ایموشنل ری اپریزل: اپنے زاویہِ فکر کو تبدیل کر کے آپ بھی تخلیقی صلاحیت کو بہتر بنا سکتے ہیں!

ویب ڈیسک

اگرچہ عام تاثر یہ ہے کہ تخلیقی رجحان ایک پیدائشی صلاحیت ہوتی ہے، جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض افراد فطری طور پر تخلیقی فکر سے مالامال ہوتے ہیں اور کچھ افراد میں یہ صلاحیت کم ہوتی ہے

لیکن یہ حتمی نہیں کیونکہ اب عام افراد بھی مشق کی بدولت اپنی تخلیقی فکر بڑھا سکتے ہیں

ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ تخلیقی عمل کسی کی میراث نہیں بلکہ اس کے لیے سوچ کے رخ کو بدلنے سے بھی وہی مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں، جو تخلیق کاروں میں عام ہوتا ہے۔ بالخصوص شدید جذباتی کیفیت میں مائنڈ سیٹ بدل کر تخلیقی امور انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ یعنی اگر آپ کسی نفسیاتی یا جذباتی صورتحال کے شکار ہوں، تو اسے مختلف انداز میں دیکھنے سے نئی راہیں پھوٹتی ہیں۔ یوں دھیرے دھیرے روایتی فکر سے ہٹ کر معاملات کو دیکھنے کی راہ نکلتی ہے۔ اسے ماہرین نے ایک بالکل نیا دماغی فریم ورک قرار دیا ہے اور اسے ’ایموشنل ری اپریزل‘ کا نام دیا ہے

جرنل آف آرگنائزیشنل بیہیویئر اینڈ ہیومن ڈسیشن پروسیسس میں شائع تجرباتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ تخلیق عمل کی تربیت ہر شخص حاصل کرسکتا ہے۔ یعنی ’جب ہم اپنے موجودہ نقطہ نظر سے ہٹ کر سوچتے ہیں، یعنی ابتدائی ردِ عمل کی بجائے مختلف برتاؤ کرتے ہیں تو اس میں تخلیقی عنصر جنم لیتا ہے۔ اس کی مسلسل مشق ہماری سوچ کو لچکدار بناتی ہے اور یوں ہم کنویں سے باہر بھی دیکھ سکتے ہیں‘

اس سلسلے میں کیلفیورنیا یونیورسٹی کی پروفیسر لِلی زو، اور دیگر ساتھیوں نے رضاکاروں کے تین مختلف گروہوں کو دو یکساں تجربات سے گزارا اور ان کا سروے بھی کیا۔ پہلا سروے کالج کے 279 طلبا و طالبات پر کیا گیا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ ’ایموشنل ری اپریزل‘ پر زور دیتے ہوئے نئے خیالات کے متعلق دل و دماغ کھلے رکھتے ہیں، وہ زیادہ تخلیقی ہوتے ہیں

دوسرے تجربے میں 335 افراد کو بھرتی کیا گیا۔ سب سے پہلے ان میں کشادہ قلبی اور وسیع نظری کی درجہ بندی (رینکنگ) کی گئی۔ پھر انہیں ایک ایسی فلم دکھائی گئی، جو کسی کو بھی غصے اور اشتعال میں مبتلا کر سکتی تھی۔ فلم کے دوران انہیں ہدایات بھی دی گئیں کہ وہ ایموشنل اپریزل استعمال کریں اور جب جب طیش آئے تو توجہ ہٹائیں، اور اس منظر کو مختلف انداز میں دیکھیں۔ تاہم ایک گروہ نے جذبات قابو کرنے والی ہدایات کو نظر انداز کر دیا

فلم کے بعد شرکا سے کہا گیا کہ وہ یونیورسٹی کی عمارت میں خالی جگہ کا بہترین استعمال بتائیں، جو کیفے ٹیریا بند کرنے سے بے مصرف پڑی ہے۔ رضاکاروں نے اپنی اپنی رائے دی، جو ماہرین کے ایک ایسے پینل کے سامنے رکھی گئی، جو اس پورے معاملے سے ناواقف تھے، لیکن وہ تخلیقی عمل کو خوب جانتے تھے۔ بعض مشورے بہت زبردست تھے، جن میں کہا گیا کہ قیلولے کے بند کمرے نما کیبن (پوڈز) بنائے جائیں یا بچوں کے کھیلنے کی جگہ رکھی جائے۔ ماہرین کے پینل نے ان مفید مشوروں کو تخلیقی قرار دیا

اگلے تجربے میں 177 افراد سے کہا گیا کہ وہ اشتعال انگیز فلم دیکھنے کی بجائے ایک ایسا تجربہ بیان کریں، جو انہیں غصے میں لا سکتا ہے۔ ان سے کہا گیا کہ وہ یہ صورتحال کسی دوسرے زاویئے (ایموشنل ری اپریزل) سے تحریر کریں یا پھر اسے نظر انداز کر دیں اور مٹی ڈال کر آگے بڑھ جائیں۔ اس میں غیرتخلیقی فکر رکھنے والوں نے مسئلے کا کوئی حل پیش نہیں کیا اور بس اسے نظر انداز کر دیا

ان دونوں تجربات میں وہ افراد تخلیقی ثابت ہوئے، جو وسیع النظر تھے اور ایموشنل ری اپریزل پر قادر تھے۔ جبکہ روایتی انداز میں سوچنے والوں نے صرف جذبات کو دبایا اور ان میں فرار کی راہ دیکھی گئی، جو تخلیقی عمل ہرگز نہیں

ماہرین کا خیال ہے کہ کامیاب اور تخلیقی انسان ’ایموشنل ری اپریزل‘ کی مسلسل مشق کرتے ہیں اور مشکل میں بھی سہولت نکال لیتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close