ساٹھ سالہ شوکت علی پشاور میں خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے گیٹ کے باہر ایک ’سوزوکی پک اپ ریسٹورنٹ‘ کے مالک ہیں، جو ’چیری بیری ریسٹورنٹ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے
شوکت علی کا یہ سفر فٹ پاتھ پر کھانے کا ڈھابہ لگانے سے شروع ہوا تھا
وہ بتاتے ہیں ”تقریباً پچیس سال ہو گئے یہ ریسٹورنٹ چلا رہا ہوں۔ پہلے فٹ پاتھ پر بیٹھتا تھا اور اس کے بعد سوزوکی پر شفٹ ہو گیا تاکہ صفائی ستھرائی کا خیال رکھ سکوں”
شوکت علی کی عمر اب اتنی ہوگئی ہے کہ وہ خود سوزوکی میں لگائے گئے چولہے کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں بنا سکتے لیکن ان کے بچے اب یہ کام ان کی نگرانی میں کرتے ہیں
لمبی سفید ریش کے ساتھ باوقار وضع قطع کے مالک شوکت علی کہتے ہیں ”اب داڑھی سفید ہوگئی ہے اور بیمار بھی رہتا ہوں لیکن شکر ہے کہ ریسٹورنٹ چلا کر گھر کا گزارا ہوجاتا ہے اور بیٹے اور ویٹرز اس میں مدد کرتے ہیں“
ان کا کہنا تھا کہ ان کے ریسٹورنٹ میں جتنے بھی کھانے ہیں، وہ سارے گھر میں پکائے جاتے ہیں
شوکت علی کے مطابق ”میرے کھانوں میں خاص بات یہ ہے کہ میں انہیں گھر میں بناتا ہوں اور اعلیٰ کوالٹی کے تیل میں بناتا ہوں جبکہ صفائی کا بھی خاص خیال رکھتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں پر ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ کھانا کھانے آتے ہیں“
روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں کھانا کھانے کے لیے آنے والے ان کے گاہکوں میں رکشہ چلانے والوں سے لے کر یونیورسٹی کے طلبہ اور ڈاکٹر بھی شامل ہیں
انہوں نے بتایا ”میری سوزوکی چونکہ ڈاکٹرز ہاسٹل کے پاس ہی ہے، اسی وجہ سے کچھ ڈاکٹر پہلے جب یونیورسٹی میں ہوتے تھے تو میرے پاس آتے تھے اور اب وہ ڈاکٹر بن کر بھی میرے پاس ہی کھانے کے لیے آتے ہیں“
اپنے ریسٹورنٹ کے نام ’چیری بیری‘ کے بارے میں شوکت علی نے بتایا کہ انہوں نے اپنی ایک ڈش متعارف کروائی ہے، جو چکن سے بنائی جاتی ہے ”چکن بریسٹ کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کر کے اسے ٹماٹر اور دیگر مصالحہ جات میں فرائی کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے میں ایک خاص مصالحہ بھی بناتا ہوں اور اسی کو چیری بیری کہا جاتا ہے“
شوکت علی نے بتایا کہ زیادہ تر گاہک چیری بیری ہی کو پسند کرتے ہیں
وہاں کھانا کھانے کے لیے آنے والے ایک گاہک نبی جان کا کہنا تھا کہ وہ تقریباً پانچ سال سے مختلف مواقع پر دوستوں کے ساتھ یہاں آکر چیری بیری کھاتے ہیں
نبی جان نے بتایا ”پانچ سال پہلے چیری بیری کا جو ذائقہ تھا، اب بھی اس میں وہی ذائقہ موجود ہے تاہم قیمت میں واضح فرق آیا ہے کیونکہ مہنگائی زیادہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے چیری بیری کی ایک پلیٹ تقریباً سو روپے کی ملتی تھی لیکن اب وہی پلیٹ ڈھائی روپے کی ہوگئی ہے“
شوکت علی سے جب پوچھا گیا کہ وہ کوئی ریسٹورنٹ کیوں نہیں کھولتے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ایک بار انہوں نے یہ تجربہ کیا تھا اور قریب ہی کچھ دکانیں کرائے پر لی تھیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ گاہک اسی جگہ پر آ کر بغیر کھانے کے چلے جاتے تھے
انہوں نے بتایا ”یہ جگہ اب میری پہچان بن گئی ہے۔ گاہک کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ ’شوکت چیری بیری والا‘ یہیں پر بیٹھے گا۔ دکانیں کرائے پر لینے کے بعد زیادہ تر گاہک فٹ پاتھ والی جگہ پر جاتے تھے لیکن وہاں میں موجود نہیں ہوتا تھا اور وہ واپس لوٹ کر چلے جاتے تھے تو دوبارہ وہ دکانیں ختم کر کے سوزوکی پر شفٹ ہو گیا“
بقول شوکت ”یہ جگہ غریب اور امیر دونوں کے لیے ہے۔ لوگ اس مقصد سے بھی آتے ہیں کہ ان کو یہاں سستا اور صاف ستھرا کھانا ملے گا، تو میں نے اسی جگہ پر ہی اکتفا کیا کہ بس یہیں پر اس ریسٹورنٹ کو جاری رکھوں اور اللہ کا شکر ہے کہ کام چل رہا ہے“