اس وقت دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر محفوظ کیے گئے ڈیٹا کا حجم اور پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا شہر کوئٹہ۔۔۔ یہ بات یقیناً آپ کے لیے تعجب کا باعث ہوگی، کہ ان کا آپس میں تعلق کیا ہے۔۔ بے تکی اور بے جوڑ سی بات لگتی ہے نا؟
اُس دور میں، جب انسان نے ابھی زیادہ ترقی کی منازل طے نہیں کی تھیں، تو زندگی سادہ تھی۔۔ زندگی سے جڑی چیزوں اور معاملات کی اصطلاحات بھی اتنی گنجلک نہیں تھیں۔۔ وزن کو سیر، من، کلوگرام اور ٹنوں میں تولا جاتا اور فاصلہ فرلانگ، میل، میٹر یا پھر کلومیٹر میں ناپا جاتا تھا
لیکن اب تیز رفتار ترقی کے بعد دنیا نہ صرف بدل چکی ہے بلکہ تسلسل کے ساتھ مزید تبدیل ہو رہی ہے
یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے انسانیت ترقی کر رہی ہے اور دنیا بدلتی جا رہی ہے، اسی رفتار سے ماہرین کے طے کردہ پیمائش اور وزن کے پیمانے بھی چھوٹے پڑتے جا رہے ہیں
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک عالمی کانفرنس موجود ہے، جو باقاعدہ پیمائش اور اوزان کے ان پیمانوں کا تعین ایک کرتی ہے؟
جی ہاں، یہ کانفرنس ہر چار سال بعد فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے نواح میں ویرسائے میں منعقد ہوتی ہے۔ اس کانفرنس کو ’پیمائش اور اوزان کی جنرل کانفرنس‘ کہتے ہیں اور اس کا انعقاد اوزان اور پیمائشوں کا انٹرنیشنل بیورو کرتا ہے
اس تازہ ترین عالمی کانفرنس کا انعقاد ویرسائے میں 15 سے 18 نومبر تک ہوا۔ اس جنرل کانفرنس میں دنیا کے 64 ممالک کے اعلیٰ ماہرین اور سائنسی نمائندوں نے حصہ لیا۔ اس میں پیمائشوں اور اوزان کے موجودہ عالمی نظام میں کئی نئے اضافوں کا فیصلہ کیا گیا
یہ اضافے اس کانفرنس کے آخری روز متفقہ طور پر منظور کیے گئے اور ان کے فوری طور پر نفاذ کا فیصلہ بھی کر لیا گیا۔ 1991ع کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ اس عالمی کانفرنس نے اپنے مسلمہ معیارات میں نئے اضافوں کا فیصلہ کیا
پیمائشی اکائیوں کے عالمی نظاموں میں رواں صدی کے دوران پہلا اضافہ
اس عالمی کانفرنس کے شرکاء کا خیال تھا کہ تیز رفتار سائنسی ترقی اور ورلڈ وائڈ ویب (www) پر محفوظ کیے گئے ڈیٹا کے حجم میں ناقابل یقین رفتار سے جو اضافہ ہو چکا ہے اور جو آئندہ برسوں میں مزید ہوگا، اس کے پیشِ نظر پیمائشوں اور اوزان کے موجودہ عالمی نظاموں میں بھی توسیع ناگزیر ہو چکی ہے
اس سلسلے میں ایک فیصلہ کن قدم ایک برطانوی سائنسدان ڈاکٹر رچرڈ براؤن نے اٹھایا۔ انہوں نے موجودہ گلوبل یونٹ سسٹمز میں بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کی پیمائش اور اوزان کے تعین کے لیے سابقوں یا سابقات (prefixes) کی صورت میں اس کانفرنس کے شرکاء کو چار ایسی نئی لیکن جدت پسندانہ اصطلاحات تجویز کیں، جو اتفاق رائے سے منظور کر لی گئیں
ڈاکٹر رچرڈ براؤن برطانیہ کی نیشنل فزیکل لیبارٹری سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کہا ”وزن اور پیمائش کے یہ چاروں نئے معیارات اسی نوعیت کے سابقات کی مدد سے تیار اور منظور کیے گئے ہیں، جن سے ہم میٹرک سسٹم میں پہلے ہی سے واقف ہیں۔ مثلاﹰ سینٹی گرام کا مطلب ایک گرام کا سوواں اور ملی گرام کا مطلب ایک گرام کا ہزارواں حصہ ہوتا ہے۔‘‘
برطانیہ کی نیشنل فزیکل لیبارٹری کے میٹرولوجی (Metrology) کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر رچرڈ براؤن کا کہنا تھا ”گزشتہ تیس برسوں میں دنیا بھر میں موجود ڈیٹا یا عرفِ عام میں ’ڈیٹا سفیئر‘ دن دگنی اور رات چوگنی رفتار سے بڑھتا رہا ہے۔ ڈیٹا ماہرین کو احساس ہو گیا تھا کہ ان کے پاس اب ایسے کوئی الفاظ یا معیارات موجود ہی نہیں، جن کی مدد سے ڈیٹا اسٹوریج کی ایسی کسی سطح یا پیمانے کو بیان کیا جا سکے۔ اس لیے یہ نئی اصطلاحات لازمی ہو گئی تھیں اور یہ عمل مستقبل میں بھی جاری رہے گا‘‘
اس سال پیمائشوں اور اوزان کی عالمی کانفرنس اور اس کے فیصلوں کے نتیجے میں اس شعبے کی اعلیٰ ترین بین الاقوامی اتھارٹی یعنی پیمائشوں اور اوزان کے انٹرنیشنل بیورو نے جن چار نئی اصطلاحات کے فوری نفاذ کا فیصلہ کیا، ان کے نام یہ ہیں:
رونا (ronna)،
کوئٹہ (quetta)،
رونٹو (ronto)
اور کوئکٹو (quecto)
اب سوال یہ ہے کہ رونا بڑا ہوتا ہے یا کوئٹہ؟ اس کا جواب: ایک کوئٹہ ایک ہزار رونا کے برابر ہوتا ہے۔ یعنی اگر کسی بہت بڑے عدد میں ایک کے بعد ستائیس مرتبہ صفر آئے تو وہ ایک رونا ہوگا: 1000,000,000,000,000,000,000,000,000
اسی طرح کسی بہت بڑے عدد میں اگر ایک کے بعد تیس مرتبہ صفر آئے، تو وہ ایک کوئٹہ ہو گا: 1000,000,000,000,000,000,000,000,000,000
اب بڑی سے بڑی کے مقابلے میں اگر کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کا تصور کیا جائے، تو جو نئی اصطلاحات نافذ ہو گئی ہیں، وہ رونٹو اور کوئکٹو ہیں۔ کسی بہت چھوٹے عدد میں صفر اعشاریہ کے بعد مزید ستائیس صفر لگائے جائیں، تو وہ ایک رونٹو ہوگا
اسی طرح ایک کوئکٹو ایک رونٹو سے بھی ہزار گنا چھوٹا ہوگا اور اس میں کسی عدد میں صفر اعشاریہ کے بعد مزید تیس صفر لگائے جائیں تو ایک کوئکٹو بنے گا
ویرسائے کی عالمی کانفرنس کے مندوبین نے اپنے برطانوی ساتھی رچرڈ براؤن کی تجاویز میں سے کوئٹہ نامی جس یونٹ کو نیا عالمی معیار مانا ہے، اس کا صرف نام ہی پاکستانی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ جیسا نہیں بلکہ انگریزی میں اس کے ہجے بھی بالکل وہی ہیں
لیکن ڈاکٹر براؤن نے کوئٹہ کا نام ہی کیوں منتخب کیا؟ انہوں نے ایسا بنا سوچے سمجھے نہیں بلکہ طویل غور و فکر کے بعد کیا۔ تاہم گنتی کے نئے عالمی یونٹ کے طور پر کوئٹہ کا بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے بالکل کوئی تعلق نہیں
اس کے باوجود یہ بات یقینی ہے کہ آئندہ برسوں میں پاکستانی شہر کوئٹہ کے اسی نام سے ایک نئے گلوبل اسٹینڈرڈ یونٹ کے طور پر دنیا کا تقریباً ہر انسان واقف ہوگا
نئے گلوبل اسٹینڈرڈ یونٹس کے طور پر ان نئے ثابقات prefixes کے لیے لازمی تھا کہ وہ انگریزی کے حروف آر (r) اور کیو (q) سے شروع ہوتے ہوں۔ اس لیے کہ انگریزی حروف تہجی کے یہی وہ دو حروف ایسے تھے، جنہیں آج تک استعمال نہیں کیا گیا تھا
اس کے علاوہ اس روایت کا احترام بھی لازمی تھا کہ یہ سابقاتںیا پری فکسز جہاں تک ممکن ہو، سننے میں اپنے اپنے پہلے حروف کی یونانی زبان میں سنائی دینے والی آوازوں جیسے لگیں
ایک اور شرط یہ تھی کہ بڑے عدد کے لیے استعمال ہونے والا سابقہ انگریزی کے حرف اے (a) پر ختم ہو اور چھوٹے عدد کے لیے استعال ہونے والا سابقہ انگریزی کے حرف او (o) پر۔ اس طرح ڈاکٹر براؤن نے ronna، quetta، ronto اور quecto کی اصطلاحات کی ایجاد کا مرحلہ طے کیا
چند حیران کن مثالیں
۔ ایک الیکٹران کی کمیت تقریباً ایک رونٹوگرام ہوتی ہے
۔ کسی موبائل فون میں محفوظ ڈیٹا کی ایک بائٹ کی کمیت ایک کوئکٹوگرام ہوتی ہے
۔ زمین کے نظام شمسی کے پانچویں اور مجموعی طور پر سب سے بڑے سیارے مشتری کی کمیت صرف دو کوئٹہ گرام بنتی ہے
۔ اسی طرح پوری کی پوری قابل مشاہدہ کائنات کا قطر محض ایک رونامیٹر بنتا ہے
ڈاکٹر رچرڈ براؤن کہتے ہیں ”چیزیں پھیلتی جا رہی ہیں اور ہمیں نت نئے الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے۔ پچھلی صرف چند دہائیوں میں ہی دنیا ایک بالکل مختلف جگہ بن چکی ہے‘‘