تھائی لینڈ اور سعودی عرب کے درمیان لگ بھگ تینتیس برس بعد سفارتی تعلقات بحال ہو گئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات سنہ 1989ع میں نیلے ہیرے کی چوری اور پھر قتل کے ایک سلسلے کے بعد منقطع ہو گئے تھے
ان تعلقات میں رواں ہفتے اس وقت ایک اہم پیش رفت ہوئی جب جمعے کو تھائی لینڈ کے وزیر اعظم نے بنکاک میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی، جس میں رواں برس بحال ہونے والے سفارتی تعلقات کو وسعت دینے کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ اس طرح دونوں ملکوں میں تین دہائیوں بعد سفارتی تعلقات مکمل طور پر بحال ہوئے ہیں
یاد رہے کہ دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات سنہ 1989 میں منقطع ہوئے تھے، جب تھائی لینڈ کے ایک شہری نے ایک سعودی شہزادے کا بیس ملین ڈالر مالیت کا مشہور ’نیلا ہیرا‘ چُرا لیا تھا
اس پر ہونے والی تفتیش کے دوران متعدد اندھے قتل کے واقعات بھی پیش آئے
سنہ 1989 میں ایک سعودی محل سے قیمتی جواہرات کی چوری سے قتل کا ایک سلسلہ اور ایک ایسا سفارتی بحران شروع ہوا جو لگ بھگ تین دہائیوں تک جاری رہا۔ اب ایک غیر معمولی انٹرویو میں اس چوری میں ملوث شخص اپنی کہانی سُنا رہے ہیں
سعودی شہزادہ اور ان کی اہلیہ تین ماہ کے لیے چھٹیوں پر گئے ہوئے تھے اور چور جانتا تھا کہ یہی اس کام کے لیے بہترین وقت ہے
شاہی محل کے خاکروب کریانگ کرائے ٹیچامونگ نامی تھائی شہری ایک بڑا خطرہ مول لے رہے تھے۔ سعودی عرب میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہو سکتی ہے مگر کریانگ کرائے کوئی عام چور نہیں تھے۔ ان کی آنکھیں ان درجنوں قیمتی جواہرات اور نگینوں پر تھیں، جو ان کے مالک اور سعودی شہنشاہ فہد کے سب سے بڑے بیٹے شہزادہ فیصل کی ملکیت میں تھے
ایک خاکروب ہونے کی وجہ سے کریانگ کرائے شہزادہ فیصل کے محل کے چپے چپے سے واقف تھے اور انہوں نے یہ جان لیا تھا کہ شہزادہ فیصل کے جواہرات جن تجوریوں میں محفوظ رکھے جاتے تھے، ان چار تجوریوں میں سے تین کو تالا لگائے بغیر چھوڑ دینا معمول تھا۔ یہ ایسا موقع تھا جسے گنوایا نہیں جا سکتا تھا
کریانگ کرائے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے اور یہ پابندیوں سے بھرے اس ملک سے باہر نکلنے کے لیے ایک سنہری موقع تھا جس میں وہ مزید نہیں رہ سکتے تھے۔
ایک شام انہوں نے اندھیرا ہونے کے بعد بھی محل میں رہنے کے لیے ایک بہانہ تراش لیا۔ انہوں نے تب تک انتظار کیا جب تک کہ عملے کے دیگر ارکان وہاں سے چلے نہیں گئے۔ اس کے بعد وہ چپکے سے شہزادے کی خوابگاہ میں داخل ہو گئے
انہوں نے کچھ جواہرات اٹھا لیے اور انہیں ٹیپ کے ساتھ اپنے جسم سے چپکا لیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے صفائی کے سامان بشمول ویکیوم کلینر کے تھیلوں میں بھی کئی جواہرات چھپا لیے
اس کارروائی کے اختتام تک وہ تیس کلو سامان لوٹ چکے تھے، جن کی قیمت اُس وقت کوئی دو کروڑ ڈالر کے قریب تھی۔ بعد میں سعودی حکام نے کہا کہ چرائے گئے سامان میں کئی طلائی گھڑیاں اور کئی یاقوت بھی شامل تھے
اس رات کریانگ کرائے نے محل میں ایسی کئی جگہوں پر چوری کیا گیا سامان چھپا دیا، جہاں کے بارے میں اسے یقین تھا کہ انہیں وہاں تلاش نہیں کیا جا سکے گا۔ اس کے بعد ایک ماہ کے دورانیے میں وہ ان جواہرات کو اس سامان میں منتقل کر کے چھپاتے رہے، جو وہ تھائی لینڈ میں اپنے گھر بھیج رہے تھے
جب تک اس چوری کا علم ہوا تب تک کریانگ کرائے اپنے آبائی ملک تھائی لینڈ فرار ہو چکے تھے اور ان سے کچھ دن قبل ہی ان کا سامان بھی روانہ ہو چکا تھا
لیکن چور کے سامنے اب ایک اور چیلنج تھا، یعنی اس لوٹے گئے سامان کو تھائی کسٹمز سے گزارنا۔ امپورٹ کیے گئے تمام سامان کو ملک میں داخلے کے وقت چیک ہونا تھا لیکن چونکہ وہ جانتے تھے کہ تھائی حکام رشوت کو کبھی نہ نہیں کہہ سکتے، اس لیے کریانگ کرائے نے سامان میں ایک لفافے میں پیسے ڈال کر اس کے ساتھ ایک نوٹ لکھ کر رکھ دیا
اس نوٹ میں انہوں نے لکھا ”میرے سامان میں فحش مواد موجود ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اس کی تلاشی نہ لی جائے“
ان کا منصوبہ کام کر گیا مگر کریانگ کرائے زیادہ عرصے تک انصاف سے بھاگ نہ سکے۔ جنوری سنہ 1990 میں انہیں تھائی لینڈ کے شمالی صوبے لمپانگ میں واقع ان کے گھر سے اس وقت گرفتار کر لیا گیا، جب سعودی حکام نے تھائی حکام کو اس حوالے سے اطلاع دی تھی
جواہرات اور نگینے جن میں سے کچھ وہ فروخت کر چکے تھے، اور کچھ ان کے پاس تھے، جلد ہی برآمد کر لیے گئے، مگر ان کی برآمدگی اور ان کی ریاض واپس منتقلی کے دوران ایک اور جرم ہو گیا
سعودی حکام نے کہا کہ تقریباً 80 فیصد ابھی بھی کم تھے جبکہ لوٹائے گئے کئی جواہرات نقلی تھے۔ اس کے بعد ایک سینیئر تھائی اہلکار کی اہلیہ کی کچھ تصاویر سامنے آئیں، جن میں انہوں نے ایک گمشدہ نیکلس سے انتہائی مماثلت رکھنے والا نیکلس پہن رکھا تھا
مگر سب سے زیادہ پریشانی جس ایک چیز کی گمشدگی پر تھی، وہ ایک انڈے کے سائز کا پچاس قیراط کا ایک نیلا ہیرا تھا
واضح رہے کہ دس ہزار ہیروں میں سے صرف ایک کا ہی غیر معمولی رنگ ہوتا ہے اور ان میں سے بھی بہت کم ہیرے نیلے رنگ کے ہوتے ہیں، چنانچہ یہ دنیا کے نایاب ترین اور قیمتی ترین جواہرات میں سے ہیں۔ ان کا مخصوص رنگ ان کے اندر موجود بوران عنصر کی ہلکی سی مقدار کی وجہ سے ہوتا ہے، جو زمین کی تہہ میں چھ سو کلومیٹر گہرائی میں ہیروں کے بننے کے وقت موجود تھا
آج دنیا میں موجود زیادہ تر نیلے ہیرے جنوبی افریقہ میں پریٹوریا کے نزدیک کلینن کان سے نکالے گئے ہیں، مگر سعودی نیلے ہیرے کا ماخذ معلوم نہیں ہے اور اس کی کوئی تصاویر بھی نہیں ہیں
کریانگ کرائے کی تقریباً تین سال قید اور سعودی عرب کی جانب سے گمشدہ جواہرات بالخصوص نیلے ہیرے کی گمشدگی سے متعلق انکار کے بعد کیس ختم ہو جانا چاہیے تھا، مگر اس کے بجائے تفتیش نے ایک خونی رخ اختیار کر لیا
فروری سنہ 1990ع کے اوائل میں بینکاک میں سعودی سفارت خانے کے ویزا سیکشن کے دو اہلکار تھائی لینڈ کے دارالحکومت میں اپنے کمپاؤنڈ کی جانب جا رہے تھے۔ اپنی منزل سے کوئی آدھ میل دور ان کی گاڑی پر مسلح افراد نے حملہ کر دیا اور دونوں اہلکار مارے گئے۔ اسی دوران ایک مسلح شخص ان دونوں اہلکاروں کے ایک ساتھی کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوا اور اسے گولی مار دی
اس کے کچھ ہفتے بعد سعودی کاروباری شخصیت محمد الرویلی کو بنکاک بھیجا گیا تاکہ وہ گمشدہ سامان کے بارے میں پتہ لگا سکیں۔ مگر انہیں بھی ہدف بنایا گیا۔ انہیں اغوا کیا گیا اور آج تک ان کا جسم نہیں مل سکا۔ خیال ہے کہ انہیں بھی قتل کر دیا گیا
ان تمام ہلاکتوں کے بارے میں کئی نظریات پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ سنہ 2010ع میں بینکاک میں امریکی سفارت خانے کے سفارتی عملے کے ڈپٹی چیف کی جانب سے لکھے گئے ایک سفارتی نوٹ، جسے بعد میں وکی لیکس نے شائع کیا، کے مطابق تینوں سفارتکاروں کا قتل ’تقریباً یقیناً‘ شیعہ مسلم عسکریت پسند گروہ حزب اللہ کے ساتھ سعودی مخاصمت کا ایک حصہ تھا
مگر ایک سعودی اہلکار بالخصوص اس حوالے سے قائل تھے کہ ان کے پیچھے کون ہو سکتا ہے
سفارت کاری میں پینتیس سال کا تجربہ رکھنے والے محمد سعید کھوجہ کو چوری کے کچھ ہی عرصے بعد تفتیش کی نگرانی کے لیے بینکاک بھیجا گیا۔ انہیں تھائی لینڈ میں صرف تین ماہ رہنا تھا، مگر وہ وہاں پر کئی سال تک مقیم رہے
تکنیکی طور پر وہ سفیر نہیں بلکہ اس سے ایک درجہ نیچے ’ناظم الامور‘ تھے۔ یہ اس لیے تھا کیونکہ سعودی عرب نے چوری اور ہلاکتوں کے بعد تھائی لینڈ کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات میں تنزلی کر دی تھی۔ اس اقدام سے سعودی عرب میں تھائی افرادی قوت کی تعداد دو لاکھ سے کم ہو کر صرف پندرہ ہزار رہ گئی تھی۔ اس سے مبینہ طور پر تھائی معیشت کو ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا کیونکہ اس کا کافی حد تک انحصار بیرونِ ملک سے موصول ہونے والے زرِ مبادلہ پر تھا
سخت گیر طبعیت کے مالک کھوجہ اپنی میز پر اپنی ’اسمتھ اینڈ ویسن‘ کی بندوق رکھ کر پریس کو انٹرویوز دیا کرتے اور اصرار کرتے تھے کہ تھائی پولیس مسلسل ان کے پیچھے ہے۔ ان کے انٹرویوز، جو کہ تھائی اخبارات کے صفحۂ اول پر شائع ہوتے تھے، کسی بھی سفارت کار کے حوالے سے نہایت بے لاگ ہوا کرتے تھے
وہ کھلے عام تھائی پولیس پر برآمد کیے گئے جواہرات چرانے اور اپنی اس خرد برد کو چھپانے کے لیے سعودی اہلکاروں کو قتل کرنے کا الزام عائد کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سعودی اہلکاروں کو اس لیے قتل کیا گیا تھا، کیونکہ وہ اس چوری کے بارے میں اہم معلومات تک پہنچ چکے تھے۔ سفارت کاروں کے قتل کی تحقیقات کے انچارج افسر پر محمد الرویلی کی گمشدگی کا باضابطہ الزام عائد کیا گیا مگر بعد میں یہ الزامات واپس لے لیے گئے
ستمبر سنہ 1994ع میں نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کھوجہ نے کہا تھا ”یہاں پر پولیس حکومت سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔ میں مسلمان ہوں اور میں یہاں اس لیے رکا ہوا ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میں شیطانوں سے لڑ رہا ہوں“
یہ اسی ماہ ان کے دیے گئے کئی انٹرویوز میں سے صرف ایک تھا اور یہ چوری سے منسلک ایک اور قتل کے فوراً ہی بعد دیا گیا تھا
سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے تھائی لینڈ اس کیس کا حل تلاش کر رہا تھا۔ تھائی حکام نے اس شخص کی نشاندہی کر لی تھی، جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ اس نے کریانگ کرائے کی تھائی لینڈ واپسی پر جواہرات کے اس ذخیرے کو سنبھالا تھا۔ جواہرات کے اس تھائی ڈیلر کے بارے میں مانا جا رہا تھا کہ اس نے اصل فروخت کر کے انھیں نقل سے تبدیل کر دیا تھا۔ اور وہی اس کیس میں مرکزی گواہ بنے
مگر جولائی سنہ 1994ع میں اس کی بیوی اور بیٹا لاپتہ ہو گئے اور بعد میں ان کی لاشیں بینکاک کے باہر ایک مرسیڈیز گاڑی سے ملیں۔ ویسے تو ان کی لاشوں پر شدید چوٹوں کے نشانات تھے مگر فارینسک رپورٹ کے مطابق ان کی ہلاکت ان کی گاڑی کی ایک بڑے ٹرک سے ٹکر سے ہوئی تھی۔ کھوجہ نے اس پر بھی کئی انٹرویوز دیے۔ ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا ”فارینسک کمانڈر سمجھتے ہیں کہ ہم بے وقوف ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا۔ وہ سب کچھ چھپانا چاہتے ہیں“
کھوجہ صحیح تھے۔ بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ گمشدہ جواہرات تلاش کرنے پر مامور پولیس نے اس میں سے کچھ خرد برد کر لیے تھے، جواہرات کے ڈیلر سے بھتہ لیا تھا اور ان کی اہلیہ اور بیٹے کو مار دیا تھا۔ اصل تحقیقات کے پولیس چیف انچارج شالور کرڈتھیس نے بالآخر بیس سال جیل میں گزارے
’جو کچھ بھی ہوا، وہ ایک ڈراؤنا خواب تھا‘
کریانگ کرائے اب پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں جیل سے رہا ہوئے اٹھائیس سال ہو چکے ہیں اور اس دلیرانہ چوری کو تیس سال۔۔ اب وہ شمال مغربی تھائی لینڈ میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں
اپنے انٹرویو کے دوران ان کی آنکھیں کبھی دائیں کبھی بائیں دیکھ رہی تھیں اور ان کا خوف واضح تھا۔ وہ بار بار پوچھتے رہے کہ کہیں انٹرویو کرنے والے رپورٹر پولیس افسر تو نہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ ان کے گھر سے باہر نکلیں اور قریب ہی واقع ان کے چاولوں کے کھیت میں کھڑے ہو کر بات کریں۔ گھٹنوں تک بلند اپنے پودوں کے درمیان راستہ بناتے ہوئے انہوں نے بات کرنا شروع کرتے ہوئے کہا وہ ”جو کچھ بھی ہوا، وہ میرے لیے ایک ڈراؤنا خواب تھا“
اگلے چند دنوں میں انہوں نے اُس چوری کے بعد سے اب تک کے سب سے تفصیلی انٹرویوز میں سے ایک دیا، جس کی وجہ سے کم از کم تین اور ممکنہ طور پر کئی دیگر لوگوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی انہیں خوف ہے کہ انہیں قتل کیا جا سکتا ہے۔ یہ خوف انہیں پکڑے جانے سے لے کر اب تک لاحق رہا ہے
وہ کہتے ہیں ”جس وقت مجھے گرفتار کیا، گیا اس وقت مجھے لگ رہا تھا کہ میں پاگل ہوں۔ میں اپنے ارد گرد موجود ہر کسی چیز کی وجہ سے گھبراہٹ اور خوف کا شکار تھا۔ میرے ذہن پر صرف ایک چیز سوار تھی کہ میں زندہ بچ نہیں سکوں گا۔ مجھے یہ بھی خوف تھا کہ کئی لوگ مجھے لاپتہ یا قتل کرنا چاہتے تھے۔ مجھے ایک ہفتے تک تو نیند ہی نہیں آئی“
کریانگ کرائے کا اصرار ہے کہ انہیں بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان کا کیا گیا جرم اس قدر حساس صورت اختیار کر لے گا۔ وہ جانتے تھے کہ سونا بہت قیمتی ہوتا ہے مگر انہیں دیگر اشیا کی پوری قیمت کا اندازہ جیل سے باہر آنے تک نہیں تھا
وہ کہتے ہیں ”جب پولیس نے مجھے ڈھونڈ نکالا تو میں نے لڑنے کے بجائے ہتھیار ڈالنے کو ترجیح دی۔ میں نے جواہرات بھی واپس لوٹا دیے اور فروخت کی جا چکی چیزوں کی واپس کے حصول میں مدد دی۔ اگر اس کہانی میں تھائی لینڈ کے طاقتور لوگ شامل نہ ہوتے تو یہ معاملہ اس قدر نہ الجھتا“
اپنا جرم قبول کرنے کے بعد ان کی سزا پانچ سال سے کم کر کے دو سال اور سات ماہ کر دی گئی۔ جیل سے نکلتے ہی انہوں نے اپنے بیٹے کو شرمندگی سے بچانے کے لیے اپنا آخری نام تبدیل کر لیا
مگر وہ اپنے کیے پر پچھتاتے رہے۔ وہ کہتے ہیں ”جیل کے بعد میری زندگی مایوسیوں اور افسوس ناک واقعات سے پُر رہی۔ چنانچہ مارچ سنہ 2016 میں انہوں نے بدھ راہب بننے کا فیصلہ کر لیا
جب وہ تربیت پا کر راہب بن گئے تو ایک تقریب میں انھوں نے میڈیا کو مدعو کیا اور چند الفاظ کہے: ‘میں زندگی بھر کے لیے راہب بننا چاہتا ہوں تاکہ چوری کیے گئے ہیرے کی نحوست کو مٹا سکوں اور اپنی اچھائی ان لوگوں کے لیے وقف کر سکوں، جنہیں میرے برے اعمال سے نقصان پہنچا ہے اور ان کے لیے جو ماضی کے واقعات میں ہلاک ہوئے ہیں۔ میں اپنے کیے پر ہر کسی سے معافی کا طلبگار ہوں۔’
ایک راہب کے طور پر کریانگ کرائے نے اپنے لیے جو نام چنا، اس کا مطلب ہے: ’ہیرے جیسا مضبوط‘
اس دن وہاں موجود لوگوں میں شالور کرڈتھیس بھی تھے جنھیں جواہرات کے ڈیلر کے خاندان کے قتل کے لیے قید کی سزا ہوئی تھی۔ تھائی میڈیا کے مطابق جیل میں بھی ان کا بیان تھا کہ وہ مجرم نہیں ہیں اور انکوں نے مشہور گلوکار ایلوس کی نقالی میں ملکہ حاصل کر لیا تھا۔ رہائی کے بعد انھوں نے بھی راہب بننے کا فیصلہ کیا مگر خانقاہ میں وہ زیادہ عرصہ نہیں رکے
صرف شالور اور کریانگ کرائے نیلے ہیرے کے اس پورے معاملے میں جیل جانے والے لوگ ہیں۔ مارچ میں تھائی لینڈ کی سپریم کورٹ نے پانچ سابق پولیس اہلکاروں کو سعودی کاروباری شخصیت محمد الرویلی کی گمشدگی اور قتل کے پانچ ملزموں کو بری کر دیا تھا
خانقاہ میں بھی کریانگ کرائے اپنے ماضی سے پیچھا نہیں چھڑا سکے۔ لوگ انہیں ڈھونڈتے اور ان سے پوچھتے کہ انہوں نے نیلا ہیرا کہاں چھپا رکھا ہے۔ وہ انہیں کچھ نہیں بتاتے، جس سے لوگ یہ سمجھتے کہ انہوں نے یہ گھر پر چھپا رکھا ہے۔ نیلا ہیرا آج تک نہیں مل سکا ہے
کریانگ کرائے اس خانقاہ میں صرف تین سال رہے۔ وہ کہتے ہیں ”میں زندگی بھر کے لیے راہب نہیں بنا رہ سکتا تھا کیونکہ میرا خاندان بھی ہے۔“ اب اکسٹھ سال کے ہو چکے کریانگکرائی گزر بسر کے لیے کوئی بھی کام کر لیتے ہیں، چاہے چاول کے کھیت اگانا ہو یا مرمت وغیرہ
اپنے لکڑی کے گھر میں بیٹھے کریانگ کرائے کہتے ہیں ”اب میں ایک دیہاتی کے طور پر عام زندگی جیتا ہوں۔ میرے پاس زیادہ پیسے نہیں ہیں۔ یہ صرف میرے خاندان کی گزر بسر جتنے ہی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میرے لیے یہی حقیقی خوشی ہے“