعض علاقوں میں یہ غذا تھا، تو کہیں کپڑے بنانے کا ذریعہ۔ جاپان میں اسے کیمونو بنانے کے لیے اگایا گیا، جبکہ افریقہ میں غلاموں کی خوراک اور دیگر فصلوں کے لیے سایہ فراہم کرنے والا پودا بن گیا۔

اسلامی دنیا نے بھی کیلے کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا، جو تجارتی راستوں سے ہوتا ہوا افریقہ، مشرق وسطیٰ اور اسپین تک پہنچا۔ پرتگالی ملاحوں نے اسے برازیل لے جا کر کیریبین تک پہنچایا، جہاں یہ گنے کے کھیتوں میں مزدوروں کی خوراک بنا۔

جبکہ ویب آرکائیو میں 1987 شائع میں شائع ہونے والے امریکی خاتون اسکالر جولیا مارٹن کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق: ”پہلے پہل کیلا جنوب مشرقی ایشیائی خطے میں ہوا، جس کے بعد یہ شمالی آسٹریلوی خطے میں پہنچا، جس کے بعد یہ تین قبل مسیح صدی میں بحیرہ روم کے خطے میں پہنچا، اور 10 عیسوی صدی تک یہ یورپ پہنچ چکا تھا۔“

اگرچہ قدیم دنیا میں کیلے کی پیداوار چھوٹے پیمانے پر اور مقامی استعمال کے لیے تھی، مگر 1800ء کے بعد یہ ایک عالمی جنس بن گیا، وہ پھل جو کبھی صرف جنگل کا حصہ تھا، اب پوری دنیا کی معیشت کا اہم کردار بن چکا تھا۔

جولیا مارٹن کے تحقیقی مقالے کے مطابق، کیلا دراصل وہ نہیں ہے، جو آپ کو نظر آ رہا ہے، مگر یہ تکنیکی لحاظ سے دراصل ’بیری‘ کی ایک نسل ہے، جو خوشقسمتی سے کیلا بن گئی۔

’موسم گرماں کے پھل‘ کے عنوان سے لکھے گئے اس مقالے میں کیلے کی کئی اقسام بتائی گئیں ہیں، جنہیں دنیا بھر میں سبزی اور پھل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مقالے میں بیریز کے بھی کئی اقسام بتائے گئے ہیں، جو بعد ازاں وقت گزرنے کے ساتھ دیگر فروٹس کی شکل اختیار کر گئے۔

مقالے میں بتایا گیا ہے کہ کیلے میں موجود ہلکے سیاہ نما داغ اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ کیلا تکنیکی لحاظ سے بیری ہی ہے۔

مگر یہ پھل جو نہ صرف ذائقہ رکھتا ہے بلکہ کروڑوں لوگوں کے لیے روزی روٹی کا ذریعہ بھی ہے، اب اس زرد خوشبو سے بھرپور دنیا کو ایک خاموش مگر سنگین خطرہ لاحق ہے۔ خطرہ ایسا جو نہ صرف کھیتوں کی ہریالی چھین رہا ہے، بلکہ لاکھوں کسانوں کی زندگی کا رنگ بھی پھیکا کر رہا ہے۔

ایک تازہ ترین رپورٹ، جو بین الاقوامی فلاحی تنظیم کرسچن ایڈ نے جاری کی ہے، ایک الارم کی مانند ہے۔ رپورٹ کے مطابق، موسمیاتی تبدیلی اب محض ایک سائنسی اصطلاح یا بین الاقوامی کانفرنسوں کا موضوع نہیں رہی، بلکہ یہ زمین پر موجود سب سے مقبول پھل، کیلے کے لیے بقا کا سوال بن چکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کیلا پیدا کرنے والے کاشت کاروں کو بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے۔ کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ شدید موسمی حالات کی وجہ سے ان کی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔

پیر کے روز جاری ہونے والی تجزیاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والے کیڑے کیلے کی فصل کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

رپورٹ میں اس مقبول پھل کے لیے ایک سنگین منظرنامہ پیش کیا گیا ہے جس کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کیلا پیدا کرنے والے کئی علاقے تباہ ہو سکتے ہیں۔

کیلے کے درخت، جو عمومی طور پر 15 سے 35 ڈگری سیلسیئس کے درمیان خوب پھلتے پھولتے ہے، ساتھ ہی یہ پانی کی کمی کے حوالے سے بھی نہایت حساس ہوتے ہیں۔ اب یہ درخت شدید گرمی، پانی کی قلت اور بیماریوں کے دباؤ کے باعث اپنی ضیائی تالیف کی صلاحیت کھو رہا ہے۔ مطلب یہ کہ پودا سانس لینے میں بھی دشواری محسوس کر رہا ہے۔

فوزیریم ٹراپیکل ریس فور جیسی بیماریاں خاص طور پر لاطینی امریکہ کے کیلا فارموں کو نگل رہی ہیں اور ان کے مکمل خاتمے کا سبب بن رہی ہیں۔ واضح رہے کہ لاطینی امریکہ اور کیریبین وہ علاقے ہیں، جہاں سے دنیا کا 80 فیصد کیلا برآمد کیا جاتا ہے۔ سائنسدان پیش گوئی کرتے ہیں کہ اگر یہی حالات رہے تو 2080 تک کیلے کی کاشت کے لیے سب سے موزوں علاقوں میں سے تقریباً دو تہائی علاقے ختم ہو سکتے ہیں۔

گواٹے مالا کی ایک کسان، تریپن سالہ اوریلیا پاپ ژوجو کا کہنا ہے، ”میرا باغ مر رہا ہے۔ ہمارے پاس بیچنے کو کچھ نہیں، تو آمدن کہاں سے آئے؟“

وہ کہتی ہیں ”ماضی میں یہ پیش گوئی کی گئی کہ یہ سب کچھ مستقبل میں ہوگا لیکن یہ وقت سے پہلے ہی ہو گیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی دھرتی ماں، اپنے قدرتی نظاموں کا خیال نہیں رکھ رہے۔ یہ سب ہمارے بچوں، اور خاص طور پر ہمارے پوتوں پوتیوں کے لیے بہت تشویش ناک ہے۔“

واضح رہے کہ 2015 میں نیدرلینڈ کے محققین نے خبردار کیا تھا کہ دنیا کا مقبول ترین پھل کیلا ایک سنگین بیماری پانامہ فنگس کے باعث خطرے میں ہے، جو جنوبی ایشیا، افریقہ، مشرق وسطیٰ، آسٹریلیا اور خاص طور پر جنوبی امریکا میں پھیل چکی ہے، جہاں سے دنیا کے 82 فیصد کیلے حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہ بیماری زمین میں 30 سال تک زندہ رہ سکتی ہے اور پودوں کو خشک کر کے مار ڈالتی ہے۔ ماہرین نے اس کے خلاف نئی تشخیصی تکنیکوں اور مزاحمتی اقسام کی تیاری پر زور دیا تھا تاکہ عالمی سطح پر روزگار اور خوراک کا تحفظ ممکن ہو سکے۔

اب کرسچن ایڈ کی نئی رپورٹ نے اس انتباہ کی شدت کو مزید اجاگر کیا ہے۔ اوسائی اوجیغو، جو کرسچن ایڈ میں پالیسی کی سربراہ ہیں، کہتی ہیں: ”کیلا صرف پھل نہیں، کروڑوں افراد کے لیے غذا اور ذریعہ معاش ہے۔ بدقسمتی سے جنہوں نے موسمیاتی بحران پیدا نہیں کیا، وہی اس کی سب سے بڑی قیمت چکا رہے ہیں۔“

اوجیغو نے ممالک پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کے نئے قومی موسمیاتی ایکشن پلانز کے لیے اس سال کی ڈیڈ لائن کو ایک موقع کے طور پر استعمال کریں تاکہ روایتی ایندھن سے دوری کے عمل کو تیز کیا جا سکے اور یہ یقینی بنایا جا سکے کہ موسمیاتی مالی امداد ان لوگوں تک پہنچے جنہیں اس کی اشد ضرورت ہے۔“

رپورٹ میں ترقی یافتہ ممالک سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے کاربن اخراج میں کمی لائیں اور بین الاقوامی موسمیاتی مالیاتی فنڈز کے ذریعے ایسے کسانوں کی مدد کریں جو موسمیاتی تبدیلی کے باعث روز بروز بے یار و مددگار ہوتے جا رہے ہیں۔

کیلے کی صنعت سے جڑے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اس بحران کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ایک نئے زرعی ماڈل کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا ماڈل جو زہریلے کیمیکلز کی جگہ قدرتی طریقے اپنائے، جو کسانوں کو مناسب قیمت دے، اور جو صارفین کو اس انتخاب کا شعور دے کہ وہ فئیر ٹریڈ سے تصدیق شدہ کیلے خریدیں۔

اینا پیریڈیس، جو فئیر ٹریڈ فاؤنڈیشن میں کیلے کے لیے کام کرتی ہیں، کہتی ہیں: ”منصفانہ قیمتوں کے بغیر، کسان اپنی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر سکتے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کیلے کی پیداوار جاری رہے، تو ہمیں اس نظام کو سہارا دینا ہوگا۔“

ہولی ووڈورڈ ڈیوی، جو بینانا لنک میں پروجیکٹ کوآرڈینیٹر ہیں، اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ہمیں صنعتی زراعت کے ماڈل پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ ”ہمیں نہ صرف گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو پانا ہوگا بلکہ کیمیکلز کے بے جا استعمال کو بھی روکنا ہوگا۔“

کیلے کے کھیت اب محض سبز پتے اور زرد پھل نہیں، بلکہ وہ میدانِ کارزار ہیں جہاں ماحولیاتی بقا کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اگر ہم نے ابھی قدم نہ اٹھایا تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے ناشتے سے کیلا غائب ہوگا اور ہم صرف تصویروں میں اس زرد خوشبو کو تلاش کریں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close