یہ 17 نومبر 1875ع کی بات ہے جب نیویارک سٹی میں کچھ دوستوں نے، جن میں میڈم ھیلینا پیٹرونا بلواسکی ، ھینری اسٹیل اولکاٹ ، ولیم کئان جج اور دوسرے شامل تھے ، نے مل کر تھیاسافیکل سوسائٹی کی بنیاد رکھی
تھیاسافیکل معنی "انسانوں کا علم” ( علم الانسان) ۔ اس سوسائٹی کا بنیادی مقصد انسانوں کو سمجھنا ، ان کے حقوق اور ان کی خدمت کرنا ہے۔ اس مقصد کے یہ افراد 1875ع سے بین الاقوامی طور مصروف ہیں
ھینری اسٹیل اولکاٹ اس تنظیم کے پہلے صدر منتخب ہوئے ۔ کچھ سالوں بعد مسٹر اولکاٹ اور میڈم بلواسکی اس تنظیم کو قائم کرنے کے لیے ھندستان آئے اور چنائی (پرانا مدراس) کے "ادیار” دریاء کے کنارے ادیار شہر میں تھیاسافیکل سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ ادیار ہی کو تھیاسافیکل سوسائٹی کا انٹرنیشنل ھیڈ کوارٹر بنایا، جو آج تک بین الاقوامی مرکز ہے
ادیار کے جس علاقے میں یہ مرکز ہے، وہ اینی بیسنت کے نام سے "بیسنت نگر” کے نام سے مشہور ہے
1907 میں جب تنظیم کے صدر ھینری اولکاٹ فوت ہوئے تو تنظیم کے اجلاس میں میڈم اینی بیسنت کو سوسائٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ اینی بیسنت 10 اکتوبر 1847 کو لندن میں پیدا ہوئیں ،اس نے 21 مئی 1889 میں تنظیم میں شمولیت اختیار کی اور 1893 میں وہ انڈیا آئیں ۔انہوں نے انڈیا کو اپنے سیاسی اور سماجی پروگراموں کا مرکز بنایا
اینی بیسنت 1907 سے مرتے دم (1943) تک تھیاسافیکل سوسائٹی انٹرنیشنل کی صدر رہیں ۔ اینی سماجی کاموں کے ساتھ تعلیم کے شعبے اور سیاست میں سرگرم رہیں ۔ انہوں نے اس سوسائٹی کو بر صغیر میں مشہور اور مقبول کیا۔ سیاست میں انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کو جوائن کیا ، ستمبر 1916 میں اینی نے ” ھوم رول لیگ ” کی بنیاد رکھی ۔
ڈاکٹر اینی بیسنت کی کوششوں سے 1896 میں کراچی تھیاسافیکل سوسائٹی کی بنیاد رکھی گئی ۔ عمارت نہ ہونے کی وجہ سے اس کے پروگرام مختلف جگہوں پر ہوتے تھے ۔موجودہ جگہ پر 1896 کو زمین حاصل کرکے عمارت کی تعمیر شروع کی گئی ۔
بعد میں بندر روڈ پر ضلع لوکل بورڈ کے آفس، جو اب ریڈیو پاکستان مشہور ہے، کے سامنے 1910 میں پرانی عمارت کی جگہ موجودہ عمارت مکمل کی، یہ نئی عمارت پرانی عمارت کو مسمار کرکے بنائی گئی ۔ یہاں اسٹیج ڈراموں اور لیکچر کے لیے بڑا ھال اور آڈیٹوریم بنایا گیا، اس کے ساتھ جارج کلارک لائبریری بھی بنائی گئی۔
جمشید مہتا جو کراچی میونسپلٹی کے منتخب صدر اور میئر رہے ہیں، جو مشہور سماج سدھارک تھے، جو جدید کراچی کے معماروں میں سے ایک معمار تھے ،انہوں نے اپنی پوری زندگی کراچی کے لوگوں کی خدمت کرتے گذاری ۔کراچی شہر ان کے خدمتوں کا ایک یادگار ہے ۔
جمشید مہتا نے 1909 میں ڈاکٹر اینی بیسنت سے ملاقات کی اور اینی کے لیکچرز سے متاثر ہوکر سوسائٹی میں شامل ہوئے۔ جمشید نے اپنے ساتھیوں سے مل کر کراچی میں تھیاسافیکل سوسائٹی کو مضبوط کیا اور سوسائٹی کا پروگرام گھر گھر پہچایا ۔
1933 میں میونسپلٹی چھوڑنے کے جمشید نے پورا دھیان سوسائٹی کو مضبوط کرنے پر دیا ۔ وہ اینی بیسنت کے ھوم رول لیگ میں شامل ہوئے اور کراچی کے لیگ 1917 میں پہلے صدر منتخب ہوئے۔جمشید مہتا کے علاوہ سندھ سے سنت داس منگھارام اور صحافی ادیب جیٹھمل پرسرام بھی اینی کے لیکچرز سے متاثر ہوکر تھیاسافیکل سوسائٹی اور ھوم رول لیگ میں شامل ہوئے اور سرگرم رہے۔
کراچی کے علاوہ حیدرآباد میں تھیاسافیکل سوسائٹی قائم کرنے لوگوں کو ھمت دی ، جیسے جیٹھمل پرسرام ، سنت منگھارام ملکانی اور رئیس غلام محمد بھرگڑی پورا کیا۔ حیدرآباد میں تھیاسافیکل سوسائٹی کا جو ھال ہے، اس جا نام ڈاکٹر اینی بیسنت کے نام سے "بیسنت ھال ” رکھا گیا ، جو آج بھی اسی نام سے ہے۔
ڈاکٹر اینی بینست نے 1922 میں حیدرآباد میں "نیشنل کالج ” بنانے میں مدد کی۔1898 میں انڈیا میں "سینٹرل ھندو کالج” قائم کرنے میں بھی مدد کی تھی ۔
1918 میں جب اینی بیسنت کو نظر بند کیا گیا تو ان کے حامیوں اور سوسائٹی کے لوگوں نے کراچی تھیاسافیکل ھال میں ایک احتجاجی پروگرام منتخب کیا ، احتجاج کے بعد جیٹھمل پرسرام سمیت بہت سے لوگوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ جیٹھمل اس وقت "سندھ واسی” اخبار کے ایڈیٹر تھے ۔ ان کو رولٹ ایکٹ خلاف مضمون لکھنے کی پاداش میں بغاوت کا مقدمہ درج کرکے دو سال کی سزا دی گئی، 1920 کو وہ رہا ہوئے۔
کراچی میں مندرجہ بالا لوگوں کے علاوہ سائیں جی ایم سید ، ریجھو مل اڈوانی ، غلام علی چاگلہ ، حاتم علوی ، ڈاکٹر ھوت چند مول چند گربخشانی ، ھرچند رائے وشن داس ، منگھارام ٹہلرام ، مسز گل کے مینوالا ، مسٹر تھدانی ، حیدر بخش جتوئی سرگرم تھے ۔ یہ سب لوگ مذھب کو سیاست سے الگ کرنے کے حامی تھے، جس کی وجہ سے انہیں مذھبی جماعتوں اور لوگوں کی مخالفت سامنا کرنا پڑا ۔
جمشید مھیتا کئی سالوں تک کراچی سوسائٹی کے صدر رہے ۔ہر ھفتے کو تھیاسافیکل ھال میں جمشید مہتا لیکچر دیتے تھے، جو 1952 تک ان کی وفات تک جاری رہے۔ بعد میں یہ زمیداری گل کے مینوالا نے سنبھالی
تھیاسافیکل سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے مشہور عالم کرشنا مورتی ، ڈاکٹر اینی بیسنت کی درخواست پر بہت مرتبہ کراچی ھال میں لیکچر دیتے رہے
جمشید کے بعد مسز گل کے مینوالا نے اپنی پوری زندگی تھیاسافیکل سوسائٹی میں عوامی خدمت میں گذار دی۔ یہ مشہور سماج سدھارک اور تعلیمی ماھر 1913 میں کراچی کے ایک مشہور پارسی گھرانے بہرام جی پی پرڈی کے گھر پیدا ہوئیں ۔
جمشید مھیتا کے کاموں سے متاثر ہوکر 13 اپریل 1935 کو سوسائٹی میں شاملِ ہوئیں .17 دسمبر 1933 میں ان کی شادی مسٹر مینوالا سے ہوئی ۔
جب دنیا میں بچوں کی تعلیم کے سلسلے ایک جدید تعلیمی نظام "مونٹیسری” کی بنیاد رکھی گئی تو سندھ میں اس نظام کو متعارف کرانے کے لیے جمشید مہتا نے گل مینوالا کو تھیاسافیکل سوسائٹی کے طرف سے انڈیا بیجھا، وہاں گل مینوالا نے اس نظام کی بانی ڈاکٹر ماریا مونٹیسری سے ملاقات کی ، وہاں تربیت حاصل کرکے وہ کراچی آئیں۔
تھیاسافیکل سوسائٹی کراچی ھال کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ سب سے پہلے موجودہ پاکستان کے علاقوں میں اس جدید نظام کی بنیاد کراچی کے اسی ھال میں پڑی، جس کا سہرا گل کے مینوالا کے سر ہے۔
(ڈاکٹر ماریا کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے طوالت سے بچنے کے لیے اس کا ذکر کسی اور دفعہ۔۔ ویسے میری کتاب "کراچی:انگریز دور کی مشہور عمارتوں میں یہ ذکر موجود ہے۔)۔
یہاں ایک تصویر لگی ہوئی ہے، جس میں محمد علی جناح بھی ہیں جو اینی بیسنت سے ایک ملاقات کے بعد لی گئی تھی۔
کراچی تھیاسافیکل سوسائٹی ھال کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے ،1946 اور 1949 کو دو مرتبہ ڈاکٹر ماریا مونٹیسری اور اس کا بیٹا یی۔ایچ ڈی ڈاکٹر ماریو مونٹیسری اس نظام کو دیکھنے اور لیکچر دینے آئے تھے۔لیکچر کے سوا 1949 میں پاکستان میں پہلی مرتبہ کراچی تھیاسافیکل ھال میں”مونٹیسری ٹیچر ٹریننگ کورس”کا افتتاح کیا
یاد رہے کہ یہ نظام یہاں گل کے ۔ مینوالا کی کوششوں اور محنت سے کامیابی سے ھمنکار ہوا اور آج تک چل رہا ہے ۔ مونٹیسری اسکول کا نام اب جمشید میموریل اسکول یے۔
24 ستمبر 2016 کو تھیاسافیکل سوسائٹی کے کانفرنس روم میں ماریا مونٹیسری کی سالگرہ منائی گئی، جس میں مَیں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ شریک رہا
تھیاسافیکل آرڈر آف سروس ( ToS) سوسائٹی کی تعلیمی اور سماجی ذیلی شاخ ہے۔ یہ بھی 1950 میں گل مینوالا کے کوششوں سے قائم ہوا۔ اسی سال سوسائٹی کے ھال میں اس کا افتتاح ہوا جو آج بھی فعال ہے اور اس وقت کراچی کے مشہور خواجہ کمیونٹی کے مشہور تھیافیسٹ مشتاق علی چندانی اس کے ڈائریکٹر تھے۔
1952 میں جمشید مہتا کی وفات کے بعد تھیاسافیکل ھال کا نام "جمشید مہتا” ھال رکھا گیا ۔ 1968 میں یہاں جمشید میموریل اسکول کا قیام عمل میں لایا گیا ،جو مونٹیسری نظام سے منسلک ہے۔
گل کے مینوالا 20 مئی 2002 کو وفات پا گئیں۔ ان کی خدمات کے عوض ان کے نام پر "گل مینوالا میموریل انسٹیٹیوٹ” کی بنیاد رکھی گئی
ایک اور نام، جن کی کوششوں اور کاوشوں سے اس ادرے نے بہت ترقی کی، وہ مشہور اسماعیلی سماج سدھارک امیر علی ھود بائی ہیں ، جو وائس آف امریکہ کے نفیسہ ھود بائی اور ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کے والد ہیں ۔وہ 1968 سے 1997 تک سوسائٹی کے اعزازی سیکریٹری ریے۔
اس ٹیم میں ایک اور نام "دارا فیروز مرزا” کا ہے، جو مرزا قلیچ بیگ کے بھائی مرزا جعفر قلی بیگ کے بیٹے، مرزا سڈنی بیگ کے پوتے تھے۔ وہ کئی سالوں تک تھیاسافیکل سوسائٹی کراچی کے صدر رہے۔ تھیاسافیکل سروس آف آرڈر کے کونسل آف مینجمنٹ کے میمبر اور انڈو پیسفک فیڈریشن آف تھیاسافیکل سوسائٹی کے نائب صدر تھے ۔ کراچی میں جب شدید مذھبی اور لسانی سیاست عروج پر تھی ،تو مرزا دارا فیروز نے اس کو سہارا دیا ، ان کو دھمکیاں دی گئیں، حکومت کو اطلاع دینے کے باوجود حکومت نے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔ 14 ستمبر 2007 کو جب گھر سے آفس کے لیے نکلے تو راستے میں انہیں اغوا کیا گیا ، دو دن بعد ان کی لاش ماریپور کے علاقے سے ملی۔
دارا فیروز کی وفات کے بعد یہاں موجود آڈیٹوریم کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ۔مرزا کے قتل کی وجہ سے سوسائٹی کی سرگرمیوں کو معطل کیا گیا ، آگ لگانے کے دھمکیوں کے باعث "سر جارج کلارک لائبریری” کو بند کرے کتابیں یہاں سے شفٹ کی گئیں، شفٹنگ میں کئی قیمتی کتابیں غائب ہوگئیں ۔
جب کراچی کی رونقیں بحال ہوئیں تو تھیاسافیکل سوسائٹی کی رونقیں بھی آہستہ آہستہ بحال ہونے لگیں ، لائبریری کو دوبارہ فعال کیا گیا ۔ پروگرام دوبارہ شروع کیے گئے۔ میں اکثر پرانی تھیافیسٹ کامریڈ روچی رام کے ساتھ یہاں کے پروگراموں میں شرکت کے لیے جاتا تھا لیکن گزشتہ کئی سالوں سے مصروفیات کے باعث نہ جا سکا۔
جب میرا جانا ہوتا تھا، تو اس وقت لائبریری کے انچارج کراچی میونسپلٹی کے دس سال تک منتخب صدر رہنے والے کے خاندان سے سیٹھ سکھدیو ادوداس کے بھتیجے بھگوان بھاروانی تھے۔
یہاں آڈیٹوریم میں بہت سے پروگرام اور ڈرامے ہوئے، جن کی تفصیل بہت طویل ہے۔
جی ایم سید اور جیٹھمل پرسرام کی کوششوں سے 7 دسمبر 1929 کو یہاں سچل سرمست کا پروگرام ہوا تھا ۔ 9 اور 10 دسمبر 1929 کو یہاں کرشنا مورتی کا لیکچر یوا تھا۔۔
مشہور کانگریسی رہنما سندھ اسمبلی کی پہلی ڈہٹی اسپیکر جیٹھی لکھمیداس سپاھیملانی تھیاسافیکل سوسائٹی کے یوتھ لاج کی صدر بھی تھیں اس کے بعد جی سیپٹمبر 1932 میں جی ایم سید یوتھ لاج کے صدر اور مس جمنی تھدانی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔
1929 یہاں آل انڈیا ویمینز کانفرنس یہاں منعقد ہوئی، اس موقعے پر لعل ڈنو امر ڈنو لعل کا ڈرامہ "عمر ماروی”یہاں اسٹیج کیا گیا۔
کامریڈ روچی رام نے ایک نشست میں بتایا کہ 1930 میں سندھ میں حیدر بخش جتوئی سے پہلے اینی بیسنت کے کوششوں سے میر پور خاص میں جمیشد مہتا، جی ایم سید ، جیٹھمل پرسرام کو بھیج کر ھاری کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی۔
یہاں امر جلیل کا پہلا ڈراما اسٹیج ہوا تھا۔ یہاں امر جلیل نے دو یا تین ڈرامے ڈائرکٹ بھی کیے تھے۔ یہاں مشہور ڈراما "غالب بندر روڈ پر”اسٹیج ہوا اور بہت مقبول رہا ۔
باتیں بہت ہیں، لیکن طوالت کی وجہ اسے کم کیا گیا، اس کے بارے میں تفصیل میری کتاب”کراچی: انگریز دور جون مشہور عمارتوں "سندھی میں موجود ہے۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)