انڈونیشیا میں گزشتہ ایک عشرے کے دوران ایک ہزار سات سو سے زائد ماحول اور زمین کے تحفظ کے لیے سرگرم افراد قتل کیے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت مقامی باشندوں کی تھی۔ ان تمام افراد نے قدرتی ماحول کا تحفظ کرتے ہوئے اپنی جانیں دیں
جب انڈونیشیا کی حکومت نے نیا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ کیا تو ماحولیاتی محافظوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ جکارتہ دنیا کا پہلا بڑا شہر ہے، جو موسمیاتی بحران کی وجہ سے اپنے دارالحکومت کی حیثیت سے محروم ہو جائے گا۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ بورنیو کے سرسبز جزیرے پر دارالحکومت کے قیام کا فیصلہ نہ صرف اس جزیرہ نما علاقے کو مزید ماحولیاتی نقصان کا شکار بنا سکتا ہے بلکہ اس سے مقامی برادریوں کو ان کی آبائی زمینوں سے بے گھر بھی کر سکتا ہے
اگرچہ انڈونیشیا میں ایک نئے دارالحکومت کے منصوبے نئے ہیں، لیکن زمینی حقوق کی لڑائی مقامی بورین باشندوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ 2020ع میں تین مقامی کسانوں کو زمین سے کٹائی کرنے کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک پام آئل فرم نے یہ زمین ان سے چوری کی تھی۔ کسانوں میں سے ایک ہرمانس بن بائسن گرفتاری کے فوراً بعد پولیس حراست میں انتقال کر گیا
بائسن عالمی سطح پر اُن بہت سے ماحولیاتی محافظوں میں سے ایک ہیں، جنہیں اپنے علاقوں کو صنعتوں کی وجہ سے ہونے والی بے دخلیوں سے بچانے یا ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے کی قیمت اپنی زندگی دے کر چکانی پڑی
سرمایہ دار، کارپوریٹ، کاروباری گروپ، جرائم پیشہ گروہ اور حکومتیں طویل عرصے سے مقامی برادریوں کو ان کی آبائی زمینوں سے بے گھر کرتے آئے ہیں۔ ان تنازعات میں دیگر سرگرم کارکنوں کے مقابلے میں مقامی لوگوں کے مارے جانے کا امکان زیادہ ہے
اس حوالے سے ماحولیاتی اور انسانی حقوق کے نگراں ادارے گلوبل وٹنس کے شائع کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دہائی کے دوران کم از کم چھ سو تیرہ مقامی کارکنوں کو قتل کیا جا چکا ہے
انسانی حقوق کے گروپوں اور تنظیموں نے 2012ع اور 2021ع کے درمیان تقریباً ساٹھ ممالک میں ایک ہزار سات سو سے زیادہ ماحولیاتی اور زمین کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکنوں کی اموات ریکارڈ کی ہیں۔ ان ہلاک شدگان میں سے پینتیس فی صد سے زیادہ مقامی افراد تھے
لیکن ممکنہ طور پر یہ تعداد صرف رپورٹ ہونے والے کیسز کی بنیاد پر متعین کی گئی ہے، حقیقی ہلاکتوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔ گلوبل وٹنس کے ذریعے دستاویز کیے گئے کوئی پانچ فی صد کیسوں میں تفصیلات کی وضاحت نہیں کی گئی
آزاد پریس، آزاد نگرانی اور ایک مضبوط سول سوسائٹی کی کمی بھی رپورٹنگ میں گراوٹ کا باعث بن سکتی ہے۔ کچھ ممالک میں اس طرح کے حملوں کو ریکارڈ کرنے کی ایک طویل روایت ہے اور ان علاقوں ایسے واقعات کی بہتر نگرانی کے لیے مظبوط نیٹ ورک قائم کیے گئے ہیں
پچھلے تین سالوں کے دوران مقامی کارکنوں کی ہلاکت کی شرح گزشتہ سالوں کے مقابلے میں بھی زیادہ تھی۔ میکسیکو، کولمبیا، نکاراگوا، پیرو اور فلپائن اپنے آبائی باشندوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ممالک تھے
مقامی افراد کے حقوق کے ایک محافظ اور برازیل کی مقامی مشنری کونسل کے ایگزیکٹو سیکریٹری انتونیو ڈی اولیویرا بتاتے ہیں ”مقامی باشندوں کو طویل عرصے سے ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا رہا ہے اور پوری دنیا میں ان سے لڑا جاتا ہے‘‘
اگرچہ اعداد و شمار میں یہ ہمیشہ واضح نہیں ہوتا لیکن ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ دہائی میں عالمی سطح پر ریکارڈ کی گئی ہلاکتوں میں سے نصف سے زیادہ کے پیچھے زمین پر غاصبانہ قبضوں کے تنازعات ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اٹھارہ فی صد ہلاکتیں کان کنی اور معدنیات نکالنے سے منسلک ہیں اور یہ سب سے زیادہ خطرناک سمجھا جانے والا شعبہ تھا۔ اس کے بعد زرعی کاروبار کے تنازعات میں دس فی صد جبکہ جنگلات کی غیر قانونی کٹائی کے معاملات پر ہلاکتوں کی شرح نو فی صد تھی
پاکستان میں اس کی حالیہ مثال بحریہ ٹاؤن کراچی ہے، جو سندھ حکومت کے متعدد محکموں کی ملی بھگت سے ضلع ملیر سے ملحقہ ضلع جامشورو میں ہزاروں ایکڑ زمین پر قبضہ کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جنگلی حیات کا مسکن یہ پہاڑی علاقہ تباہ کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب وہ دیہاتی جن کا انحصار اس علاقے میں بارانی (برسات کے پانی پر منحصر) زراعت، پولٹری فارمنگ یا لائیواسٹاک پر ہے، انہیں مالی بدحالی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں سے ضلع ملیر میں صدیوں سے مقیم مقامی افراد کو مختلف انداز کے حملوں کے ذریعے سختی سے پریشان کیا گیا
ایک جانب اُس وقت ایس ایس پی راؤ انوار کی سرپرستی میں ملیر پولیس گوٹھوں پر چھاپے مارتی تھی اور مقامی لوگوں کو جھوٹے دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کرلیا جاتا تھا جبکہ دوسری جانب بحریہ ٹاؤن کے ایک ریٹائرڈ کرنل افسر، مسلسل دھمکیاں دیتے اور ڈراتے تھے۔ مقامی افراد کو اپنے گوٹھوں، تاریخی ورثے، زرعی زمینوں اور ماحول دوست علامات کے تحفظ کے لیے یہاں انتظامیہ کی فائرنگ اور پولیس تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ الٹا فائرنگ میں زخمی افراد ہی مقدمات میں نامزد کر دیے گئے
لاطینی امریکہ میں مقامی کمیونٹیز طویل عرصے سے اپنی زمینوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ خطہ برسوں سے ماحولیاتی اور زمینی محافظوں کے لیے مسلسل سب سے زیادہ ہلاکت خیز قرار دیا گیا ہے۔ کولمبیا مقامی سرگرم کارکنوں کے لیے سب سے خطرناک ملک ہے، جہاں پچھلی دہائی کے دوران 135 مقامی برادریوں کے محافظین ہلاک ہوئے
دنیا کے ایک دوسرے سرے پر فلپائن میں بھی 2012ع اور 2021ع کے درمیان مقامی باشندوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔ اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں ہلاک ہونے والے 270 ماحولیاتی رہنماؤں میں سے 114 مقامی تھے
گلوبل وٹنس کی ترجمان مرینا کومانڈولی کہتی ہیں ”بہت سے ایشیائی، مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک میں مقامی ماحولیاتی محافظین کی کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ۔ لیکن اس ترجمان کے بقول اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ماحولیاتی محافظوں کی پناہ گاہ ہیں۔ بلکہ اس کی وجہ ان ممالک میں کئی وجوہات کی بنا پر قتل کے ایسے واقعات کا اندراج نہ ہونا ہے“
فلپائن سمیت دنیا بھر میں انسانی حقوق کے کارکن اس خطرناک حقیقت کو تبدیل کرنے کے لیے قانونی فریم ورک پر زور دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں منیلا میں ماحولیاتی دفاعی بل منظور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 2020ع میں متعارف کرایا گیا یہ بل ابھی تک فلپائنی کانگریس میں زیر التوا ہے۔ یہ مجوزہ قانون ماحولیاتی محافظوں کی حفاظت اور ان کے خلاف مہلک اور غیر مہلک تشدد کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی ضمانت دے گا
دوسری جگہوں پر ہونے والے علاقائی معاہدے ماحولیاتی محافظوں کے تحفظ کی کوششوں کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ Escazu معاہدہ لاطینی امریکہ اور کیریبیئن میں ایک تاریخی معاہدہ ہے، جو 2021ع میں نافذ ہوا۔ یہ ماحولیاتی معلومات تک رسائی کی ضمانت دینے اور ماحولیاتی ہلاکتوں کی تحقیقات کی ضرورت کے لیے قانونی طور پر پابند ہونے والا پہلا سمجھوتہ بن گیا ہے
ابھی تک خطے کے کئی ممالک نے اس معاہدے کی توثیق نہیں کی ہے، ان میں برازیل بھی شامل ہے۔ لیکن بائیں بازو کے رہنما لولا ڈی سلوا کی حال ہی میں بولسونارو کے خلاف صدارتی انتخابات میں فتح کے بعد یہ صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ اپنے پہلے عوامی بیان میں دی سلوا نے ایمیزون میں جنگلات کی کٹائی کو کم کرنے اور مقامی لوگوں کے حقوق کے تحفظ کا عہد کیا۔ لیکن صرف اس معاہدے کی توثیق کافی نہیں ہے۔ میکسیکو اور کولمبیا جیسے دیگر ممالک نے ایسا کر چکے ہیں لیکن اسے مؤثر طریقے سے نافذ نہیں کر رہے ہیں
برازیل کی مقامی مشنری کونسل کے انتونیو ڈی اولیویرا کے لیے ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے مقامی کارکن موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی تباہی کو روکنے کے محاذ پر ہیں اور ان کی حفاظت کی اہمیت واضح ہے
ڈی اولیویرا کہتے ہیں ”یہ مقامی رہنما صرف اپنے علاقے یا ایک درخت یا ندی کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں، وہ پورے سیّارے اور بہتر زندگی کے لیے لڑ رہے ہیں‘‘