بلوچستان: مچھ سے چھ کان کنوں کا اغوا، معاملہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

صوبہ بلوچستان کے ضلع بولان کی تحصیل مچھ سے 13 نومبر کو اغوا کیے جانے والے چھ کان کنوں کی تاحال بازیابی ممکن نہیں ہو سکی، تاہم اس سلسلے میں مقامی جرگے اور پولیس کی سطح پر کوششیں جاری ہیں

اغوا شدہ چھ کان کنوں میں سے چار کا تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے ہے

اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ ’صوبائی حکومت اس معاملے سے آگاہ ہے اور وہ بلوچستان کی حکومت سے اس حوالے سے بات کرے گی۔‘

تاہم شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک مغوی فرامودین کے بڑے بھائی فخرالدین نے بتایا کہ نہ ہی انہوں نے مقامی یا صوبائی سطح پر کسی سیاسی و غیر سیاسی شخصیت سے مدد مانگی ہے اور نہ انہیں کوئی توقع اور امید ہے

انہوں نے کہا ’اپنے بھائی کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے، کیونکہ نہ تو بلوچستان جانے کی ہمت رکھتے ہیں اور نہ جیب میں پیسہ ہے‘

فخرالدین کے مطابق ’ہم چار بھائی ہیں۔ فرامودین کی عمر پینتیس برس کے قریب ہوگی۔ وہ شادی شدہ اور چار بچوں کا باپ ہے اور پچھلے دو سال سے بولان کی ایک کان میں مزدوری کر رہا تھا‘

مچھ کی اس کان میں، جہاں سے ان کان کنوں کو اغوا کیا گیا، گذشتہ بتیس سال سے کام کرنے والے شانگلہ کے رہائشی رشید بادشاہ نے بتایا کہ حالیہ واقعے کے بعد تمام ساتھی مزدور سوگوار ہیں، جبکہ مالکان پریشان ہیں

انہوں نے بتایا ’مالکان کی کوشش ہے کہ وہ مقامی مشران کے ذریعے ایک جرگہ کروا کر مغویوں کو بازیاب کروائیں‘

رشید بادشاہ کا مزید کہنا تھا ’اس مرتبہ پیسوں کا مطالبہ نہیں ہوا ہے، لہٰذا یہ واضح نہیں ہے کہ اغواکاروں کا اصل مقصد کیا ہے۔‘

رشید کے مطابق اغوا ہونے والوں کے نام سرتاج، برکت، امان اللہ، جمال، فرامودین اور روزی خان ہیں، جن میں سے چار کا تعلق شانگلہ، ایک کا تعلق ضلع سوات اور ایک کا تعلق افغانستان سے ہے

شانگلہ سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کے اغوا کا یہ پہلا واقعہ نہیں، ایسے واقعات ماضی میں بھی پیش آتے رہے ہیں

جب مغوی فرامودین کے بھائی فخرالدین سے استفسار کیا گیا کہ شانگلہ سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد اس کام میں جانیں گنوا چکی ہے یا معذور ہوئی ہے، پھر بھی لوگ کان کنی کا ہی کیوں انتخاب کرتے ہیں؟ اس پر انہوں نے جواب دیا ’سب پتہ ہے، لیکن غربت اور مجبوری آپ سے سب کچھ کرواتی ہے۔ جب گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو اور تعلیم نہ ہو تو اور کیا چارہ رہ جاتا ہے؟ جہاں مزدوری ملتی ہے خوشی سے قبول کر لیتے ہیں۔‘

شانگلہ میں کان کنوں کے حقوق اور آگاہی کے لیے کام کرنے والے ادارے ’کول مائینز ورکرز ویلفیئر ایسوسی ایشن‘ (سموا) کے مطابق اس ضلعے سے تقریباً 75 فی صد مزدور اسی روزگار کے ساتھ منسلک ہیں

دوسری جانب صوبائی وزیر محنت شوکت یوسفزئی کے پی آر او اور شانگلہ کے رہائشی نعیم الحق نے بتایا کہ اس ضلعے کا صرف ایک گاؤں الپوری ایسا ہے، جہاں غربت اور ناخواندگی کی شرح زیادہ ہونے کے سبب ایک بڑی تعداد اس روزگار کے ساتھ عرصہ دراز سے منسلک ہے

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں جہاں جہاں کانیں ہیں، وہاں شانگلہ کے کان کن ہیں، جن میں زیادہ تر پچیس سے تیس سال کی عمر کے نوجوان ہیں

نعیم الحق نے بتایا کہ صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے اپنے آبائی حلقے شانگلہ کے لوگوں کو کان کنی سے نجات دلانے کے لیے ایک بہت بڑی تعداد کو روزگار کے دیگر مواقع فراہم کیے ہیں

’حال ہی میں انہوں نےکلاس فور کی 104 خالی اسامیوں کی اکثریت پر کان کنوں کو بھرتی کیا۔‘

واضح رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق تنظیم ’سموا‘ کا دعویٰ ہے کہ اوسطاً سالانہ تین سو مزدور کوئلے کی کانوں میں کام کے دوران ہلاک ہوجاتے ہیں اور پچاس کے قریب مستقل طور پر معذور ہوجاتے ہیں

علاوہ ازیں یہ کان کن پھیپھڑوں اور گردے کی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں جبکہ کئی واقعات میں اغوا برائے تاوان اور بعدازاں انہیں قتل کرنے کی خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close