بچوں میں ذیابیطس: وجوہات کیا ہیں؟

ویب ڈیسک

سات سالہ عمار علی جماعت دوم کے طالبِ علم ہیں اور اس چھوٹی سی عمر میں ذیابیطس ٹائپ ون کے عارضے میں مبتلا ہیں

وہ معصومانہ انداز میں کہتے ہیں ”مجھے ذیابیطس اچھی لگتی ہے کیوں کہ جب میری شوگر کم ہوجائے تو مجھے جوس پینے کو مل جاتا ہے“

شوگر کے عارضے کے باعث عمار کو کسی بھی قسم کا میٹھا منع ہے، جبکہ وہ صرف اس صورت میں میٹھا کھاسکتے ہیں، جب ان کا شوگر لیول انتہائی کم ہوجائے

عمار انتہائی کم عمری میں نہ صرف اپنی بیماری سے واقف ہیں بلکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اگر اسکول میں ان کی شوگر کم ہوجائے تو انہیں کیا کرنا ہے اور اگر بڑھ جائے تو اس کی کیا علامات ہیں

مگر اس کے باوجود اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑوں کی نسبت بچوں میں ذیابیطس کا ہونا اور پھر اس پر احتیاط کرنا بہت ہی مشکل ہے

عمار کی والدہ نیہا جبار کے لیے بھی یہ کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔ نیہا کے مطابق ان کے تین بچوں میں سے دو ذیابیطس ٹائپ ون کا شکار ہیں۔ جب پہلی بار انہیں معلوم ہوا کہ ان کا بچہ ذیابیطس میں مبتلا ہے تو یہ ان کے لیے کافی پریشان کن تھا۔ لیکن ڈاکٹروں سے ملنے والے مشورے اور احتیاطی تدابیر نے ان کی مشکلات کو کافی حد تک کم کر دیا ہے

نیہا جبار کہتی ہیں ”شروع میں لوگوں سے بہت مفت مشورے ملتے تھے، جسے ہم ٹوٹکے کہہ سکتے ہیں، کسی کا کہنا تھا کہ ہربل علاج کرالو، کوئی کہتا تھا کہ ایسے کرلو تو انسولین لگانے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ یہ وہ تمام تر باتیں ہیں جو والدین کو بہت دلبرداشتہ کرتی ہیں“

مسز سیما نوید کو پینتالیس برس کی عمر میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کی تشخیص ہوئی۔ آج ان کی عمر ساٹھ برس ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں میٹھا کھانے کا بہت شوق تھا، جسے اپنی زندگی سے نکالنا بہت مشکل تھا

ان کے بقول ”میں کھانا بناتی تھی، جس میں میٹھا بنانا میرا پسندیدہ کام تھا۔ ہمارے خاندان میں روغنی کھانے کھانا عام بات ہے اور میرا وزن شادی کے بعد بہت بڑھ چکا تھا، اس پر اس طرح کا کھانا بننا اور کھانا بھی ایک معمول تھا۔ پھر اچانک مجھے معلوم ہوا کہ مجھے شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کا مرض ہے۔ اس کے بعد سے میرے کھانے پینے کے اطوار تبدیل ہو گئے“

ان کا مزید کہنا تھا ”اب میں روغنی کھانوں کے بجائے ہرے پتوں کی سبزیاں اور سلاد زیادہ استعمال کرتی ہوں۔ آم مجھے بہت پسند تھا اور اب میں وہ چھوڑ چکی ہوں۔ شروع میں مسائل ہوئے لیکن اب مجھے عادت ہوگئی ہے کیونکہ اس احتیاط کے سبب میری شوگر کافی حد تک کنٹرول میں رہتی ہے۔“

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں چھیالیس کروڑ سے زائد افراد ذیابیطس کا شکار ہیں، جن میں سے نوے فی صد ٹائپ ٹو سے متاثر ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا بھر میں ذیابیطس سے متاثرہ ممالک میں تیسرے نمبر پر ہوتا ہے

انٹرنیشنل ڈائیبیٹیز فیڈریشن کے 2022ع کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق، پاکستان بھر کی آبادی کا 26.7 فی صد یعنی تین کروڑ تیس لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں

عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2019ع میں ذیابیطس میں مبتلا ڈیڑھ لاکھ افراد کی اموات ہوئی تھیں۔ ذیابیطس کو ’خاموش قاتل‘ بھی کہا جاتا ہے

ذیابیطس کیا ہے؟

انسانی جسم کے اندر خون میں موجود شکر سے جسم میں توانائی بنتی ہے جس کے سبب جسم صحیح طرح سے کام کرتا ہے۔ لیکن اس مرض میں جسم شکر کو استعمال نہیں کر پاتا جس کے سبب خون میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو دیگر اعضا کو متاثر کرتا ہے

طبی ماہرین کے مطابق اس مرض کی جتنی جلدی تشخیص ہو علاج اتنا ہی بہتر ہے۔ اس بیماری سے قبل ہونے والی علامتوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اگر مریض کو بھوک اور پیاس شدت سے لگ رہی ہے، جبکہ بار بار پیشاب آرہا ہو اور جسم میں خاص کر ٹانگوں میں درد محسوس ہو رہا ہے تو اسے فوری طور پر شوگر کا ٹیسٹ کروانا چاہیے اور معالج سے رجوع کرنا چاییے تاکہ بروقت علاج شروع ہو سکے

ذیابیطس میں ٹائپ ون سے بچاؤ ممکن نہیں ہے۔ یہ مرض آٹو امیون (جب جسم میں موجود خلیے، بیرونی خلیوں میں فرق نہ سمجھ پائیں اور نارمل خلیوں کو متاثر کرنے لگیں) ہوتا ہے، جس کے سبب ٹائپ ون ذیابیطس ہو سکتی ہے

دوسری جانب ٹائپ ٹو ذیابیطس کے ہونے میں لائف اسٹائل بہت اہم ہے۔ موٹاپا، عمر کا بڑھنا اور روزمرہ کی روٹین اس بیماری کی وجوہات بن سکتی ہیں، جن سے بچاؤ بہرحال ممکن ہے

بچوں میں ذیابیطس کی وجوہات

آغا خان یونیورسٹی اسپتال سے وابستہ اینڈوکرینولوجسٹ اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر اسما احمد کہتی ہیں کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں موٹاپا ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے ذیابیطس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں

ان کے بقول عام طور پر بچوں میں ٹائپ ون شوگر عام بات ہے، جسے روکنا ممکن نہیں، کیونکہ یہ جینٹک اور آٹو امیون ہے۔ ایسے میں انسولین اور احتیاط ہی ان کا علاج ہے لیکن اب ٹائپ ٹو بھی بچوں میں نظر آ رہا ہے جو کہ تشویشناک بات ہے

ڈاکٹر اسما کا کہنا ہے ”اس کی سب سے اہم وجہ ان کا جسمانی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینا ہے۔ آج بچوں کا زیادہ تر وقت اسکرین پر گزرتا ہے۔ پہلے بچے کھیل کود اور دیگر جسمانی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے تھے لیکن اب ایسا بہت کم ہے۔ خاص کر کرونا کے وقت میں بچوں کا اسکرین ٹائم بہت زیادہ بڑھ گیا ہے“

بچوں میں ذیابیطس کی دوسری بڑی وجہ غذا کا استعمال ہے۔ ہم جس دور میں ہیں وہاں اب زندگی اتنی تیز ہوچکی ہے کہ اس میں جنک فوڈ کا استعمال اب عام ہے۔ ایسا کھانا جسے ہم ’انرجی ڈینس فوڈ‘ کہتے ہیں، وہ ہر وقت دستیاب ہے۔ جب آپ بچے کو ایسے کھانوں سے متعارف کروا دیتے ہیں تو اس کی چاہت کم نہیں بلکہ بڑھتی جاتی ہے

ڈاکٹر اسما کے مطابق ذیابیطس کے ہونے کے بعد جسم میں دیگر پیچیدگیاں بھی وقت کے ساتھ دیکھنے میں آتی ہیں۔ وزن کی زیادتی ہو تو کولیسٹرول بھی بڑھتا ہے، جس کے بعد ہائی بلڈ پریشر اور اسٹروک کے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ گردوں پر اس بیماری کا اثر پڑتا ہے، اس کے ساتھ مریض کی بینائی بھی متاثر ہونے لگتی ہے

ان کے بقول، عموماً جب یہ بیماری ایک شخص میں چالیس سال کی عمر کے بعد ہو تو اس کی پیچیدگیاں گزرتے وقت کے ساتھ نظر آنے لگتی ہیں لیکن اگر یہ کسی جوان فرد یا کسی بچے کو ہوجائے تو اس بیماری سے جڑی پیچیدگیاں بھی جلدی ہوتی ہیں اور مزید تکلیف کا باعث بنتی ہیں

ڈاکٹر اسما کہتی ہیں ”ان بیماریوں سے بچاؤ کا واحد حل احتیاط اور کھانے پینے کے معمولات ہیں۔ روزمرہ کے معمول میں واک اور ورزش کو شامل کرنا اور ایسے کھانے جن میں پھل، سبزیاں اور گوشت ایک خاص مقدار میں ہو اسے اپنی زندگی کا معمول بنائیں۔“

معمولات کی تبدیلی سے بیماری کی شدت میں کمی

نیہا کے مطابق گھر میں دو بچوں کا ذیابیطس میں مبتلا ہونا ہمارے لیے بھی ایک وارننگ ثابت ہوا

اُنہوں نے کہا ”ہم نے سوچا کہ ہم اپنے بچوں کو میٹھا یا کچھ بھی ایسا کھانے سے کیسے روکیں گے، جو ہم خود کھا رہے ہوں؟ اس کا حل ہم نے یہ نکالا کہ ہم نے اپنی ڈائٹ کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ شکر ہماری زندگی سے مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ اب میں بیکنگ بھی گھر پر کرتی ہوں کیوں کہ بازار میں ملنے والے بیکری آئٹمز میں ریفائن آٹا اور میدہ استعمال ہوتا ہے، جو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے مضر ہے“

ان کا کہنا تھا ”اب ہم روزانہ عمار کو اسکول بھیجنے سے قبل اس کی شوگر ٹیسٹ کر کے اس کی انسولین سیٹ کرتے ہیں۔ اس کا لنچ باکس صحت بخش غذا سے بھرا ہوتا ہے۔ ان بچوں کے سبب اب ہمارا گھرانہ پہلے سے بہت بہتر غذا لے رہا ہے، جو بہت مثبت تبدیلی ہے“

طبی ماہرین کے مطابق ذیابیطس سے متعلق لوگوں کو آگاہی دینا بہت ضروری ہے۔ اسکول جانے والے بچے جو اس مرض کا شکار ہیں، ان کے اساتذہ کو بھی اس بات کا علم ہونا بہت ضروری ہے، کہ اگر بچے کا شوگر لیول کم ہوجائے اور بچہ سست ہو تو کیا کرنا ہے

پہلے کبھی کبھی سننے کو ملتا تھا کہ کسی بچے کو زیابیطس کی بیماری ہے، لیکن اب یہ عام ہو چکی ہے، اس لیے جتنا لوگ اس بیماری سے آگاہ ہوں گے اتنا ہی اچھا ہے۔ اس کے ساتھ بچوں کو بھی یہ بتانا ضروری ہے کہ اس مرض کے ساتھ وہ زندگی کا ہر کام کر سکتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close