فری میسن لاج ھال اور تنظیم کراچی
آج کہانی ہے سندھ کی راجدھانی کراچی میں موجود فری میسن لاج عمارت اور تحریک کی۔۔
انگریز دور میں بننے والا یہ پہلا ہال تھا، جو عوامی نہیں تھا۔ یہ ہال بین الاقوامی تنظیم فری میسن والوں نے بنایا تھا۔ عمارت کا سنگ بنیاد 6 ستمبر 1843ع کو رکھا گیا تھا۔ جبکہ کراچی میں فری میسن تحریک کی بنیاد 1842ع کو پڑی تھی، جو سندھ کے پہلے گورنر سر چارلس نیپیئر نے رکھی تھی
24 مئی 1846ع کو عمارت مکمل ہوئی تو اس کا افتتاح چارلس نیپیئر نے کیا، وہ تقریب کے مہمان خصوصی تھے ۔ یہ عمارت انگل روڈ (اب دین محمد وفائی روڈ) پر وائی ایم سی اے (YMCA) کے ساتھ ہے۔ اس کے ایک طرف ایوان صدر (اب گورنر ہاؤس) ہے۔ سامنے والا راستہ پریس کلب کی طرف جاتا ہے۔
1991ع سے یہ عمارت سندھ وائلڈ لائف کے حوالے ہے، جو ان کی مرکزی آفس ہے۔ ماضی میں یہ عمارت فری میسن تنظیم کا ھیڈ کوارٹر تھی، جہاں تنظیم کے اجلاس، ثقافتی اور سماجی پروگرام ہوتے تھے۔ اس عمارت بننے سے پہلے تنظیم کے پروگرام سندھ کلب میں ہوتے تھے۔
موجودہ عمارت 1914ع میں مکمل ہوئی، جو پرانی عمارت کو مسمار کر کے بنائی گئی۔ یہ دو منزلہ خوبصورت عمارت گزری کے پہاڑوں کے پتھر سے بنائی گئی تھی۔ اوپر والی منزل میں ہال اور کمرے ہیں۔ اوپر جانے کے لیے لکڑی کا زینہ بنا ہوا ہے، نیچے دونوں اطراف سنگ مرمر کے بورڈ لگے ہوئے ہیں، جن پر تنظیم کے بارے میں تفصیلات درج ہیں۔ بورڈ پر ہال کے لیے The Temple لکھا ہوا ہے۔
ٹیمپل(Temple), لاج, پاسٹ ماسٹر اور دیگر اصطلاحات سمجھانے کے لیے پڑھنے والوں کو فری میسن تنظیم کے بارے مختصر جان کاری دینے کی کوشش کروں گا۔
فری میسن کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہے، کیونکہ اس تنظیم کی سرگرمیوں اور ممبران کے متعلق جان کاری خفیہ رکھی گئی تھی۔ ممبران کے پاس ورڈ، کوڈ اور کچھ مخصوص نشانیاں استعمال کرنے کی وجہ سے فری میسن اور فری میسنرین کے بارے میں یہ بات مشہور ہوئی کہ یہ ایک خفیہ تنظیم ہے۔ ان کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا اور لکھا گیا کہ ”یہ ’شیطانوں کا ٹولہ‘ ہے اور دنیا میں فسادات کا بنیادی سبب یہ تنظیم ہے۔ یہ کوئی الگ مذہب بنانے کے لیے کوشاں ہیں“
فری میسن تنظیم اوپر لگائے گئے الزامات رد کرتی آئی ہے، جن کا ذکر آگے کروں گا ۔ یہاں رچرڈ برٹن کی کتاب Sind Unhappy Velly سے ایک اقتباس دے رہا ہوں، جب وہ کراچی آئے تھے۔ جس میں رچرڈ برٹن پرانی عمارت اور تنظیم کے بارے میں کراچی کے مقامی لوگوں کے ویچار/ خیالات دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”اس وقت میں کراچی کے اسٹاف لائینز والے علاقے میں ھز ایکسیلنسی گورنر یا کمشنر یہاں رہتے ہیں ۔ یہاں کھڑکیوں سے بے نیاز ایک حیرت میں گرفتار کرنے والی جگہ یے ، جس کو ’فری میسن لاج‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہاں کے لوگ اس کو ’جادو گھر‘ بھی کہتے ہیں۔ یہاں بینڈ باجے کے ساتھ جادوگروں کا ٹولہ رہتا ہے، جو شیطان کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ کے بندوں کے خلاف منصوبے بناتے ہیں ۔ یہ یہاں کے لوگوں کا ایک ان دیکھا اور خراب خیال ہے۔ مشرق کے کچھ عالم کہتے ہیں کہ فری میسن گبر مذھب ہے، جس کی بنیادیں عیسائیت سے ملتی ہیں ۔ مسٹر بل! ہر آدمی کو گبرزم ھر مذھب میں موجود نظر آتا ہے۔“
رچرڈ برٹن کا خیال درست ہے کہ اس وقت بہت سے کراچی کے لوگ اس کلب ، فری میسن کے بارے میں واقف نہیں تھے۔ یہاں ڈرامے ہوتے تھے، اس لیے یہاں ڈرامے کرنے والوں کو ’جادوگروں کا ٹولہ‘ کہتے تھے اور پرانے فری میسن کے لاج کو ’جادو گھر‘ کہتے تھے۔
فری میسن دنیا میں پرانی اور بھائی چارے کی تنظیم ہے۔ 1717 سے پہلے کی کوئی تحریر یا دستاویز موجود نہیں ہے، لیکن 1390ع میں ایک نظم کی صورت میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
1717ع میں انگلستان میں قائم چار فری میسن لاجز نے مل کر ’گرینڈ لاج‘ کی بنیاد رکھی، جو اب تک موجود ہے۔ اس کے بعد فری میسن کے بارے میں معلومات موجود ہے ، جو گوگل پر سرچ کر کے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس دستاویزات میں مختلف ممالک میں بننے والی ’گرینڈ لاج‘ (Grand lodge) کے بارے میں جانکاری ملتی ہے۔
انگلینڈ کے آئرلینڈ میں 1725، فرانس میں 1728، متحدہ امریکہ میں 1733 اور اسکاٹ لینڈ میں 1736 میں فری میسن گرینڈ لاج وجود میں آئے ۔
کسی علاقے میں ایک سے زائد فری میسن لاج مل کر اس کی بنیاد رکھتے ہیں ، اس کا مطلب یہ کہ ان علاقوں یا شہروں میں فری میسن لاج یا ھال موجود ہے۔ لاج اصل میں فری میسن کا بنیادی یونٹ ہوتا ہے ، ہر لاج کے ساتھ ہال کا ہونا ضروری ہے، جہاں ممبران ثقافتی اور سماجی پروگرام اور میٹنگ کرتے ہیں ۔ لندن میں ایک "یونائیٹڈ گرینڈ لاج” بھی ہے۔
میسن Mason سنگتراش یا پتھر کا کام کرنے والوں کو کہتے ہیں ۔ فری میسن معنی آزاد راج معمار یا کاریگر جو بہتر دنیا بنانے کے خواہش مند ہیں۔ جس طرع ماضی میں مستری یا راج معمار پتھروں کو تراش کر خوبصورت گھر، گرجا گھر بناتے تھے ، اسی تصور کو سامنے رکھ کر فری میسن تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی اور نعرہ دیا کہ "لوگوں کی تربیت کرو تاکہ وہ بہتر دنیا بنا سکیں.”
لگتا ایسے ہے کہ 1390 سے پہلے سنگتراشوں اور آرکیٹیکٹوں نے اس کی بنیاد رکھی ہو، کیونکہ فری میسن کا لوگو (Logo) جو Compass, تکون اور فٹ اسکیل (Square) ہیں۔ یہ نشانیاں فری میسن کے لوگو میں موجود ہیں، جو راج معماروں کے اوزار ہیں۔Compass کا رخ زمین کے طرف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس زمین پر نگاہیں نیچے کرکے چلنے میں بھلائی ہے۔ Square کا رخ آسمان کی طرف ہے، اس مطلب ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا بنا کر خوبصورت تخلیق کی ہے، آپ اللہ تعالیٰ کے نمائندے ہیں آپ پر یہ زمیداری عائد ہوتی ہے کہ اس دنیا کو خوبصورت بنائیں ۔
فری میسن کے دستاویزات پڑھنے کے بعد ان کے درجِ ذیل مقاصد سامنے آتے ہیں: دنیا میں رہنے والے لوگوں کو بہتر انسان بنانے کے لیے جدوجہد کرنا ، آپس میں بھائی چارہ پیدا کرنا ، مطالعے کے ذریعے ممبرانِ کو معلومات دینا ، سماجی برابری ، شخصی آزادی ، مذھبی آزادی ، جمہوری حکومت ، تمام بچوں کے لیے تعلیم ، انسان دوستی ، سماجی اور خیراتی کاموں کے ذریعے بنی نوع انسان کی خدمت کرنا ، بیواہوں کے لیے گھر بنانا ، اولڈ ھائوسز کا قیام ، یتیم خانے قائم کرنا اور فلاحی کام کرنا ۔
فری میسن کے لٹریچر سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا کوئی بین الاقوامی ہیڈ کوارٹر نہیں ہے۔
لاج کو ٹیمپل کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ عبادت گاہوں کی طرح مقدس ہے ۔ جہاں دنیا کو بدلنے کے لیے مقدس کام کیئے جائیں ۔ لاج کو ٹیمپل کہنے پر یہ بات مشہور ہوئی کہ یہ فری میسن ایک الگ مذھب یا مذھبی فرقہ ہے اور یہ ایک سیاسی تنظیم ہے ، جس کے مقاصد خفیہ ہیں۔
فری میسنرین اس بات کی سختی سے ترید کرتے آئے ہیں۔ ان کے شائع شدہ دستاویزات سے بتا چلتا ہے اور وہ خود بھی کہتے ہیں کہ فری میسن کا نہ کوئی چرچ ہے ، نہ کوئی مسجد ، نہ ہی سیناگاگ اور نہ ہی خیمہ (جب یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا جا رہا تھا اس وقت عبادت کے لیے خیمہ استمعال کرتے تھے) اور نہ کوئی الگ عبادت گاہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فری میسن کا مذھب سے واسطہ ہے اور نہ ہی یہ عیسائیت کے خلاف ہے ۔
فری میسن والوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک یونیورسل فلاحی اور بھائی چارے کی تنظیم ہے، جس میں ھر مذھب کے لوگ شامل ہیں ۔ لاج میں ھر مذھب کی مقدس کتاب رکھی ہوئی ہوتا ہے ۔
فری میسن والوں کا کہنا ہے کہ ”وہ سچ کے لئے محنت کرتے ہیں اور بدی کا مقابلہ کرتے ہیں“
بہت سے فری میسن اپنے مذھب میں بڑے مذھبی ریے ہیں ۔ دنیا کے بہت سے ممالک کے سربراہان اس کے ممبر رہے ہیں۔
جب کوئی اس تنظیم میں داخل ہوتا ہے اس کی پہچان کے لیے اس کو تین خفیہ کوڈ دیے جاتے ہیں، تاکہ ممبران ایک دوسرے کو پہچان سکیں ۔ اس کی وجہ سے بھی فری میسن کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ ’یہ ایک خفیہ معاشرہ ہے‘ جس کے جواب میں فری میسنرین کا کہنا ہے کہ ’آپ خود آئیں ممبر بنیں اور معلومات حاصل کریں‘
فری میسن کے ممبر شپ حاصل کرنے بعد ممبران، جن کو فری میسنری کہا جاتا ہے ، ان کی تربیت کے لیے تین ڈگریوں کا اہتمام کیا جاتا ہے:
1.Entered Appreciate Degree
2.Fellow Craft Degree
3. Master Meson Degree
ماسٹر میسن ڈگری کے بعد کوئی بھی فری میسنری ، لاج کا پاسٹ ماسٹر معنی رھنما ہوسکتا ہے۔ لاج کا کوئی صدر یا چیئرمین نہیں ہے ۔ ڈگری یافتہ پاسٹ ماسٹر رینما ہو سکتا ہے ، جس کو "ماسٹر لاج” کہتے ہیں ۔
برصغیر میں فری میسن تنظیم کی شروعات 1730 میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی, جس نے کولکتہ میں ایک میٹنگ بلا کر ھندستان میں فری میسن کی بنیاد رکھی۔ شروعاتی ممبران میں کرناٹک کے نواب بندے علی خان بھی شامل تھے ۔ آگے چل کر موتی لال نہرو، مرزا اسداللہ غالب ، ھندستان کے سابق صدر فخرالدین علی احمد فری میسن کے ممبر بنے ۔
ھندستان میں بننے والی فری میسن لاج انگلینڈ کے یونائیٹڈ گرینڈ لاج سے منسلک تھی ۔1961 میں ھندستان میں الگ گرینڈ لاج کی بنیاد رکھی گئی ۔
موجودہ پاکستان پر مشتمل علاقوں میں فری میسن کی بنیاد 1842 کراچی میں رکھی گئی ، چارلس نیپئر اس کے اعزازی ممبر بنے تھے ۔ کراچی میں فری میسن کو کامیاب کرنے کا سہرا ڈاکٹر جیمس برنس کے سر ہے، جن کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا، اس لیے کراچی میں بننے والی فری میسن پر اسکاٹ لینڈ گرینڈ لاج کا اثر ریا ہے۔ اس کو ھوپ لاج بھی کہتے تھے۔پاکستان بننے سے پہلے ھر مذھب اور ھر کمیونٹی کے لوگ اس کے ممبر تھے۔
کراچی والے ھوپ لاج پر جو افتتاح کی تختی لگی ہے، اس پر 28 دسمبر 1914 کی تاریخ درج ہے ، اس وقت کے بہت سے پاسٹ ماسٹرز کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں، جن میں ایک نام کراچی کے ایک پارسی فیروز سی۔ سیتھانا کا بھی ہے۔
ایک بورڈ پر ٹیمپرس اور بینوولنس( Temperance and Benevolence ) فری میسن لاج کے بنیاد رکھنے والوں کے نام درج ہیں، جن میں کچھ نام یہ ہیں: ڈی۔ایف سیتھانا ، این ایس ولسن ، ایم این گیسٹا، ای۔ایف کائیانیوالا، جی۔ناؤس، ایم ایچ پٹیل ، ایم ایوب (جام میر ایوب عالیانی جو اردو فارسی اور سندھی کے مشہور شاعر تھے، انجمن اردو کے پہلے صدر تھے ، میونسپلٹی سمیت سمیت بہت سے اداروں کے ممبر اور سربراہ تھے) ہروفیسر بایم ایم شیرازی ، کے۔پی آڈوانی ، ڈبلیو ایف بھوجوانی ، ایم۔جی حسن و دیگر
ٹیمپرس اور بینوولنس لاجز کی بنیاد 1920 میں رکھی گئی تھی ، جس کا نمبر 1233 ایس۔سی ہے۔ بورڈ پر وہ نام درج ہیں، جو فری میسن کے پاسٹ ماسٹر تھے ۔
یہاں پر سنگ مرمر کی ایک تختی کراچی فری میسن لاج کے ورشپ فل ماسٹر بی۔ایچ رابرٹس شیپرڈ کے یاد میں لگائی گئی ہے، جو 21 جون 1896 کو کراچی میں وفات پا گئے تھے۔
اس وقت کے ضلع لوکل بورڈ کے صدر اور مشہور قوم پرست رہنما جی۔ایم۔سید ، جام میر ایوب عالیانی سے متاثر ہوکر فری میسن کا ممبر بنے۔ وہ اپنی کتاب ’میری کہانی میری زبانی‘ میں لکھتے ہیں کہ ”14 جنوری 1929 کو فری میسن لاج گیا تھا ,27 فروری 1929 فری میسن لاج کے ٹیمپرس اور بینوولنس ممبر کے لیے درخواست دی“ آگے وہ لکھتے ہیں کہ 10 مارچ 1930 کو میں فری میسن کے ٹیمپرس اور بینوولنس کی پہلی ڈگری حاصل کی
اس وقت فری میسن لاج کراچی کے 500 سے زائد ممبر تھے۔ تقسیم سے پہلے یہاں شام کو بڑی رونق ہوتی تھی۔عمارت کے سامنے وکٹوریہ اور بگھیوں کی قطاریں لگی ہوئی ہوتی تھی ۔
فری میسن کراچی میں 13 ستمبر 1873 کو جنرل میسن بینوولنس انسٹیٹیوٹ کا بنیاد رکھا گیا، جس کا مقصد سندھ میں ضرورت مند بیواہوں ، یتیموں اور عمر رسیدہ لوگوں کی مدد کرنا تھا ۔ نومبر 1873 کو اس کو ایسوسی ایشن ایکٹ 1863 1×× تحت رجسٹرڈ کیا گیا۔
تقسیم کے بعد اس تنظیم اور عمارت کو شک کی نگاہوں سے دیکھا جانے لگا۔ ایک شخص نے یہ بات مشہور کردی کہ ،”فری میسن یہودیوں کی ایک خفیہ تنظیم ہے، جس کو یہودی فنڈ فراھم کرتے ہیں اور اس کا نشان یہودیوں کے اسٹار آف ڈیوڈ کی طرع آٹھ کونوں والا یے۔”
مشہور بلاگر مرحوم اختر بلوچ نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا ہے کہ "تقسیم سے پہلے ایسی کوئی بات مشہور نہیں ہوئین یہ ایک حقیقت ہے کہ اس تنظیم میں تقسیم سے پہلے اور بعد میں مسلمان بھی شامل تھے، یہ بھی پروپگنڈا کا حصہ ہے اسٹار آف ڈیوڈ اور فری میسن کے لوگو کوئی فرق نہیں ،ان دونوں نشانیوں میں زمین اسمان کا فرق ہے ۔”
اس پروپگنڈا کے بعد سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں فری میسن کی سرگرمیوں کو محدود کیا گیا۔ 1973 میں بھٹو حکومت فری میسن لاج کو حکومتی کنٹرول میں لائی۔ اس کا پورا ریکارڈ حکومت نے اپنے کنٹرول میں لیا ۔
19 جولائی 1973 ڈان کے ایک خبر کے مطابق ،”وائی ایم سی اے کے قریب لوکل ھال کو کل حکومت سندھ نے مجسٹریٹ کی سربراہی میں سیل کرکے ریکارڈ کو اپنے قبضے میں لے لیا”ںخبر میں مزید لکھا ہے کہ "سرکار نے یہ قدم عوامی مطالبے اور فری میسن کے باغی گروپ کے مطالبے پر اٹھایا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ فری میسن یھودیوں کی ایک خفیہ تنظیم ہے ، جو اسلامی نظریات کے خلاف ہے” خبر میں یہ بھی لکھا ہے کہ "پورے پاکستان میں اس کے 1750 ممبر ہیں ، جن میں 700 کراچی کے لاج کے ہیں۔ کراچی کے علاوہ حیدرآباد ، سکھر، لاھور، ملتان ، راولپنڈی، تربیلا، کوئٹہ اور پشاور میں فری میسن لاج موجود ہیں،”
یہ سب کچھ ممبراں کے آپس کے جھگڑے کے نتیجے میں سرکار کو موقع مل گیا
سوال یہ کہ وہ ریکارڈ کہاں ہے؟ یہ ایک تاریخ ہے اس ریکارڈ کو حاصل کرنے کے لیے سندھ آرکائیوز کو کوششیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس تنظیم کے بارے میں اگر تاریخ کے طالب علم جانکاری حاصل کرنا چاہیں، تنظیم کے کراچی لاج کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہیں تو ان کے لیے اسانی ہو۔ کیونکہ کراچی فری میسن کے بارے میں سوائے عمارت میں لگے سنگ مرمر کے بورڈوں کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ حکومتوں کی لاپرواہی سے یہ پوری تاریخ گم ہے
لاھور میں فری میسن لاج کی بنیاد 1860 میں رکھی گئی تھی، جو لاھور ٹیمپل کے نام سے مشہور تھا۔ یہ عمارت اب پنجاب حکومت کے حوالے ہے جہاں مختلف ڈیپارٹمٹس کے دفاتر ہیں۔
فری میسن لاج کراچی کے آخری پاسٹ ماسٹر ڈاکٹر محمد ابراہیم شیخ تھے۔ جنہوں نے مئی 1973 میں ڈاکٹر آر ۔بی کبھاٹا سے چارج لیا تھا۔
بھٹو دور 1972 میں اس کی سرگرمیوں کو محدود کیے جانے کے باوجود یہ سرگرمیاں جاری رہیں۔ 1973 عمارت کو سیل کرکے پولیس کا پہرہ بٹادیا دیا گیا، تو شہر کے باقی علاقوں میں ممبران نے نت سرگرمیاں جاری رکھیں۔
1961 کو پاکستان سرکار نے پاکستان فورسز کے لوگوں پر فری میسن ، روٹری کلب اور لائنز کلب کے ممبر بننے پر پابندی لگا دی۔ 1969 میں باقی سرکاری ملازمین پر بھی ایسی پابندی لگادی گئی ۔
17 جون 1983 نے ضیا حکومت نے مارشل لا ریگولیشن 56 کے تحت فری میسن کے سرگرمیوں پر پابندی لگادی ۔29 دسمبر 1985 کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے جانب سے مارشل لا ریگولیشن 56 کے تحت فری میسن تنظیم پر مکمل پاپندی لگادی۔ آس آرڈر سے فری میسن تنظیم کو کالعدم قرار دیا گیا، جس کے شق (5) کے تحت فیصلے کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا ،اور شق (7 ) کے تحت اس حکم کے سامنے رکاوٹیں ڈالنے والے کو تین سال قید اور جرمانہ کیا جائے گا۔
اس طرح کراچی میں 1842 میں قائم یہ تنظیم ھمیشہ کے لیے پابندی کی نظر ہوگئی۔
دنیا میں پاکستان اور ایران دو ایسے ممالک ہیں، جنہوں نے فری میسن پر پابندی لگائی ہے۔
یہ عمارت ھوپ لاج کے طور پر مشہور ہے۔ اب سندھ وائلڈ لائف کے حوالے ہے جہاں لائبریری بھی اور عمارت اچھی حالت میں یے۔
2001 کو اس عمارت کو قومی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے۔
یہ تھی ایک تاریخ کی کتھا، امید ہے دوستوں کو یہ کاوش پسند آئے گی۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)