قطر کا ورلڈ کپ عرب سرزمین پر ہونے والے فٹ بال کا پہلا عالمی ٹورنامنٹ ہو گا۔ عام طور پر فٹ بال مشرق وسطیٰ کو متحد کرتا ہے اور ورلڈ کپ کے حوالے سے خطے میں گرمجوشی بھی پائی جاتی ہے لیکن کچھ ممالک میں اس جوش و خروش کا فقدان دکھائی دیتا ہے
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگرچہ 20 نومبر سے 18 دسمبر تک ہونے والا ٹورنامنٹ جغرافیائی اعتبار سے بہت سے عرب شائقین کے لیے قریب ہے لیکن بحرانوں اور معاشی مسائل سے متاثرہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے بڑے حصے کے لیے ٹورنامنٹ کے زیادہ اخراجات ایک مسئلہ ہیں
تیونس کی قومی ٹیم کا فیسبک پیج پسند کرنے والوں کی تعداد چالیس ہزار ہے۔ اس پیج کو چلانے والے مکرم عابد کا کہنا ہے ”رہائش اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔“ قطر، مراکش اور سعودی عرب کے ساتھ تیونس کی فٹبال ٹیم نے بھی ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کیا ہے
عابد نے اے ایف پی کو بتایا کہ قطر علاقے کے مداحوں کو ’ترجیحی اخراجات کی پیشکش کر سکتا تھا۔‘ دوسری جانب قطر کا کہنا ہے کہ اس نے آفیشل پورٹل پر دستیاب رہائش کے اخراجات پر سبسڈی دی ہے
عابد اس خطے، جس کی آبادی 40 کروڑ سے زیادہ ہے، کے ان متعدد مداحوں میں سے ایک ہے جن سے اے ایف پی نے ان کی رائے معلوم کرنے کے لیے رابطہ کیا
فٹبال کے مؤرخ پال ڈیچی کا کہنا تھا کہ روایتی طور پر ورلڈ کپ نے ہفتہ وار کلب فٹبال، جس کے مداح اکثر عام کارکن ہوتے ہیں، کے مقابلے میں زیادہ پیسے والے مداحوں کو متوجہ کیا ہے
ڈیچی نے کہا کہ قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ نے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کے عالمی رجحان کو تقویت دی ہے۔ یہاں تک کے تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب جو عرب دنیا میں سب سے بڑی معیشت کا مالک ہے اور اس کی سرحد قطر کے ساتھ ملتی ہے، اس کے فٹبال مداحوں کا کہنا ہے کہ ٹورنامنٹ دیکھنے کے اخراجات ایک رکاوٹ ہیں
”آپ کو تین (گروپ) میچوں میں شرکت کے لیے قرض لینا پڑے گا“ پچیس سالہ سعودی طالب علم موہناد نے اپنے مکمل نام سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا
فیفا کے مطابق قطر ان ملکوں میں سرفہرست ہے، جن میں ورلڈ کپ کی ٹکٹیں خریدی گئیں۔ یہاں ٹکٹ خریدنے والوں کی تعداد تیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ خلیجی ہمسائے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی ٹکٹ خریدنے والے دس ملکوں میں شامل ہیں
درحقیقت قطر کی آرگنائزنگ کمیٹی کے مطابق سعودی عرب نے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ رہائش کی بکنگ کی ہے
مصر، جسے عرب فٹبال کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہیں کر سکا لیکن وہاں سے کچھ شائقین پھر بھی سفر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جن میں عمرو ممدوح بھی شامل ہیں جو خلیج جانے کے منتظر ہیں
انہوں نے کہا کہ 2018 کے ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والے روس کی نسبت قطر کی پروازوں کی قیمت نصف ہے
خلیج میں رہنے والے ہزاروں عرب تارکین وطن بھی قطر اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان 160 سے زیادہ شٹل پروازوں میں روزانہ سوار ہوں گے
ان میں دبئی میں مقیم ایک لبنانی فادی بستروس بھی شامل ہیں، جو دوحہ کے لیے ایک گھنٹے کی فلائٹ لے کر اسی دن واپس آئیں گے
لیکن بستروس کو خدشہ ہے کہ قطر کی میزبانی کے تنازعات اور موسم گرما کے بجائے پہلی بار سردیوں میں شیڈولنگ کے پیش نظر ’ورلڈ کپ کے حقیقی ماحول‘ کی کمی ہو سکتی ہے، جب بہت سے شائقین سفر کو ترجیح دیتے ہیں
مراکش میں حکام نے اعلان کیا ہے کہ قطر جانے والے پروازوں پر سبسڈی جائے گی لیکن اس کے باوجود ان کا ٹکٹ تقریباً 760 ڈالر (تقریبا ایک لاکھ 67 ہزار پاکستانی روپے) کا ہوگا
لیکن چونتیس سالہ مراکش کے یاسین کے لیے، جس نے 2018 کے ورلڈ کپ میں شرکت کی تھی، یہ رعایت کچھ خاص حوصلہ افزا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈ کپ ایک خوبصورت ماحول، انسانی مقابلوں، لاپرواہی، جشن کا مترادف ہے
ساتھی مراکشی وسیم ریانے، جو روس میں ہونے والے ورلڈ کپ میں بھی گئے تھے، نے کہا کہ وہ بھی قطر کا سفر نہیں کریں گے، ”ایک ایسا ملک جہاں فٹ بال کی تاریخ یا جشن کی ثقافت نہیں ہے“
فٹبال جزیرہ نما عرب میں 1970ع کی دہائی میں تیل کی کمپنیوں اور غیر ملکی کارکنوں کی آمد کے ساتھ آیا – باقی مشرق وسطیٰ کے مقابلے بہت بعد میں، جو فرانسیسی اور برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے تابع تھا۔
مصر میں پہلی جنگ عظیم کے بعد پہلے فٹبال کلب بنائے گئے۔
پال ڈیچی کے مطابق، فٹبال کا شوق عرب دنیا میں دو رجحانات کی پیروی کرتا ہے
انہوں نے کہا ”مراکش، عراق، شام اور الجزائر جیسے ممالک میں، فٹبال مقبول ہے اور اسٹیڈیموں میں ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ لیکن قطر سمیت دیگر ممالک میں، فٹبال ایک ایسا شو ہے، جو صرف ٹیلی ویژن پر ہی دیکھا جاتا ہے“