اطلاعات ہیں کہ ایران میں مظاہرین نے ’انقلاب کے بانی‘ آیت اللہ خمینی کے آبائی گھر کو آگ لگائی ہے
سوشل میڈیا پر گردش کرتی وڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین آیت اللہ خمینی کے گھر کو آگ لگا رہے ہیں
واضح رہے کہ ’انقلاب ایران کے بانی‘ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے آبائی گھر کو میوزیم بنا دیا گیا تھا۔ ان کی قیادت میں 1979 میں انقلاب آیا تھا
خُمین میں مظاہرین نے حکومت مخالف نعرے لگائے، مظاہرین حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں
حکومت کی جانب سے کریک ڈاؤن کے باوجود ایران میں مظاہرے جاری ہیں
ایران میں حکومت مخالف احتجاج تیسرے مہینے میں داخل ہوگیا ہے۔ رواں ہفتے ’خونی نومبر 2019‘ کی برسی منانے کے لیے سینکڑوں مظاہرین سڑکوں پر نکلے تھے۔
نومبر 2019 میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کے دوران سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے
رواں برس ستمبر میں 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف احتجاج شروع ہوا تھا جو دنیا بھر میں پھیل چکا ہے
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف مظاہروں میں 300 سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں اور ہزاروں کو حراست میں لیا جا چکا ہے
رواں ہفتے حکومت نے پانچ افراد کو سزائے موت سنائی ہے۔ حکومت نے کہا تھا کہ ’اشتعال‘ پھیلانے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے
ایرانی بلاگر حسین رونقی کی جیل کے اسپتال میں بھوک ہرتال
ادھر ایران کے ایک بلاگر اور سرگرم کارکن کو اس ہفتے کے اختتام پر اسپتال لایا گیا، جن کے بارے میں ایرانی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ان کی حالت بہتر ہے جب کہ ان کے اہلِ خانہ اور بین الاقوامی برادری نے ان کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے
یاد رہے کہ حسین رونقی کو 24 ستمبر کو انسانی حقوق کے درجن بھر ممتاز سرگرم کارکنوں، صحافیوں اور وکلاء کے ساتھ مہسا امینی کی موت پر احتجاج کے خلاف کارروائی کے دوران حراست میں لیا گیا تھا
رونقی جنہیں حراست میں لینے کے بعد ایون جیل منتقل کر دیا گیا تھا، پچاس روز سے زیادہ عرصے سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ کو ان کی گردوں کی بیماری کی وجہ سے ان کی صحت سے متعلق تشویش ہے۔ ان کے بھائی حسن رونقی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ جیل میں حسین رونقی کی دونوں ٹانگیں توڑ دی گئی ہیں
تاہم ایران کی جوڈیشری نیوز ایجنسی ’میزان‘ کا کہنا ہے کہ ان کی صحت ٹھیک ہے اور انہیں جلد ہی اسپتال سے فارغ کر دیا جائے گا۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ’میزان‘ نے کہا ہے کہ ان کی ٹانگیں ٹوٹنے کے بارے میں تمام دعوے جھوٹے ہیں
اگرچہ ایرانی محکمہ انصاف کے عہدیداروں نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں اسپتال کیوں لایا گیا اور ان پر کیا الزامات ہیں تاہم پیر کے روز حسن رونقی نے محکمہ انصاف کی طرف سے اسپتال کے بستر پر لی گئی حسین رونقی کی شائع شدہ ایک تصویر شئیر کی اور اس بات کی تصدیق کی کہ رونقی کے والدین نے پیر کے روز ان سے اسپتال میں ملاقات کی اور بتایا کہ ان کی حالت بظاہر اب بہتر ہے
اے ایف پی کے مطابق سینتیس سالہ حسین رونقی، وال اسٹریٹ جرنل کے لیے لکھتے ہیں اور ایران میں رہتے ہوئے اسلامی جمہوریہ کے سب سے زیادہ بے خوف ناقدین میں سے ایک رہے ہیں۔