”یہ 2020ع کے صدارتی انتخاب کے بعد کے اس موسم گرما کی بات ہے، جب کووڈ-19 کی وبا سے ملک میں اموات اور الگ تھلگ رہنے کا سلسلہ جاری تھا اور سیاسی اور نسلی بے چینی کے ساتھ ساتھ امریکی کیپیٹل پر شورش کی فضا تھی۔ ایسے میں ہر شخص یہ جاننا چاہتا تھا کہ ان مسائل کو کن طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے اور وہ کسی طور مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ آپ کیا کر رہی ہیں؟ تو یہی وہ وقت تھا، جب میں نے اس بارے میں سوچنا شروع کر دیا“
یہ کہانی ہے امریکہ کے سابق صدر براک اوباما کی اہلیہ اور سابق خاتون اول مشیل اوباما کی۔۔ انہوں نے 2018ع میں منظرِ عام پر آنے والی اپنی بیسٹ سیلنگ یاد داشت ،Becoming کے بعد ایک اور کتاب، “The Light We Carry: Overcoming in Uncertain Times. تحریر کی ہے ۔
مشیل اوباما کے مطابق، انہوں نے اپنی یہ کہانی لکھنے کا فیصلہ اس لیے کیا، کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ لوگ کہانیوں سے سیکھتے ہیں
پیپلز میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں مشیل اوباما نے اپنی اس کہانی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ”2020 کا موسم گرما وہ وقت تھا، جب ان کی بیٹیوں سے لے کر ان کی سہیلیاں اور انہیں خط لکھنے والے اجنبی تک یہ جاننا چاہتے تھے کہ ان پریشان کن وقتوں سے کیسے نمٹا جائے۔ اور یہ ہی وجہ تھی کہ انہوں نے اس بارے میں سوچا اور پھر سخت حالات سے نمٹنے کے اپنے طریقوں پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ہے (دی لائٹ وی کیری ان ان سرٹین ٹائمز)، یعنی وہ روشنی، جسے ہم غیر یقینی حالات پر قابو پانے کے لیے اپنے ساتھ رکھتے ہیں
مشیل اوباما نے اپنے انٹرویو میں مشکل حالات سے نمٹنے کے اپنے طریقوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب میں مڑ کر اپنی زندگی کے اٹھاون برسوں پر نظر ڈالتی ہوں تو میں بتا سکتی ہوں کہ یہ وہ طریقہ ہے، جس سے میں خوف کا مقابلہ کرتی ہوں۔ یہ وہ باتیں ہیں، جو میں خود سے اس وقت کہتی ہوں، جب مجھے اپنا حوصلہ بلند کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے، جس کی مدد سے میں دنیا کی نظروں میں رہ سکتی ہوں، جو لازمی طور پر کسی بلند قامت سیاہ فام خاتون کو نہیں دیکھتی۔۔ اور یہ وہ طریقہ ہے، جس کی مدد سے میں اس وقت بکتر بند رہتی ہوں، جب مجھ پر حملہ ہوتا ہے“
ساشا اور ملیا اوباما کی والدہ سابق خاتونِ اوّل مسز اوباما نے اپنی کتاب میں اپنے بارے میں ہر چیز کو مثلاً ان کے لیے نئے دوست بنانا کتنا مشکل ہے، سے لے کر نسل پرستی، شادی، بچوں کی پرورش اور حتیٰ کہ مینوپاز کے اپنے تجربات تک پر کھل کر بات کی ہے
انہوں نے اپنی قریبی سہیلیوں کے ساتھ کچن ٹیبل پر اکٹھے ہونے کی کہانی بھی بیان کی ہے، جس کی سربراہی ان کی پچاسی سالہ والدہ میرین روبن سن کرتی تھیں۔ اس گروپ میں ہائیکنگ اور یوگا کی ان کی ایک دوست اور صدر بائیڈن کے بیٹے ہنٹر کی سابقہ اہلیہ کیتھلین بوہل شامل ہیں، جو ساشا اوباما کی بہترین دوست میسی بائیڈن کی والدہ بھی ہیں
2018ع میں ریلیز ہونے والی اپنی بیسٹ سیلنگ بک Becoming کے بعد مسز اوباما نے اس کی تشہیر کے لیے ایک بین الاقوامی دورہ کیا تھا۔ اس کتاب کی دنیا بھر میں ایک کروڑ ستر لاکھ سے زیادہ نقول فروخت ہوئی تھیں، جو کسی بھی سابقہ خاتونِ اوّل یا اپنے شوہر براک اوباما سمیت کسی بھی ماڈرن صدر کی یاد داشت سے زیادہ فروخت ہوئی تھی
اپنی نئی کتاب میں سابق خاتونِ اوّل نے اپنی کہانی ایسے بیان کی ہے، گویا وہ خود کو آئینے میں دیکھ رہی ہیں اور صرف اپنی خامیاں دیکھ رہی ہیں اور یہ بتایا ہے کہ وہ کس طرح اپنے آپ سے مہربان ہونے کی مشق کرتی ہیں
انہوں نے کہا ”میں مشکل حالات کا مقابلہ خود کو ٹی وی کے پروگرام دیکھنے میں مصروف رکھ کر بھی کرتی ہوں، جسے میرے شوہر ’لو براؤ ٹی وی‘ کہتے ہیں۔“
مشیل اوباما کہتی ہیں ”میں ایچ جی ٹی وی دیکھتی ہوں۔ اور میرے پسندیدہ پروگراموں میں فوڈ چینل پر کوئی بھی پروگرام اور “Married at First Sight” (میریڈ ایٹ فرسٹ سائٹ) جیسے ڈیٹنگ شوز شامل ہیں“
سابق خاتون اول نے خود کو ایک باخبر شہری بتایا، جو اخبار پڑھتی ہے، بریفس لیتی ہے، اپنے شوہر کے ساتھ وقت گزارتی ہے اور جانتی ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے
لیکن انہوں نے کہا ”جب کبھی مجھے اپنے لیے وقت ملتا ہے، تو مجھے خود کو دنیا بھر کی سوچوں اور پریشانیوں سے الگ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے“